جون کا مہینہ جیسے ہی قریب آتا ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی اور بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کی وجہ وہ اہم دستاویز ہے جسے ’’وفاقی بجٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف آمدن اور خرچ کا گوشوارہ نہیں بلکہ حکومت کی ترجیحات، ارادوں اور مسائل کا عکاس ہوتا ہے۔ آئینی طور پر مرتب کردہ اور ضابطہ کار کے مطابق پیش کیا جانے والا یہ بجٹ عوام کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس کے مندرجات کا تجزیہ کریں، اس پر تنقید کریں اور بالآخر اس کی منظوری دیں۔ یہ عمل محض مالی کارروائی نہیں بلکہ جمہوریت کا ایک مظہر ہے جہاں ریاست کا مالی وژن سامنے آتا ہے اور اس پر بحث ہوتی ہے۔
پاکستان کے قیام 1947ء سے اب تک ستر سے زائد وفاقی بجٹ پیش کیے جا چکے ہیں، جن کا انداز، حکمت عملی اور نتائج وقت کے ساتھ مختلف رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد کے سادہ بجٹوں سے لے کر موجودہ دور کے پیچیدہ اور تکنیکی بجٹوں تک، ہر بجٹ اپنے زمانے کی معاشی حقیقتوں کا عکس اور قومی پالیسی کی راہ دکھانے والا نقشہ رہا ہے۔
وفاقی بجٹ پیش کرنے کی ذمہ داری ہمیشہ سے وزیر خزانہ پر رہی ہے، اگرچہ بعض مواقع پر یہ فریضہ وزیراعظم یا کسی قائم مقام وزیر نے بھی انجام دیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد نے پہلا بجٹ 28 فروری 1948ء کو سندھ اسمبلی چیمبر کراچی میں ڈپٹی صدر تمیز الدین خان کی زیر صدارت پیش کیا۔ اس کے بعد سے لے کر موجودہ دور تک منتخب حکومتوں اور نگران حکومتوں کے وزرائے خزانہ یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ 1985ء میں پارلیمانی جمہوریت کی بحالی کے بعد بجٹ اجلاس زیادہ باقاعدہ، منظم اور قانون سازی میں فعال ہو گئے۔ یہ بجٹ مباحثے پارلیمان کی کارکردگی اور سیاسی بلوغت کا پیمانہ بن گئے۔
1985ء سے اب تک کے بجٹ اجلاسوں کا تقابلی مطالعہ ایک مخلوط تصویر پیش کرتا ہے۔ ضابطہ کار کے مطابق اراکین پارلیمان کو بجٹ کے تمام پہلوؤں پر بات کرنے کی اجازت ہے،جیسے معیشت کی مجموعی صورتحال، ٹیکس تجاویز، ترقیاتی اخراجات، اور مختلف شعبوں کی ترجیحات۔ مگر حقیقت میں بجٹ تقاریر اور مباحثے اکثر ان بنیادی مالی امور سے ہٹ کر سیاسی نکتہ چینی، علاقائی مسائل، انتظامی شکایات اور دیگر موضوعات کی طرف نکل جاتے ہیں۔
17 جون 1975 ء کو بجٹ پر عمومی بحث کے دوران محترمہ ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر عشرت خاتون عباسی نے واضح رولنگ دی کہ ’’بجٹ پر عمومی بحث کے دوران اراکین کسی بھی معاملے پر اظہار خیال کر سکتے ہیں‘‘۔ 1985ء کے بعد کی اسمبلی کارروائیوں کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ اجلاسوں کے دوران ہونے والی تقریر کا اوسطاً صرف 40 فیصد حصہ بجٹ سے متعلقہ موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ باقی 60 فیصد وقت دیگر سیاسی معاملات پر صرف ہو جاتا ہے۔ سیاسی استحکام کے دنوں میں بجٹ پر مرکوز گفتگو کی شرح قدرے بڑھ جاتی ہے، مگر سیاسی بحران یا حکومت کی تبدیلی کے مواقع پر بحث زیادہ جذباتی اور کم پالیسی پر مبنی ہو جاتی ہے۔
سال 1988، 1993، 1999، 2008 اور 2018 ء کے بجٹ اجلاس خاص طور پر سیاسی تبدیلیوں، نگران حکومتوں یا اچانک حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے متاثر ہوئے، جبکہ 2002، 2013، اور 2021 ء کے سیشن زیادہ منظم اور موضوعاتی تھے، جن میں پارلیمانی کمیٹیوں اور حزب اختلاف نے بجٹ دستاویزات پر تفصیل سے کام کیا۔
قائدین اور رہنماؤں کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ وہ اسپیکرز جنہوں نے ضابطوں پر سختی سے عمل درآمد کروایا اور وہ وزرائے خزانہ جو ایوان میں موجود رہے اور سوالات کا جواب دیتے رہے، ان کی موجودگی نے بحث کو مالیاتی مواد پر مرکوز رکھا۔ جب قیادت کمزور ہوئی اور نظم و ضبط میں نرمی آئی، تو بجٹ بحث بھی متاثر ہوئی۔ مزید یہ کہ بیشتر اراکین پارلیمان کے پاس بجٹ کے تکنیکی پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے مطلوبہ سہولتیں اور معاونت موجود نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ان کی شرکت محدود رہتی ہے۔
ان رکاوٹوں کے باوجود، بجٹ پر بحث پارلیمانی تقویم کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اپوزیشن حکومت کے دعوؤں کو چیلنج کرنے کا موقع حاصل کرتی ہے اور حکومت اپنی کارکردگی کا دفاع کرتی ہے۔ اسی موقع پر پارلیمان عوام کو ٹیکس، سبسڈی، سرکاری سرمایہ کاری اور اقتصادی اصلاحات کے معاملات پر براہ راست پیغام دیتی ہے۔ اس لحاظ سے، اگرچہ بعض اوقات گفتگو موضوع سے ہٹ جاتی ہے، تب بھی وہ جمہوری مقصد کی تکمیل کرتی ہے، اگرچہ تکنیکی گہرائی کی قیمت پر۔
جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے، عوامی قرضوں کے دباؤ، اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اصلاحات کی شرائط کا سامنا ہے، تو بجٹ پر زیادہ باخبر اور سنجیدہ بحث کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اراکین پارلیمان کو یہ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بجٹ صرف سیاسی دستاویز نہیں بلکہ ہر پاکستانی شہری کی زندگی پر اثر انداز ہونے والا ایک مالیاتی میثاق ہے۔ ہمیں سیاسی تھیٹر کے رجحان کو مالیاتی شعور، تحقیق اور احتساب سے بدلنا ہوگا۔ تب ہی قومی اسمبلی اپنی آئینی ذمہ داری ، عوام کے وسائل کی نگہبان بننے،کا صحیح معنوں میں حق ادا کر سکے گی۔
1985 ء سے اب تک کے سفر کو دیکھا جائے تو پارلیمان میں تدریجی ارتقاء ضرور ہوا ہے،اکثر راستے سے ہٹنے کے باوجود وہ لمحات بھی آئے جب اسمبلی نے اپنے مالیاتی فرائض سنجیدگی سے نبھائے۔ اگر بجٹ اجلاس کو دوبارہ سنجیدہ گفت و شنید کے ایک مؤثر فورم میں بدلا جا سکے، تو یہ نہ صرف معیشت بلکہ قوم کی مجموعی سمت کے تعین کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مسئلہ قواعد و ضوابط میں نہیں بلکہ ان نمائندوں کے ارادے، تیاری اور سنجیدگی میں ہے جو عوام کے نام پر ایوان میں بولنے آتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ہوتا ہے کے بعد
پڑھیں:
وزیراعظم سمیت اہم سیاسی شخصیات کا بھارت میں طیارہ حادثے پر اظہار افسوس
وزیراعظم سمیت اہم سیاسی شخصیات کا بھارت میں طیارہ حادثے پر اظہار افسوس WhatsAppFacebookTwitter 0 12 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس ) وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے بھارت میں طیارہ حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹ (ایکس) پر جاری بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے احمد آباد کے قریب ایئر انڈیا طیارہ حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ سانحہ انتہائی دلخراش ہے، متاثرہ خاندانوں کے لیے دعائیں اور ہمدردیاں دکھ کی اس گھڑی میں بھارتی عوام کے ساتھ ہیں۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بھی ایکس پر جاری پیغام میں احمد آباد، گجرات میں ایئر انڈیا کی پرواز کے حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہماری ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی بھارت میں طیارے کے حادثے پر اظہار افسوس کیا اورکہا کہ آج بھارت میں طیارہ گرنیکا دلخراش واقعہ پیش آیا ہے، سانحے پر بھارتی عوام سے ہمدردی اور اظہار تعزیت کرتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے بھی احمد آباد میں بھارتی طیارہ گرنے سے 241 مسافروں کی ہلاکت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا، مریم نواز نے کہا کہ طیارہ حادثہ میں ہلاک مسافروں کے ورثا کے غم میں شریک ہیں۔خاتون اول اور رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری نے بھی بھارتی طیارہ حادثے پر اظہار افسوس کیا اورکہا کہ ہماری ہمدردیاں متاثرہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایئر انڈیا طیارہ حادثہ میں زندہ بچ جانیوالے مسافر کے اہم انکشافات ایئر انڈیا طیارہ حادثہ میں زندہ بچ جانیوالے مسافر کے اہم انکشافات راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 1 ارب 94 کروڑ روپے کرپشن ،نیب کا سابق ڈی جی پی ایچ اے سیالکوٹ کے آبائی گھر پر چھاپہ پاکستان پریس کلب برطانیہ کے سالانہ انتخابات15جون کو شیڈول،مسرت اقبال راجہ بلامقابلہ صدر ، ساجد یوسف بلامقابلہ سیکرٹری جنرل منتخب احمد آباد کا سانحہ ناقابلِ بیان صدمہ ہے ، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نواز شریف کا احمد آباد طیارہ حادثے میں ہلاکتوں پر اظہار افسوس شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کیلئے اقدامات جاری رکھے جائیں،چیئر مین سی ڈی اےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم