ایرانی صدر کا دوٹوک اعلان: دشمن کو احمقانہ اقدام پر پشیمان کریں گے
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران:ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اسرائیل کے حالیہ فوجی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اس جارحیت کا جائز اور طاقتور جواب دے گا جس سے دشمن کو اپنے احمقانہ اقدام پر پشیمان ہو جائے گا۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق صدر ایران نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنی قیادت پر اعتماد رکھیں اور ان کے ساتھ کھڑے رہیں،ایرانی عوام اور حکام اس مجرمانہ اقدام پر ہرگز خاموش نہیں رہیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مسعود پزشکیان کی زیر صدارت ایک غیر معمولی کابینہ اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں حملے کے بعد کی صورتحال اور ایران کی ممکنہ جوابی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے جمعہ کی علی الصبح ایران پر بیک وقت متعدد فضائی حملے کیے، جنہیں “پیشگی دفاعی کارروائی” قرار دیا گیا، ان حملوں میں ایران کے ایٹمی پروگرام سے منسلک اہم تنصیبات، فوجی اڈے، اور بعض اعلیٰ کمانڈرز و ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی حملے کے بعد ایران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ سپریم لیڈر آیت علی خامنہ ای نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ “اسرائیل کو سنگین سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایرانی وزارت خارجہ اور پاسدارانِ انقلاب کے ترجمانوں نے بھی اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔