Express News:
2025-06-14@13:25:10 GMT

مضبوط قوت ارادی!

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

رچرڈ نورس ولیمز (Richard Norris Williams) 29جون 1891میں جینوا میں پیدا ہوا تھا۔ محض بارہ برس کی عمر میں اس نے ٹینس کھیلنا شروع کر دی۔ والد چارلس ڈواین ولیمز (Charles Duane Williams) بذات خود ‘ ٹینس کے اچھے کھلاڑی تھے۔ رچرڈ اپنے والد ہی سے یہ کھیل سیکھتا تھا۔

باپ اور بیٹے کے درمیان حد درجہ احترام ‘محبت اور رفاقت کا تعلق تھا۔ 1911 میں رچرڈ‘ سوئٹز لینڈ کا قومی چیمپئن بن چکا تھا۔ اسی برس امریکا میں ہاروڈ یونیورسٹی میں چلا گیا۔ وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑتا رہا۔ ٹینس میں اس کا اسٹائل کافی جارحانہ تھا۔ اتنے زور کی شاٹ لگاتا تھا کہ مد مقابل کو روکنا مشکل ہو جاتا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے اسپورٹس ایڈیٹر Alison Danzigنے اس کے کھیلنے کے متعلق لکھا تھا کہ وہ’’ بہادرانہ طریقے سے ٹینس کھیلتا ہے۔بلکہ معلوم پڑتا ہے کہ رچرڈ کافی غیر محتاط طرز پر ٹینس کھیلتا ہے۔مگر اس کامقابلہ کرنا ناممکن ہے‘‘۔ 1921میں رچرڈ‘ امریکا کے اولین دس کھلاڑیوں میں آ چکا تھا۔ مگر اسی برس‘ ایک ایسا واقعہ ہو ا۔ جس نے اس عظیم کھلاڑی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا۔

اپریل‘ 1912 میں ‘ وہ اور اس کا والد ‘ مشہور زمانہ بحری جہاز Titanicمیں امریکا جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ دونوں ‘ جہاز کی فسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ جب دنیا کے بہترین جہاز کا برفانی تودہ سے ٹکراؤ ہوا اور جہاز ڈوبنے لگا۔ تو ولیمز نے ساتھی مسافر بچانے شروع کر دیے۔ تمام خطرات کے باوجود‘ اس کا والد بھی اس مشکل کام میں شامل تھا۔

ولیمز کا انسانی ہمدردی کا جذبہ اس قدر توانا تھا‘ کہ ایک کیبن میں محصور مسافر کو دروازہ توڑ کر بچا لیا۔ عملہ نے اسے بڑا برا بھلا کہا۔ مگر‘ ولیمز اپنے کام میں مصروف رہا۔ عملہ کا خیال تھا کہ یہ جہاز کبھی ڈوب نہیں سکتا اور ولیمز بحری جہاز کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلکہ انھوں نے ولیمز کو قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی۔ تھوڑی دیر میں ہی عملہ بھرپور طریقے سے غلط ثابت ہوا۔ آخری وقت میں‘ ولیمز اور اس کے والد نے جان بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی۔ پانی بہت زیادہ ٹھنڈا تھا۔ سردی‘ ہڈیوں تک پہنچ رہی تھی۔

مگر جان بچانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ قدرت کا نظام دیکھیے ۔ ٹائی ٹینک کی مہیب چمنی‘ رچرڈ کے والد پر آن گری۔ اس میں آگ کی تپش تھی۔ بلکہ چند عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ڈوبتے وقت تک‘ اس چمنی سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ چارلس ‘ اس چمنی کے زور سے ڈوب گیا۔ رچرڈ اپنے والد کو مرتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ مگر اس کی کوئی مدد نہ کر پایا۔پانی میں رہنے کی بدولت ‘ رچرڈ کی دونوں ٹانگیں نیلی ہو چکی تھیں۔ اور وہ مرنے کے قریب تھا۔ ذہن میں آخری خیالات آ رہے تھے۔ ٹینس کے متعدد میچ اس کی نظروں کے سامنے خواب کی طرح گھوم رہے تھے۔

اہلیہ کی شباہت سامنے بار بار گردش کر رہی تھی۔ زندہ رہنے کے تمام امکانات تقریباً ختم تھے۔ مگر معجزاتی طور پر عملہ کے ایک شخص نے اسے لائف بوٹ میں لٹا دیا۔ کشتی میں سرد پانی گھٹنوں تک موجود تھا۔ اسی اثنا میں Carpathiaنام کا بحری جہاز ‘ ڈوبتے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے پہنچ گیا۔ رچرڈ ان خوش قسمت افراد میں تھا۔ جنھیں مدد بروقت میسر ہو گئی۔ مگر مسئلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ کارپیتھیا کے ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا اور تجویز دی کہ اس کی دونوں ٹانگیں ختم ہو چکی ہیں اور ان کو کاٹنا پڑے گا۔ مگر رچرڈ نے اپنی ٹانگیں کٹوانے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپریشن نہ ہوا‘ تو وہ مر جائے گا۔ رچرڈ نے ڈاکٹر کی کسی تجویز پر اقرار نہیں کیا۔دیگربچنے والے مسافروں کے ہمراہ اسے امریکا پہنچا دیا گیا۔

جب گھر پہنچا اور اپنے فیملی ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے بھی یہی مشورہ دیاکہ ٹانگیں نیلی ہو چکی ہیں اور انھیں کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر رچرڈ نے ایک بے بس انسان کی مانند زندگی گزارنے سے انکار کر دیا۔ وہ کرتا یہ تھا کہ روزانہ دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام کو پیدل چلتا تھا۔

شروع شروع میں اسے کافی تکلیف ہوتی تھی۔ مگر رچرڈ نے کسی کا بھی سہارا لینے سے انکار کر دیا۔ بہت آہستہ آہستہ چلتا تھا۔ طاقتور قوت ارادی کے بل بوتے پر رچرڈ ‘ چلنے سے دوڑنے تک کا مشکل ترین مرحلہ عبور کرتا گیا۔ صرف اور صرف ورزش سے اس کی دونوں ٹانگیں بتدریج ٹھیک ہونے لگیں۔ تیرہ ماہ کی مشقت سے بالکل ٹھیک ہو گیا۔ بلکہ لوگ یہ کہنے لگے کہ وہ پہلے سے بھی بہتر ہو چکا ہے۔ 1914میں رچرڈ ٹینس کی دنیا میں دوسرے نمبر پر پہنچ گیا۔ 1923 تک ٹینس کی دنیا پر بادشاہت کرتا رہا۔ 1968میں ستتر (77) سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گیا۔

سوال یہ ہے کہ رچرڈ نے‘ کس طرح‘ اپنی خوفناک بیماری کو شکست دی؟ دلیل پر مبنی صرف ایک جواب ذہن میں آتا ہے۔ اور وہ ہے کہ رچرڈ نے یہ ان ہونی‘بلند پایۂ قوت ارادی کے بل بوتے پر کی۔ اس نے ورزش سے میڈیکل سائنس کے کئی مفروضوں کو بھی شکست دے ڈالی۔خطرناک ترین بیماری کو کیسے پچھاڑنا ہے۔

مضبوط قوت ارادی سے اس نے سائنسدانوں کے سوچنے کے لیے‘ نئی جہتیں متعین کر ڈالیں ۔ ہمیں اس واقعہ سے کیا سبق ملتا ہے؟ اپنے ملک کے معروضی حالات دیکھ کر میں یقینی طور پر کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہوں۔ اس لیے کہ ہمارے خطے میں افرادی قوت کے اکثر معاملات کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ کھیل کود میں بین الاقوامی سطح پر پہنچنا تو خیر اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

اس کے علاوہ پوری آبادی‘ مختلف طرح کی ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا ہے۔ اگر کوئی ایک آدھ انسان‘ اپنی ذاتی محنت سے کچھ حاصل کر بھی لیتا ہے ‘ تو عمومی طور پر وہ ایک منفرد معاملہ ہے۔ عمومی نہیں۔ دراصل ہمارے سماج میں تمام معاملات اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ مضبوط قوت ارادی ہونے کے باوجود کئی مرتبہ انسان ہار سکتا ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ ہمارے ہاںچٹانی ارادوں سے انسان ترقی نہیں کر سکتا۔ اس طرح کی متعدد کامیاب مثالیں ہمارے اردگرد پھیلی نظر آتی ہیں۔ مگر سماج میں اوپر پہنچنے کے مساوی مواقع بالکل ناپید ہیں۔

ذرا برصغیر کے ان سیاسی قائدین پر غیر متعصب نظر ڈالیے تو آپ کو قوت ارادی کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جواہر لال نہرو‘ حقیقت میں بہت رئیس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس شخص نے برطانوی تسلط کے خلاف 3259 دن جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ نو مرتبہ گرفتار ہوا‘ اور اس کا جیل کا دورانیہ کئی سالوں پر محیط ہے۔ شاید آپ کے ذہن میں آئے کہ مجھے نہرو کی مثال نہیں دینی چاہیے۔ چلیے طالب علم‘ پاکستان کے ایک عظیم شخص آغا شورش کاشمیری کی مثال دیتا ہے۔

اس بلند پایۂ شخص کانام کس نے نہیں سنا۔ آغا صاحب‘ نے جمہوریت اور آزادی کے لیے عملی جدوجہد ‘ برطانوی سامراج کے دور سے شروع کی۔ برطانوی دور میں شورش صاحب ان گنت بار‘ سخت ترین قید کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے مگرنعرہ حق سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ چٹان کی طرح ایستادہ ‘ یہ شخص‘ پاکستان بننے کے بعد بھی حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتا رہا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی ‘ا ن گنت بار جیل میں رہے۔ وہاں کس خوبی نے انھیں ڈولنے نہیں دیا۔ صرف اور صرف مضبوط قوت ارادی۔ معاف فرمایئے ۔ آج بھی وہی ابتر حالات ہیں۔

کسی قسم کا ناپسندیدہ نعرہ یا تحریر‘ آپ کی آزادی کو ختم کر سکتا ہے۔ عدالت وغیرہ آپ کو کسی قسم کا کوئی انصاف مہیا نہیں کر سکتی۔ عرض کرتا چلوں کہ پہاڑ کو توڑا جا سکتا ہے مگر انسان اگر مضبوط قوت ارادی کا وطیرہ اختیار کر لے، تو ناقابل شکست ہو جاتا ہے۔

آپ بھی آگے بڑھیے۔ محنت، قوت اور استطاعت سے مشکل معاملات کو حل کیجیے۔ اگر ولیمز ‘ معذوری کو فتح کر کے ٹینس کی دنیا میں ستارے کی طرح چمک سکتا ہے ۔ تو جناب آپ کیوں گھبراتے ہیں۔ حوصلہ کیجیے۔ دنیا آپ کے قدموں میں جھکی ہو گی۔ ہر انسان‘ مشکل سے مشکل معاملہ‘ اپنی فولادی قوت ارادی سے حل کر سکتا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑا کوئی بھی ہتھیار نہیں۔اس کلیے کو آزما کر دیکھیے ۔ ششدر رہ جائیں گے کہ ناکامی کا لفظ آپ کی زندگی سے خارج ہو چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مضبوط قوت ارادی رہے تھے سکتا ہے کر دیا کے لیے تھا کہ اور اس

پڑھیں:

جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ

اسلام ٹائمز: اگر ہم نے "مولا" کو اسکے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اسکی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دیگی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔ تحریر: محمد حسن جمالی

کبھی کبھی لفظوں سے نہیں، وقت کے سانسوں سے ہدایت برستی ہے۔ کبھی ایک جملہ، پوری امت کی تقدیر رقم کرتا ہے۔ غدیر کا واقعہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ نبوت کے بعد ہدایت کی امانت کا ابلاغ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب آسمان نے سجدہ کیا اور زمین نے گواہی دی کہ ہدایت کا چراغ خاموش نہیں ہوا، بلکہ اسے دوسرے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ جملہ شاید پڑھنے میں مختصر لگے، لیکن اگر روح اس کے اندر جھانک لے تو محسوس ہوگا کہ غدیر کا اعلان صرف ایک بیان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے فکری و روحانی سفر کا سنگِ میل ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب کلماتِ نبوت نے وقت کی نبض تھام کر آنے والی صدیوں کی سمت متعین کی۔ غدیر صرف ایک جلسہ، جشن یا صرف ایک اجتماع نہ تھا، بلکہ یہ مقامِ ابلاغ تھا اور نبوت کے اتمام اور امامت کے آغاز کا نقطۂ اتصال۔ یہاں الفاظ نہیں بول رہے تھے، یہاں صداقت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں رسولِ خدا (ص) نے صرف ایک شخصیت کو بلند نہیں کیا، بلکہ امت کو امانت سونپی۔

غدیر کے صحرا میں نبیؐ نے اچانک حکم دیا کہ "ٹھہرو!" کارواں رُک گیا۔ منبر بنا، چادر بچھائی گئی اور نبوت کے تاجدارؐ نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا اور کھلے الفاظ میں فرمایا "من کنت مولاہ، فھذا علی مولاہ!"، "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے۔" یہ جملہ نہ صرف الفاظ کا ایک خوبصورت سنگھار تھا، بلکہ پوری امتِ محمدیہ کے لیے قیادت، ولایت اور امامت کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ غدیر کے فوراً بعد آیت نازل ہوئی: "الیوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً"، "آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔" سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف دوستی کے اعلان پر دین مکمل ہوسکتا ہے۔؟ کیا محبت کے جذبات پر قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں۔؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ یقیناً انتہائی مضحکہ خیز و بچگانہ سوچ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علیؑ کی ولایت کا اعلان تھا، جس کے بغیر دین کی عمارت ادھوری رہتی۔ اس سے پہلے نبی کریم (ص) نے مجمعِ عام سے ایک اہم سوال کیا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟"، "کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! جب سب نے اقرار کر لیا، تب آپ نے فرمایا: "من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ۔۔۔" گویا نبیؐ نے پہلے اپنے اختیار اور ولایت کا اعتراف کروایا، پھر علیؑ کو اسی اختیار کا وارث قرار دیا۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے لئے جس نکتے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کا مطلب صرف دوست یا محبوب نہیں ہوسکتا، یعنی یہ معقول نہیں، کیونکہ نبیؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے، وہ صرف ایک دوست کا نہیں ہوسکتا۔

اگر "مولیٰ" کا مطلب صرف دوست مانا جائے تو کیا نبیؐ بھی امت کے صرف دوست تھے؟ کیا وہ صرف محبت بانٹنے والے تھے۔؟ نہیں! بلکہ نبیؐ امت کے رہنماء تھے، امام تھے، صاحبِ امر تھے اور اولیٰ بالتصرّف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت علیؑ کے لیے وہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہی معانی، وہی مفاہیم اور وہی عظمتیں علیؑ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک ہی جملے میں ایک ہی لفظ دو الگ معنی کیسے رکھ سکتا ہے۔؟ یہ بلاغت کے اصولوں کے خلاف ہے، فصاحت کے ادب سے باہر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نبوت کی حکمت اور خدا کے الفاظ کی توقیر کے منافی ہے۔ "مولا" کا مطلب وہی ہے، جو نبیؐ کے لیے تھا، یعنی اختیار، ولایت، رہبری، رہنمائی اور اولی بالتصرف۔

اسی لیے علیؑ کو "مولیٰ" کہنا دراصل انہیں نبیؐ کے بعد امت کا روحانی، فکری، دینی اور عملی قائد تسلیم کرنا ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها"، "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" کیا یہ بھی محض محبت کا اظہاریہ تھا کہ فرمایا: "علی مع الحق والحق مع علی"، "علی حق کے ساتھ ہے،اور حق علی کے ساتھ ہے۔۔۔" نہیں، صاحبو! یہ سب جملے امامت، رہبری اور ولایت کے مظاہر تھے۔ نبیؐ نے کسی محبوب صحابی کو اس انداز میں پیش نہیں کیا، جیسے علیؑ کو کیا، لیکن افسوس! بعض نے "مولا" جیسے مقدس لفظ کو صرف "دوستی" تک محدود کرکے نبوت کے اس روشن اعلان کو غبارِ تاویل میں گم کر دیا! انہوں غدیر کے منبر کو محض ایک خطبہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ آئندہ صدیوں کا نقشہ تھا۔

مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ فقط تاریخی طور پر، بلکہ شعوری طور پر۔اگر ہم نے "مولا" کو اس کے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اس کی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاست میں خواتین کا کردار
  • ڈاکٹر کون سا؟(دوسرا حصہ)
  • اور اب قطر نشانے پر ہے
  • ہم دل و جان سے ممنون ہیں
  • راکھ میں دبی امید کی کرن
  • جس معنی میں نبی مولیٰ اسی معنی میں ہی علی مولیٰ
  • ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں آسٹریلیا کی پوزیشن مضبوط، جنوبی افریقا 138 رنز پر ڈھیر
  • چین اور امریکہ کے مابین ایک دوسرے کے تجارتی خدشات کو دور کرنے میں نئی پیشرفت
  • بھارتی جارحیت کے دوران ترکیہ نے ایک سچے اور مضبوط دوست کا کردار ادا کیا جسے پاکستان ہمیشہ یاد رکھے گا، سینیٹر عرفان صدیقی