data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کوئٹہ (صباح نیوز) پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو موجودہ حکومت سے رابطے نہیں رکھنے چاہئیں، حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب کو مل کر موجودہ حکومت کو گرانا ہے۔ پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے کہاکہ جن افراد کے وسائل ان کی آمدنی سے زیادہ ہیں ان کے اثاثے ضبط کیے جائیں اور قوم کو لوٹی گئی دولت واپس دلائی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ خطے کی صورتحال پاکستان، افغانستان، ایران سمیت یہاں کے حکمرانوں کے لیے امتحان ہے۔پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور موجودہ حکومت کو گرانا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ یہاں 10 سے 12کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ملک کتنے ارب ڈالرز کا مقروض ہے۔پاکستان کا زیادہ تر بجٹ قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہر صوبے کا اس کے وسائل پر حق ہوناچاہیے،ملک میں آئین بالادست ہونا چاہیے، اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ جان بوجھ کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جایا جا رہا ہے، بلوچستان کے ساتھ تماشہ کیا جا رہا ہے۔ 5روپے فی یونٹ والی بجلی 55روپے میں دی جا رہی ہے،ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہمارے ملک میں ملی یکجہتی ہو، پاکستان میں ملی اتحاد ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: موجودہ حکومت رہا ہے

پڑھیں:

پانچ سال بعد تاریخ موجودہ دور کو کیسے دیکھے گی؟

دنیا کی تاریخ یہ بات بسا اوقات ہمیں بتا چکی ہے ، دکھا چکی ہے کہ جب بھی کوئی فرماں روا تخت اقتدار پر براجمان ہوتا ہے اس کی تمام خامیاں روپوش ہو جاتی ہیں۔ اس کی لغزشوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، اس کی غلطیاں دھندلا سی جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ حاکم وقت اپنے تخت سے اترتا ہے اس کے چند برسوں بعد سب پر اس دور کی حقیقت کھلتی ہے، اس کی خامیاں بھی سب کو یاد آ جاتی ہیں، لغزشوں سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے اور غلطیاں بھی طشت از بام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے تاریخ کسی دور میں کیے گئے فیصلوں کو اس دور کے گزرنے کے چند برس بعد پرکھتی ہے۔ یہ استدلال پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بھی درست ہے۔

ہمارے حکمران بھی ابن الوقت لوگوں میں گھرے رہتے ہیں جو ان کی شان میں قصیدے بھی پڑھتے تھے، زمیں اور آسمان ایک کر دیتے تھے۔ حاکم وقت کی توصیف میں مبالغہ بھی جی بھر کر ہوتا رہا، غلو سے بھی کام لیا جاتا رہا اور حقیقتوں پر بھی پردہ ڈالا جاتا رہا۔ لیکن ایک دور کی حقیقت دوسرے دور میں کھلتی ہے، ایک زمانے کا سحر دوسرے زمانے میں ٹوٹتا ہے، ایک عہد کی قلعی دوسرے عہد میں کھلتی ہے۔ یہی تاریخ کا درس ہے، یہی اقتدار کی حقیقت ہے۔

حضرت ضیا الحق کا دور تھا، ہر طرف مرد مومن، مرد حق کا نعرہ گونج رہا تھا۔ ہر کوئی جہاد افغانستان کا سفیر بنا ہوا تھا۔ مجلس شوریٰ قائم ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اس کا ممبر بننے کا خواہاں تھا۔ مرد مومن بسا اوقات ٹی وی کی ریکارڈڈ تقاریر میں امت مسلمہ کی حالت زار پر آبدیدہ ہو جاتے اور شیروانی کی جیب سے سفید براق رومال نکالتے اور پھر اس سے وہ آنسو پونچھتے تھے جنہیں بدخواہ ایک سمندری مخلوق کے آنسو قرار دیتی تھی۔

وہ دور کرب ناک بیت گیا، ایک طیارہ کیا تباہ ہوا، تاریخ کے سارے صفحے الٹ گیا۔ چند برس بعد ہم پر منکشف ہوا کہ افغان جہاد ہماری غلطی تھی۔ تب ہمیں پتا چلا کہ غیر جماعتی انتخابات ایک ڈھکوسلہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ مجلس شوریٰ ایک جمہوریت کش ادارہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ وہ آنسو مگر مچھ کے آنسو تھے۔ مگر ان حقیقتوں کے واشگاف ہونے کے لیے ہمیں ایک حادثے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، وہ اس وقت لکھتا تھا کہ اب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ یہ بعد از مرد مومن پتا چلا کہ پانی پینے کے بعد شیر بکری کو کھا جاتا تھا۔

پیپلز پارٹی کا جب بھی دور آیا لوگوں نے نعرہ لگایا اب آ گئی عوام کی حکومت۔ اب تخت گرائے جائیں گے اور تاج وغیرہ اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کو ان کا حق ملا۔ یونینوں کی عید ہوگئی۔ طلبا تنظیمیں بحال ہوئیں۔ آئین میں وہ بنیادی تبدیلیاں کی گئیں جو لازم تھیں۔ صوبوں کو حق ملا، آئینی ترامیم تجویز کی گئیں۔ دانش وروں، فنکاروں کے دن پلٹ آئے۔ انسانی حقوق کی بات ہونے لگی۔ لیکن دور چاہے 1988 کا ہو، 1993 کا یا پھر پیپلز پارٹی کی 2008 والی حکومت ہو۔ اس کے ختم ہونے کے چند برس بعد ہمیں پتا چلا کہ یہ تو بڑے کرپٹ لوگ تھے۔ ہر منصوبے میں بندر بانٹ ہو رہی تھی۔ اقربا پروری کی انتہا ہو چکی تھی۔ جیالے سب خزانہ لوٹ کر چلے گئے۔ یہ پہلے ٹن پرسںٹ تھے، پھر نائینٹی پرسنٹ تک پہنچ گئے۔ یہ سب حقیقتیں اس وقت منکشف ہوئیں جب پیپلز پارٹی کا دور ختم ہو گیا۔ جب تک وہ دور چلتا رہا، اس وقت تک ہمیں کسی نے ان باتوں کا شائبہ تک نہ ہونے دیا۔

جنرل مشرف کا دور آیا تو قصیدہ خوانوں نے پھر لفظوں کو شیرے میں بھگونا شروع کردیا۔ بتایا گیا کہ یہ ہے قوم کا اصل مصلح، اسے کہتے ہیں ریفارمر۔ یہ ختم کرے گا کرپشن۔ یہ لائے گا واپس لوٹی ہوئی دولت۔ یہ کرے گا کڑا احتساب۔ پھر این آر او لکھا گیا۔ پھر غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کی بات چلی۔ پھر ابن الوقت لوگوں نے سچ کو چھپانا شروع کردیا۔ کسی نے مارشل لا کی بات نہیں کی۔ سب دور مشرف کو اصل جمہوریت کہنے لگے۔ کوئی فیس بک اور کوئی ٹوئٹر پر ان کی مقبولیت کے ترانے گانے لگا۔ کوئی ان کی پرکشش شخصیت کے سحر کے قصے سنانے لگا۔ جب دور مشرف بیت گیا تب پتا چلا کہ یہ ایک ڈکٹیٹر تھا۔ جمہوریت کا دشمن تھا۔ انسانی حقوق کا قاتل تھا۔ اس کے دور میں کرپشن بھی بہت ہوئی۔ خزانہ بھی بہت لوٹا گیا۔ پر تشدد لسانی جماعتوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی اور پی ٹی وی کی دیواریں پھاند کر جمہوریت پر شب خون بھی مارا گیا۔ لیکن یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ جب تک جنرل مشرف اقتدار میں رہے تنقید کرنے والی زبانیں گنگ رہیں اور اعتراض کرنے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔

ن لیگ کا جب بھی دور آیا، سب کہنے لگے اب کرے گی معیشت ترقی، اب ہوگی خوشحالی، اب تاجر برادری کے دن پھریں گے، اب کرے گی اسٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں، اب بنیں گی موٹر ویز، اب جال بچھے گا میٹروز کا، اب غربت ختم ہوگی، اب اورنج ٹرین بھی چلے گی اور اب ہوں گے بھارت سے تجارتی معاہدے۔ اب سارک بھی فعال ہوگا اور اسحاق ڈار دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بننے کا اعلان بھی کریں گے۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن جب ایسے کسی دور کے چار پانچ سال گزر جاتے ہیں تب پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ تو غلط لوگ تھے۔ ڈان لیکس کے ذمہ دار یہ تھے۔ موروثی سیاست کے بانی یہ ہیں۔ بٹ برادری کے علاوہ اس دور میں کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کی فیکٹریوں میں بھارتی کام کرتے ہیں۔ ان کی اسٹیل مل کا سریا ہر منصوبے میں لگتا ہے۔ ان کو نہ آئین کی سمجھ ہے نہ ان کے دور میں قانون پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بادشاہوں کی طرح اس ملک کو چلاتے ہیں۔

عمران خان کی مثال بھی کچھ مخلتف نہیں، جب خان صاحب اقتدار میں تھے سب اچھا تھا، دنیا میں سب سے زیادہ مشہور بھی وہ تھے اور مقبول بھی۔ بیرون ملک پاکستانی انہی کے گرویدہ تھے۔ کرپشن کے خلاف وہی جہاد کرتے تھے۔ ترقی کا سونامی ان کے دم قدم سے آیا لیکن جب خان صاحب کا دور ختم ہوا تو پتا چلا کہ یہ تو 9 مئی والے تھے۔ یہ انتقامی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ یہ تو کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کرتے تھے لیکن یہ سب ایک دم پتا نہیں چلا، رفتہ رفتہ یہ حقائق تاریخ نے منکشف کیے۔

ماضی کے ادوار کے بخیے ادھڑنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجود دور، ہائبرڈ نظام اور شہباز شریف کی حکومت کے بارے میں تاریخ پانچ سال بعد کیا کہے گی؟ تو اس سلسلے میں قرائن بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس دور کے معترضین کے منہ میں گھنگنیاں ہوں گی کیونکہ ارادے، عزائم اور امکانات بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس ملک میں یہی دور ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

wenews پیپلزپارٹی تاریخ تخت اقتدار حکمران ضیاالحق کا دور عمار مسعود لغزش وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پہلے موجودہ حکومت کے خلاف خبریں نہیں آتی تھی لیکن اب آیا کریں گی، شہباز گل
  • موجودہ عدالتی طرزِ عمل جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے، عمر ایوب کا چیف جسٹس کو خط
  • پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری  میں 4.1 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ، چین سر فہرست
  • چینی کا بحران:شوگر ملوں سے متعلق بڑا فیصلہ کر لیا
  • تحصیلدار فتح جنگ چوہدری شفقت محمود کی مافیا کے خلاف بلا امتیاز کاروائیاں
  • غزہ میں انسانی بحران پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے، اسرائیلی ماہرین تعلیم
  • پانچ سال بعد تاریخ موجودہ دور کو کیسے دیکھے گی؟
  • غزہ کے بحران پر پاکستانی و ایرانی وزرائے خارجہ کی ٹیلیفونک گفتگو
  • پاکستان ٹیم اگلے ماہ شارجہ میں تین ملکی سیریز کھیلے گی