بے بسی اور لاچاری اسرائیل کا مقدر
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے ایرانی قوم کے نام اپنے پیغام میں حالیہ جنگ کے بارے میں اہم نکات بیان کیے ہیں۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ بزدل صیہونی دشمن نے ایران کی اسلامی سرزمین پر مجرمانہ اقدام انجام دیا ہے جس کے نتیجے میں بے بسی اور لاچاری اس کا مقدر بن جائے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: "وہ یہ مت سوچیں کہ حملہ کیا ہے اور یہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے، نہیں، انہوں نے اس کا آغاز کیا ہے اور جنگ شروع کی ہے اور ہم انہیں ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ اس کا حساب چکائے بغیر یہ قصہ ختم کر دیں۔" قائد انقلاب اسلامی ایران نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی قوم اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کی خواہاں ہے اور غاصب صیہونی رژیم کو منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ کر رہی ہے لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح افواج اس خبیث دشمن پر کاری ضرب لگائیں گی۔ تحریر: یداللہ جوانی
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے اوہام پرست حکمرانوں نے آخرکار امریکہ کی ہمہ جہت اور بھرپور حمایت سے غلط اندازوں کا شکار ہو کر ایک بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی کا ارتکاب کر ڈالا ہے اور ایران کی عظیم اور باایمان قوم کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مجرمانہ اور احمقانہ اقدام ہے۔ اسلامی مزاحمت کے عظیم سپوت شہید قاسم سلیمانی نے ایک بار دشمن طاقتوں کی جانب سے ایران کے خلاف ممکنہ جنگ کے آغاز کے بارے میں کہا تھا کہ جنگ کا آغاز تو دشمن کے اختیار میں ہے لیکن اس کا انجام ہمارے ہاتھ میں ہو گا۔ اگرچہ اس جنگ کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے نامور قائدین شہید ہو گئے ہیں اور ان کی شہادت پر مبنی دیرینہ آرزو پوری ہو گئی ہے لیکن ان شہداء کا خون ایرانی قوم اور مسلح افواج کا عزم مزید راسخ ہونے اور حوصلے بلند ہونے کا باعث بنے گا۔
ان عظیم کمانڈرز کی شہادت نے ایران کی مسلح افواج میں صیہونی دشمن سے انتقام لینے اور اسے نابود کر دینے کے جذبے کو دو چندان کر دیا ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم جنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں چند اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کو شہید کر کے اور چند جوہری مراکز کو نشانہ بنا کر اس وہم کا شکار ہو گئی تھی کہ وہ فتح یاب ہو گئی ہے اور اسے جنگ میں برتری حاصل ہو گئی ہے۔ صیہونی حکمران فتح کے نعرے لگانا شروع ہو گئے تھے لیکن اس کے بعد جیسے ایران کی جانب سے "وعدہ صادق 3" آپریشن کا آغاز ہوا تو پانسہ پلٹ گیا اور تل ابیب سمیت مقبوضہ فلسطین کے تمام شہروں پر ایران کے ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی بارش شروع ہو گئی۔ اسی طرح ایران کا ایئرڈیفنس سسٹم بھی بحال ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسرائیل کے دو ایف 35 طیارے بھی گرا دیے گئے۔
ایف 35 جنگی طیارے امریکی ساختہ جدید ترین جنگی طیارے ہیں جنہیں سرنگون کر کے ایران انہیں مار گرانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ صیہونی حکمرانوں کو اپنے پاس موجود جدید ترین جنگی سامان پر گھمنڈ ہے جبکہ دوسری طرف اسلام کے مجاہدین ایمان اور جہاد کے جذبے سے سرشار ہیں۔ گذشتہ رات ایران نے کئی مراحل میں تل ابیب سمیت پورے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی رژیم کے اہم فوجی، اقتصادی اور صنعتی مراکز کو نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا ذرائع پر منظرعام پر آنے والی تصاویر اور ویڈیوز سے بخوبی ان حملوں کے نتیجے میں صیہونی رژیم کو پہنچنے والے شدید نقصان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورے مقبوضہ فلسطین پر شدید خوف و ہراس کی فضا طاری ہے جبکہ غزہ سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے ایرانی قوم کے نام اپنے پیغام میں حالیہ جنگ کے بارے میں اہم نکات بیان کیے ہیں۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ بزدل صیہونی دشمن نے ایران کی اسلامی سرزمین پر مجرمانہ اقدام انجام دیا ہے جس کے نتیجے میں بے بسی اور لاچاری اس کا مقدر بن جائے گی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: "وہ یہ مت سوچیں کہ حملہ کیا ہے اور یہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے، نہیں، انہوں نے اس کا آغاز کیا ہے اور جنگ شروع کی ہے اور ہم انہیں ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ اس کا حساب چکائے بغیر یہ قصہ ختم کر دیں۔" قائد انقلاب اسلامی ایران نے اس بات پر زور دیا کہ ایرانی قوم اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کی خواہاں ہے اور غاصب صیہونی رژیم کو منہ توڑ جواب دینے کا مطالبہ کر رہی ہے لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مسلح افواج اس خبیث دشمن پر کاری ضرب لگائیں گی۔
اس کے فوراً بعد ہی وعدہ صادق 3 آپریشن شروع کر دیا گیا جس کے پہلے مرحلے میں ایران کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے اہم فوجی اور اقتصادی مراکز پر سینکڑوں میزائل داغے جا چکے ہیں۔ ایران کے اعلی سطحی کمانڈرز نے اعلان کیا ہے کہ وعدہ صادق 3 آپریشن ختم نہیں ہوا اور جب تک اس کی ضرورت محسوس کریں گے اسے جاری رکھا جائے گا۔ اب تک انجام پانے والے حملوں میں تل ابیب کے علاقے کریات میں صیہونی رژیم کی وزارت جنگ بھی میزائل حملوں کا نشانہ بن چکی ہے۔ مختلف میڈیا ذرائع پر شائع ہونے والی تل ابیب سے تصاویر اور ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزارت جنگ سمیت کئی اہم مراکز میزائل حملوں کی زد میں آئی ہیں۔ نشانہ بننے والے مراکز میں سے ایک تل ابیب میں واقع اسرائیل کو جوہری تحقیقاتی مرکز بھی ہے۔
تل ابیب کے علاوہ حیفا کی بندرگاہ بھی وعدہ صادق 3 آپریشن کی زد میں آئی ہے۔ عبری ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی دارالحکومت میں تقریباً 7 مقامات ایران کے میزائل حملوں کی زد میں آئے ہیں اور وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ ایک اعلی سطحی اسرائیلی عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کے سینکڑوں میزائل صیہونی رژیم میں آ کر گرے ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق وعدہ صادق 3 آپریشن کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کے کئی علاقوں کی بجلی بھی منقطع ہو گئی ہے۔ صیہونی ٹی وی کے چینل 14 نے ایک سیکورٹی ذریعے کے بقول بتایا کہ ایرانی حکام عبری سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حملوں کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں۔ عبری اخبار ہارٹز نے خبر دی ہے کہ تل ابیب میں واقع 32 منزلہ عمارت بھی ایران کے میزائل حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق ان حملوں میں 100 سے زیادہ صیہونی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: رہبر معظم انقلاب غاصب صیہونی رژیم انقلاب اسلامی مقبوضہ فلسطین میزائل حملوں کے نتیجے میں ایرانی قوم مسلح افواج میں صیہونی کیا ہے اور پیغام میں ہو گئی ہے ایران کی کہ ایران ایران کے نے ایران انہوں نے کا آغاز تل ابیب اس بات دیا ہے جنگ کے
پڑھیں:
اسرائیل کے حملوں سے ہماری کارروائیوں میں شدت آئیگی، یمن
اپنے ایک جاری بیان میں یمنی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے یہ حملے یمنی عوام پر دباؤ بڑھانے اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ رواں شب یمن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں عالمی برادری کو مخاطب کیا کہ اسرائیل نے جولائی سے اب تک کئی بار یمن کے عام شہریوں اور اہم بنیادی ڈھانچوں پر حملے کئے۔ اس دوران صیہونی رژیم نے مغربی یمن میں الحدیدہ، رأس عیسیٰ اور الصلیف جیسی اہم بندرگاہوں کو نشانہ بنایا۔ یہ بندرگاہیں لاکھوں یمنی شہریوں کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ ہیں جن میں خوراک، دواء، ایندھن اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ انہی بندرگاہوں کے ذریعے ملک کی 80 فیصد ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے یہ حملے یمنی عوام پر دباؤ بڑھانے اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔
تاہم یمن نے واضح کیا کہ ان حملوں سے غزہ کی حمایت میں ہمارے موقف پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ یہ حملے غزہ کی حمایت میں یمنی فوجی کارروائیوں کو مزید تیز کریں گے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2023ء میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد یمن، فلسطینیوں کا ایک سرگرم حامی بن کر سامنے آیا۔ یمن نے اسرائیل کے خلاف کئی میزائل اور ڈرون حملے کئے تا کہ تل ابیب پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ جنگ بندی کرے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔ زیادہ تر حملوں میں جنوبی اسرائیل بالخصوص ایلات کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ کچھ حملے تل ابیب اور بن گوریون ایئرپورٹ کی جانب بھی کئے گئے۔ یہ حملے اسرائیل کے لئے ایک سیکیورٹی چیلنج بن چکے ہیں۔ جس کے جواب میں اسرائیل نے یمن میں مختلف اہداف پر فوجی کارروائیاں کیں۔