چین میں بچپن میں بچھڑنے والی جڑواں بہنیں برسوں بعد اتفاقیہ طور پر دوبارہ مل گئیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ: چین میں بچپن میں ایک دوسرے سے جدا ہو جانے والی جڑواں بہنیں برسوں بعد نہ صرف دوبارہ مل گئیں بلکہ اس سے بھی پہلے وہ ایک دوسرے کی بہترین دوست بن چکی تھیں، انہیں علم ہی نہ تھا کہ وہ درحقیقت بہنیں ہیں۔
چینی صوبے ہیبئی سے تعلق رکھنے والی زینگ گاؤشین اور ہائی شیاؤ صرف 10 دن کی تھیں جب ان کے والدین نے غربت کے باعث دونوں کو مختلف خاندانوں کے سپرد کر دیا۔ والدین کی ہدایت پر دونوں خاندانوں نے ایک ہی شہر میں رہائش اختیار کی لیکن بچیوں کو ان کے رشتے کے بارے میں کچھ نہ بتایا گیا۔
ہائی شیاؤ کو 17 سال کی عمر میں اپنے اسکول کی ایک ساتھی سے علم ہوا کہ ایک کپڑوں کی دکان پر ایک لڑکی کام کرتی ہے جس کی شکل اس سے بالکل ملتی ہے۔ جب اس نے دکان پر جاکر زینگ گاؤشین کو دیکھا تو دونوں میں دوستی ہوگئی۔ کچھ عرصے میں انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کی تاریخ پیدائش ایک ہی ہے، آواز، انداز، بالوں کا اسٹائل اور پسندیدہ کھانے بھی یکساں ہیں۔
دونوں کے گود لینے والے خاندانوں کو معلوم تھا کہ یہ جڑواں بہنیں ہیں، لیکن انہیں ڈر تھا کہ کہیں سچ جاننے کے بعد دونوں لڑکیاں انہیں چھوڑ نہ دیں، اسی لیے حقیقت چھپائے رکھی۔ تاہم 14 ماہ بعد دونوں خاندانوں نے سچ بتا دیا کہ وہ جڑواں بہنیں ہیں۔
دونوں کو اب ایک دوسرے سے ملے 20 سال ہوچکے ہیں، اور حیرت انگیز طور پر انہوں نے بغیر مشورے کے ایک دوسرے کے قریب فلیٹس خرید لیے۔ دونوں کے بچے بھی ایک ہی عمر کے ہیں، 13 سال کے، اور ایک ہی اسکول میں، ایک ہی کلاس میں زیر تعلیم ہیں۔
ہائی شیاؤ کے مطابق ان کے بچے بھی شکل و صورت میں مشابہت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر اوقات دونوں بہنوں میں سے کوئی ایک ہی اسکول جاکر بچوں کے اساتذہ سے مل لیتی ہے اور اساتذہ کو پتا بھی نہیں چلتا۔
دونوں بہنوں نے ملنے کے بعد اپنے اصل والدین کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ایک دوسرے سے ملنے کے 20 سال مکمل ہونے پر دونوں نے سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پوسٹ شیئر کی جس میں لکھا: “گزشتہ دو دہائیوں کا ہر دن خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔”
یہ کہانی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگئی اور لاکھوں صارفین کے دلوں کو چھو گئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جڑواں بہنیں ایک دوسرے ایک ہی
پڑھیں:
گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
گھوٹکی میں دریائے سندھ کے اونچے درجے کے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو نقل مکانی کے بعد شدید مشکلات کا سامنا ہے، جہاں ایک خاتون نے حالات سے ہار ماننے کے بجائے اپنے روایتی ہنر کو سہارا بنالیا ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بہت سے گھروں کو اجاڑ گئیں، مگر حوصلے اور ہنر کے ساتھ جینے کی جستجو آج بھی زندہ ہے۔ سیلاب سے متاثر دریائے سندھ میں واقع ضلع گھوٹکی کے گاؤں ابرو لکھن کی 60 سالہ مائی ڈاتول نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے پالتو جانوروں کا بھی سہارا بن کر سب کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
جلال پور پیروالا سے پانی نہ نکالا جاسکا، ایم فائیو موٹروے پر شگاف ڈالنے کی تجویزمحکمہ انہار نے پر موٹروے پر شگاف ڈالنے کو انتہائی ضروری قرار دیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور متعلقہ حکام پر مشتمل کمیٹی آج جائزہ لے گی۔
یہ بہادر خاتون مختلف رنگوں کے دھاگوں اور شیشہ کا استعمال کرکے سندھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرتی ہیں۔
خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا، مگر میرے ہاتھوں کا ہنر میرے ساتھ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے بھوکے نہ سوئیں اور جانور بھی زندہ رہیں۔ مشکل حالات کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
حالیہ سیلاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی کے تمام گھر سیلابی پانی میں ڈوب گئے تھے، روڈا اور ایل ڈی اے سے دریائے راوی کی زمین پر غیر قانونی سوسائٹیوں کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب میں گھر بہہ گیا، مجبوری ہے اب یہاں بیٹھے ہیں، بچیوں کیلئے ٹینٹ ملا ہے مگر کھانا خوراک کچھ نہیں دیا ابرو کے گاؤں سے آئے ہیں۔
خاتون نے مزید کہا کہ ٹوپیاں بناتی ہوں، اس میں ایک سے دو ہفتے لگ جاتے ہیں اور 500 سے ایک ہزار میں فروخت ہوتی ہے، سات بچے ہیں ان کا کھانا پورا کروں یا مال مویشی کا چارہ پورا کروں۔
مقامی لوگ بھی اس خاتون کے حوصلے کو سراہتے ہیں اور انہیں ایک جیتی جاگتی مثال قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سماجی ادارے ایسے باہمت سیلاب متاثرین کی مدد کریں تو یہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ اس عارضی خیمہ بستی میں مکین خاندانوں کیلئے روشنی کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔