سانگھڑ میں، جسے 70 کی دہائی میں سندھ کا ویت نام کہا جاتا تھا، آج کل ایک ہی موضوع زیربحث ہے اور وہ ہے پیر پگارو کی جانب سے ایک خلیفہ وریام فقیر اور ان کے کئی نائبین کی برطرفی اور کچھ مریدوں کے لیے ’’ہاتھ بند، در بند‘‘ کا حکم۔ سندھ اور بلوچستان میں صدیوں سے مروج ہے کہ جب دو افراد میں ملاقات ہو تو ایک حال بیان کرتا ہے اور دوسرا احوال دیتا ہے۔
یعنی ایک دوسرے کو باخبر کرتے ہیں کہ گاؤں گوٹھ میں کیا ہورہا ہے، کیا تبدیلی آئی ہے، غمی، خوشی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ گو کہ اب سوشل میڈیا نے خبر جلد پہنچانے کی ذمے داری لے لی ہے لیکن اب بھی یہ پرانا سلسلہ رائج ہے۔ عیدقرباں پر سانگھڑ میں پیرپگارہ کے مریدین کی وریامانی سنگت کے خلیفہ اور سابق رکن سندھ اسمبلی وریام فقیر خاصخیلی سنجھورو والے کی برطرفی اور ان کی جگہ سابق تحصیل ناظم ڈاکٹر ہاشم خاصخیلی جھول والے کی تقرری نے حُر جماعت میں جسے ’’اللہ الغنی و انتہم الفقرا‘‘ کی نسبت سے جماعت الفقرا بھی کہتے ہیں، بھونچال برپا کر دیا۔
مریدین نے تو اسے ’’مرشد کریم‘‘ کا فیصلہ جان کر آمنا و صدقنا کہا لیکن غیرمرید استفسار کرنے لگے ہیں کہ پس پردہ کیا داستان ہے اور بعض لوگ معلوم کرتے ہیں کہ ’’ہاتھ بند، در بند‘‘ سے کیا مراد ہے۔ تفصیل میں جانے کے لیے حُر جماعت کی انتظامی ساخت جاننا ضروری ہے۔
لعل شہباز قلندرؒ کی نگری سیہون شریف کے نواح میں لک علی کا علاقہ لکیاری پکارا جاتا ہے۔ یہاں مکہ شریف سے آئے سید علی مکی کی 20 ویں پشت میں سید بقا شاہ گزرے ہیں جو خاندان پگارا کے جدامجد تھے۔ سید محمد بقا کے اٹھارہ بیٹوں میں سے شہرت سید محمد راشد نے پائی۔ سید محمد بقا کی رحلت پر تبرکات میں سے حضور اکرم ﷺ کی دستار سید محمد راشد کو ملی اور وہ پگارو کہلائے اور دوسرے بھائی کو پرچم یا علم ملا تو ان کی شناخت جھنڈے والے ٹھہری۔ سید محمد راشد کی اولاد پرچ کی نسبت سے جھنڈے والے کہلائی اور پگارو خانوادہ راشدی کہلاتا ہے۔
پیران پگارو کے سندھ، کچھ ، جیسلمیر اور بھاولپور سے بلوچستان تک لاکھوں مرید ہیں، نیز سندھ و پنجاب کی متعدد درگاہیں پیر گوٹھ کو پیرخانہ تسلیم کرتی ہیں۔ سید محمد راشد نے سوئی شریف والوں کو خلافت دی، ان سے بھرچونڈی اور بھرچونڈی سے امروٹ شریف کو فیض پہنچا اور امروٹ سے دین پور و دیگر کو خلافت ملی۔ آج بھی لاڑکانہ کی خانقاہ مشوری سمیت کتنی ہی درگاہیں اور خانقاہیں پیر پگارا کے لکھے اور بولے کو حکم سمجھ کر تعمیل کرتی ہیں۔
یاد آیا کہ 1970کے انتخابات میں پیر محمد قاسم مشوری جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر چابی کے نشان سے لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے مدمقابل تھے کہ پیرپگارو کے کہنے پر انھیں ایوب کھوڑو کے حق میں دست بردار ہونا پڑا، کیوںکہ مرشد کے حکم کی سرتابی گوارہ نہ تھی۔ خود پیران پگارا ایسا ہی احترام کوٹ سدھن، گجرات پنجاب کو دیتے ہیں، کیوںکہ وہ ان کا پیرخانہ ہے اور آج بھی نئے پیر پگارا کی دستارکا پہلا بل کوٹ سدھن کے سجادہ نشین ہی دیتے ہیں۔ موجودہ پیر صبغت اللّہ شاہ راشدی کی دستار بندی بھی ان ہی نے کی تھی۔
پیر حزب اللہ شاہ کا دور تھا، جنھیں تخت دھنی پکارا جاتا ہے، جب مریدین کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر حُر جماعت کو جسے ’’اللہ غنی ہے اور باقی سب فقیر‘‘ کی وجہ سے جماعت الفقرا بھی کہتے ہیں، نیز اس کے وابستگان خود کو فخریہ اور اعلانیہ فقیر کہلواتے ہیں، 12 چوکیوں میں تقسیم کیا گیا:
چوکی گاہکی تحصیل نارا (ضلع خیرپور)
چوکی کاہڑ تحصیل چھاچھرو (ضلع تھر)
چوکی کلیان ڈیپلو، ننگرپارکر (ضلع تھر)
مکھ چوکی شہدادپور (ضلع سانگھڑ)
چوکی خطو (نواب شاہ، نوشہروفیروز اضلاع)
چوکی لاڑ (مٹیاری، نوابشاہ، نوشہروفیروز اضلاع)
چوکی گمھ (سکھر، گھوٹکی اضلاع اور ریاست بھاولپور)
چوکی پار (سکھر، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ، دادو اضلاع)
چوکی جیسلمیر (بھارتی ریاست جودھ پور، جیسلمیر)
چوکی اچھڑوتھر (ضلع سانگھڑ کی ریگستانی پٹی)
چوکی نارا (عمرکوٹ، سانگھڑ اضلاع کے کچھ علاقے)
چوکی بان (میرپورخاص ضلع)
ان چوکیوں میں علیحدہ علیحدہ سنگتیں ہیں۔ یعنی خلفا اور جماعت کے مقتدر لوگوں نے اپنے اپنے احباب پر مشتمل تعلق کے رشتے استوار کیے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مرید رہتا سانگھڑ میں ہو لیکن نسبت خیرپور کی سنگت سے ہو تو وہ اس سے تعلق جوڑے رکھے گا، اور ہر چوکی سال کے ایک ماہ درگاہ کا نظم و نسق سنبھالے گی اور تمام اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے۔ ذی الحجہ میں یہ ذمے داری ’’بان‘‘ کے سپرد ہے جب کہ محرم میں ’’گاہکی‘‘ والے فریضہ ادا کریں گے اور ربیع الاول میں یہ فریضہ مکھ چوکی کے سپرد ہوگا۔ یہ سنگتیں شناخت کا بھی ذریعہ ہیں کہ درگاہ پر کسی انجان یا مشتبہ شخص سے پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ تعلق کس سنگت سے ہے۔
پیر حزب اللہ شاہ کے دور میں جب خانوادے کے دیگر لوگ بھی وہ احترام چاہنے لگے جو پیر کو ملتا ہے تو خلیفہ نبی بخش لغاری نے کچھ اصول وضع کیے اور حُر مریدین میں ’’فرق‘‘ گروہ کی بنیاد پڑی دیگر کو ’’سالم‘‘ پکارا جانے لگا۔ فرق کہلوانے والے عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ ایک ہے اس کی عبادت کی جائے، نبی ﷺ ایک ہیں کہ ان کی شریعت پر چلا جائے، تو مرشد بھی ایک ہے جس کے حکم کی سرتابی نہیں کرنی چاہیے۔
خلیفہ نبی بخش لغاری کے پوتے غلام نبی لغاری نے اس گروہ کو سرفروشی کی راہ پر چلایا کیوں کہ حزب اللّہ شاہ 5 برس کی عمر میں مسند نشیں ہوئے تھے، اس لیے ریاست خیرپور کے حکم راں اور پیر صاحب کے کچھ قریبی عزیزوں کی نظریں بھی کم عمری کے سبب سلسلے کے انتظام پر تھیں، چناں چہ طے کیا گیا کہ دیگر کا احترام ہوگا لیکن حکم کی تعمیل مرشد کی ہوگی۔
اسی دور میں ’’ہاتھ بند، در بند‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور کچھ لوگوں پر درگاہ کے دروازے بند کیے گئے، لیکن معتوبین کی درگاہ سے محبت اور پیر حزب اللّہ سے عقیدت میں کوئی کمی نہ آئی۔ بعد کے ادوار میں بھی مریدین کی غلطی پر یہ سزا دی جاتی رہی ہے۔ ’’ہاتھ بند، در بند‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی مرید اس سے ہاتھ نہیں ملائے گا، تعلق نہیں رکھے گا اور در بند سے مراد ہے کہ وہ درگاہ میں داخل نہیں ہوگا۔
وریام فقیر خاصخیلی کا تعلق سنجھورو سے ہے وریامانی سنگت سے تعلق ہونے کے ناتے بان چوکی کا حصہ ہیں جو ذی الحجہ میں درگاہ شریف کا نظام سنبھالتی ہے اور ہر ماہ کے تمام اخراجات اس چوکی کے ذمے ہوتے ہیں جو سسٹم کی نگراں ہوتی ہے۔ وریام فقیر اپنے والد کی وفات کے بعد 69ء میں خلیفہ مقرر ہوئے تھے۔ ان کا تعلق فرق جماعت سے ہے۔ ماضی میں درگاہ کا نظام جن 12 چوکیوں کے سپرد تھا وہ سالم تھیں لیکن سورھیہ بادشاہ پیر صبغت اللّہ شاہ ثانی کی انگریز دور میں پھانسی کے بعد فرق جماعت والے خلفا کو بھی درگاہ کا نظام سنبھالنے کی ذمے داری تفویض کی گئی۔
خیال رہے کہ خلفا 16 ہیں جن میں سے ایک جیسلمیر چوکی کے نگراں ہیں اور چوکیاں بارہ۔ وریام فقیر خاصخیلی کے ساتھ ان کے نائبین کو بھی انضباطی کارروائی کا سامنا ہے جن میں گلشیر جاکھرانی، سبحان علی ہنگورو اور دیگرشامل ہیں۔ سماجی مقاطعہ یا سوشل بائیکاٹ کا تصور تنظیموں اداروں اور مذہبی طور پر بھی ملتا ہے۔
ایک غزوہ میں نہ جانے والوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر ان کی معافی قبول ہوئی اور ان کی بریت میں وحی نازل ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک تحریر میں وریام فقیر نے اس کارروائی کے باوجود خود کو درگاہ کے فیصلے کا پابند بتایا ہے اور ان سے منسوب اس پوسٹ میں وہ خلافت کو امانت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں حکم کا انکار کرنے والا نہیں لبیک کرنے والا ہوں۔ پیر سائیں پر قربان۔ ان کا فیصلہ سر آنکھوں پر۔
’’ہاتھ بند، در بند‘‘ کے معتوب سزاواروں میں سے بعض بغلوں میں ہاتھ دے کر چلتے ہیں کہ کوئی ہاتھ ہی نہ ملائے۔ سنیئر صحافی عبدالقادر ڈاہری روایت کرتے ہیں کہ مرحوم شاہ مردان شاہ ثانی نے خلیفہ عاقل ہنگورو کا ہاتھ بند کیا تھا۔ اس دوران جب پیر صاحب سانگھڑ کے روحانی دورے پر آئے تو خلیفہ عاقل ہنگورو بھی اپنی گاڑی میں قافلے کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ جہاں قیام ہوتا تو شرکا سے دور رلی بچھا کر بیٹھ جاتے۔ جنھیں ’’ہاتھ بند‘‘ کا پتا نہ ہوتا اور وہ خلیفہ صاحب سے ملنے پہنچتے تو وہ دور سے ہی اشارہ کرتے کہ میرا ’’ہاتھ بند‘‘ ہے، قریب نہ آئیں۔ خلیفہ عاقل وزیربلدیات بھی رہے تھے۔ اسی طرح ماضی میں بہت سے افراد کو اس سزا کا مستحق گردانا گیا اور بعد میں معافی بھی ملی۔ ’’ہاتھ بند‘‘ والے سے ہاتھ ملانے والے کو بھی اسی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں پیر پگارا کے فیصلے پر مریدین کی جانب سے تسلیم کیے جانے کی آرا آ رہی ہیں لیکن غیرمرید استفسار کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ مختلف اسباب و عوامل بیان ہو رہے ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہیں کہ پیر پگارا کا منصب تاحیات ہوتا ہے۔ پیر کی رحلت کے بعد نئے پیر کو خلفا منتخب کرتے ہیں اور انتقال کر جانے والے پیر کی اس وقت تک تدفین نہیں ہوتی جب تک نئے پیر کا چناؤ نہ ہوجائے۔ دیگر درگاہوں میں جانشیں کی نام زدگی یا بڑے بیٹے کی گدی نشینی کی روایت ہے، لیکن یہاں یہ خلفا کا حق ہے کہ وہ کسے اپنا پیر منتخب کرتے ہیں۔
ایسا ہی پیرپگارا شاہ مردان شاہ ثانی کی وفات کے بعد ہوا تھا جب خلفا نے درگاہ کی مسجد میں کئی گھنٹے کے سوچ بچار کے بعد موجودہ پیر صبغت اللّہ شاہ راشدی عرف راجہ سائیں کو منتخب کیا۔ اس موقع پر ان کے بڑے بھائی علی گوہر راشدی، منجھلے بھائی صدرالدین راشدی عرف یونس سائیں اور سب سے چھوٹے بھائی حزب اللّہ راشدی کے نام بھی زیرغور آئے تھے لیکن مسجد سے باہر آنے اور چیف خلیفہ کے فیصلے کا اعلان کرنے کے بعد فنکشنل مسلم لیگ کی صدارت اور حُروں کی پیشوائی پیر صبغت اللّہ شاہ راشدی المعروف راجہ سائیں کے پاس ہی ہے اور ان کے حالیہ اقدامات کو جرأت مندانہ فیصلوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں اور مرحوم پیرپگارا کی طرح حاضر پیر پگارا بھی اپنے فیصلوں سے چونکا رہے ہیں۔ اس کا سبب ان کے سرفروش مرید ہیں جو درگاہ شریف سے آنے والی چٹھیوں کو کسی ردوکد کے بغیر بلاتامل تسلیم کر لیتے ہیں۔
یہی حُر جماعت کے انتہائی منظم ہونے کا ثبوت ہے جس نے برٹش سام راج کو للکارا، لسانی فسادات میں مہاجروں، پنجابیوں، پٹھانوں کی حفاظت کی اور 65ء 71ء کی جنگ میں وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے خون کا نذرانہ دیا۔ حُر جماعت کی کئی اور رسومات اور روایات بھی ہیں جن پر موقع بہ موقع روشنی ڈالیں گے لیکن ’’ہاتھ بند، در بند‘‘ کا تصور سروری، غوثیہ، کامارو، جیلانی، لواری، رحمانی، شیرازی سمیت کسی اور درگاہ میں مروج نہیں۔ یہ انفرادیت درگاہ پیرگوٹھ، پیر پگارا اور فقیروں کی جماعت کو دیگر خانقاہوں اور درگاہوں سے ممیز، منفرد اور مختلف شناخت دیتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہیں کہ وریام فقیر مریدین کی پیر پگارا ہاتھ بند نے والے ہیں اور حزب الل ہوتا ہے ہیں جو اور ان ہے اور کے بعد کو بھی
پڑھیں:
ایران کے ہاتھ باندھنے کی تیاریاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ایران اور اسرائیل کی جنگ موبائل اور ٹی وی اسکرین پر دیکھنا اور گرتے ہوئے میزائل، پھٹتے ہوئے طیارے، گرتی ہوئی عمارتیں، چیختے چلاتے اور دوڑتے ہوئے انسان، بہتا ہوا خون، بلند ہوتے آگ کے مناظر نے ہماری نفسیات تبدیل کردی ہے، ہمیں یہ مناظر خوش کن نظر آتے ہیں۔ اپنی حلیفوں کی کامیابی اور دشمنوں کی تباہی پر ہم خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جب یہ مناظر ٹی وی اسکرین سے نکل کر آپ کے آس پاس ہونے لگیں، تو ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ انسان کتنا بے بس ہے۔ انسانی المیے کیسے جنم لیتے ہیں۔ آگ اور خون کا یہ کھیل کس قدر خوفناک ہے۔ جنگ بھوک، تباہی، بے بسی، لاشیں، بلکتے ہوئے زخمی، کیسے معاشروں کو تبدیل کرتے ہیں، نسلیں یہ قرض کیسے اُتارتی ہیں۔
گزشتہ تین چار دن سے میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر، موبائل کی اسکرین کو دیکھنے لگتا ہوں، تیز روشنی میری آنکھوں میں تیزاب کی طرح چبتی ہے۔ لیکن میں پھر بھی کچھ تلاش کرتا ہوں، کوئی نئی خبر، کوئی نئی اطلاع، کوئی نئی بات، کوئی نیا حملہ، کوئی بڑی تباہی، پھر تھک ہار کر میں سونے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن سو نہیں پاتا، فلسطین اور غزہ کے بچے، تڑپتے ہوئے لاشے، ملبے کے ڈھیر، بلکتی ہوئی مائیں، روتے ہوئے بوڑھے مجھے سونے نہیں دیتے۔ بعض اوقات ہم ایسے حالات سے گزرتے ہیں کہ ہم اپنے مسائل اور معاملات میں الجھ کر اندر کو بھول جاتے ہیں، جسم میں ہونے والی تبدیلیاں آپ کو احساس دلاتی ہیں کہ دشمن نے تو آپ کے اندر سے وار کر دیا۔ تباہی پھیر دی، دل بے قابو ہوگیا، کینسر نے پنجے گاڑ دیے۔
اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کئی برسوں سے ایران میں سرگرم عمل تھی۔ کئی سال پر محیط منصوبے کے تحت سیکڑوں دھماکا خیز مواد سے لیس ڈرونز تجارتی ذرائع کے ذریعے ایران میں اسمگل کیے گئے، تربیت یافتہ اہلکاروں کو ایرانی فضائی دفاعی تنصیبات اور میزائل لانچنگ مراکز کے قریب تعینات کیا گیا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایران میں میزائل ذخیرہ گاہوں کا کھوج لگایا، ایران کی عسکری قیادت اور ایٹمی سائنس دانوں کی پوری کہکشاں کو مٹانے کے لیے نشان زدہ کیا، جوہری تنصیبات اور فوجی کمانڈ کو نشانہ پر رکھ لیا، کئی ماہ تک دھماکا خیز مواد سے لیس سیکڑوں کوآڈ کاپٹر ڈرونز کے پرزہ جات سوٹ کیس، کمرشل ٹرک اور شپنگ کنٹینرز کے ذریعے ایران اسمگل کیے جاتے رہے۔ اسرائیل باقاعدگی سے اپنی عسکری حکمت عملی میں خفیہ معلوماتی کارروائیوں کو شامل کرتا رہا۔ موساد کے اہلکاروں نے زمینی سطح پر درجنوں میزائلوں کو لانچ ہونے سے پہلے ہی تباہ کر نے کا منصوبہ تیار کر لیا۔ لیکن ایران پراکسی وار میں مصروف رہا۔ جی ہاں ساری دنیا میں اپنے پراکسی پھیلاتے رہے، ان ممالک کو بھی تباہ کر وا ڈالا اور اپنا گھر موساد کے حوالے کر دیا۔ دشمن نے سارا نقصان اندر سے کیا، ہانیہ کے واقعہ کے بعد ہی عقل آجاتی تو اپنی منجھی کے نیچے ڈانگ پھیر لیتے۔
ایران کی پراکسی وارز نے اسے ایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر ضرور ابھارا ہے، مگر اس کی قیمت پورے خطے نے چکائی ہے۔ شام، یمن، عراق اور لبنان آج تباہ حال ہیں، اور یہ پراکسی جنگیں مستقبل میں بھی مشرق وسطیٰ میں استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہیں گی۔ ایران کی اس حکمت عملی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے براہِ راست جنگ سے بچتے ہوئے اپنے مفادات کا دفاع کیا، مگر اس کے طویل المدتی اثرات نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ آج دنیا کی بڑی طاقتیں اس کے خلاف بھی وہی پراکسی جنگ لڑ رہی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کو کس نے شہ دی ہے، کون اسے ہتھیار، ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس، طیارے، فراہم کر رہا ہے، جس کے بل بوتے پر اسرائیلی طیارے ایران کی فضا ؤں میں بلا روک ٹوک دندناتے پھر رہے ہیں۔ جدید عالمی سیاست میں ’’پراکسی وار‘‘ یا ’’بالواسطہ جنگ‘‘ ایک ایسا ہتھیار بن چکی ہے جس کے ذریعے طاقتور ممالک، بغیر براہِ راست میدانِ جنگ میں کودے اپنے مفادات کے لیے دوسرے خطوں میں اثر رسوخ قائم کرتے ہیں۔ ان جنگوں میں اصل طاقتیں اپنے حمایت یافتہ گروہوں یا ریاستوں کے ذریعے لڑائی لڑتی ہیں، اور کئی بار یہ جنگیں بظاہر مقامی تنازعات کے روپ میں سامنے آتی ہیں، لیکن پس پردہ ایک بڑی طاقت کی حکمت عملی کارفرما ہوتی ہے۔ پاکستان حال ہی میں ایک محدود جنگ کے تجربے سے گزر چکا ہے۔ دشمن ہم پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں موجوہ حالات میں سبق سیکھنا چاہیے۔ حکومتیں بنانے، گرانے، قرض کی دلدل میں دھنسنے، عوام کو ٹیکس کے جال میں کس دینے سے ہم ویسے ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑے مار رہے ہیں، ہماری معاشی حالت تباہ ہے۔ قرضے اور سود میزائل اور ڈرونز سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ہماری عمارت تو بغیر حملے کے نیچے آرہی ہے۔ معاشی ابتری، عوام کو اس حال میں لے آئے گی کہ ایٹمی حیثیت سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ ایران کے پاس تو تیل تھا وہ معاشی پابندی کے اثرات برداشت کر گیا، پاکستان تو ویسے بھی دوسروں کیٹکڑوں پر پل رہا ہے۔ وہ کسی کو کیسے آنکھیں دکھائے گا۔