بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس کہنے کو اور کچھ ہے نہیں، بس وہ سیاسی ڈائیلاگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ انھوں نیکراچی میں ساؤتھ ایشیا کے بدلتے حالات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہیں اور ہم نے مسلم لیگ (ن) اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بدل لیا تھا۔
شاہد خاقان اور ان کے والد خاقان عباسی شروع ہی سے مسلم لیگ (ن) میں رہے اور مری کے حلقے سے الیکشن بھی لڑتے رہے۔ ان کے والد مرحوم اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک اس لیے بنانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ حلقے کی بہتری پر اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے بلکہ جیب سے خرچہ کر کے مسئلہ حل کرا کر لوگوں کے پاس جاتے تھے ۔ شاہد خاقان کئی بار وفاقی وزیر بنے اور پھر وزیر اعظم بنے۔
ملک میں اس وقت صرف 5 وزرائے اعظم حیات ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ان میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور مسلسل ان سے مذاکرات چاہتے ہیں کہ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت نہیں دیتے اور انھی کے ذریعے رہائی بھی چاہتے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کی اپنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنی پارٹی سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی واحد سابق وزیر اعظم ہیں جن کی اپنی نئی پارٹی بنانے کے باوجود کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور پی ٹی آئی حکومت دور کے جھوٹے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کی بات بھی وہی کررہے ہے جب کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی حکومت اور سزا یافتہ قیدی کے درمیان ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے بھی تھے جو پی ٹی آئی نے اپنی شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیے تھے جب کہ حکومت نے ان کے مطالبے طلب بھی کیے تھے مگر بانی کسی صورت مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہی نہیں تھے اور ان کا زور اب بھی بالاتروں سے سیاسی مذاکرات پر ہے مگر بالاتر غیر آئینی ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔
اسٹیبلشمنٹ واضع کر چکی ہے کہ سیاستدانوں کو سیاسی حکومت سے سیاسی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متعدد بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر جیل میں بانی کی انا ختم ہونے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے بلکہ بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو مجھ سے مذاکرات کرلے میں صرف انھی سے بات کر سکتا ہوں جب کہ بالاتروں کی کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی ضرورت کہ وہ سزا یافتہ سے ڈائیلاگ کریں۔
شاہد خاقان عباسی سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں جس پر جیل والا فریق تیار ہی نہیں تو پھر بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ پر زور کیوں؟ جب کہ وہ خود اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ بانی کو ڈائیلاگ پر راضی کر سکیں ۔موجودہ حکومت جسے پی ٹی آئی جعلی اور بے اختیار قرار دیتی آ رہی ہے، اس نے سوا سال میں پی ٹی آئی سے متعدد بار ڈائیلاگ کی آفر دی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی کوشش سے مذاکرات کا دور ہوا بھی جو ادھورا چھوڑ کر پی ٹی آئی اپنے بانی کے کہنے پر چھوڑ گئی تھی۔
اب پھر پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف فیصلے کر سکتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے جو مذاکرات کرائے تھے ،وہ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کی رضامندی سے کرائے تھے مگر پی ٹی آئی نے وہاں حکومت کے طلب کرنے پر بھی شرائط پیش نہیں کی تھیں اور مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو اب یہ کہنا کہ ’’اگر شہباز شریف فیصلہ کر سکیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے سزا یافتہ بانی کو رہا کرا دیں تو ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معاملات پر ہم کسی سے بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔
وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتدار میں موجود جماعتوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں اور وزیر اعظم خود فیصلہ نہیں کر سکتے تو جس عدلیہ کے پاس فیصلے کا اختیار ہے تو اسی عدلیہ پر بانی کی رہائی کے لیے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید رکھتے ہیں، یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ ہو یا دیگر اسیران کی رہائی، یہ کام عدلیہ ہی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے اور وہ فیصلہ بھی مانا جائے تو ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی استحکام لے آئے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام شاہد خاقان عباسی سیاسی ڈائیلاگ سے مذاکرات پی ٹی آئی مسلم لیگ کی رہائی رہے ہیں ہیں اور ہی نہیں ہیں کہ
پڑھیں:
شخصیت پرستی کی قومی سیاست کا تضاد
پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ۔ یہ کھیل محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ ہر شعبے تک اس کی شکلیں دیکھ سکتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور کے بجائے شخصیات کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اگر ہم پاکستان کو دیکھیں تو ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے قومی سیاست میں شخصیات بہت زیادہ غالب ہو گئی ہیں اور سیاست ان تک محدود ہے۔
شخصیات کا سیاست میں بالادست ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے لیکن جب شخصیات کا قد اداروں سے بڑھ جائے تو پھر اداروں کی اہمیت کا کم ہونا زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔کیونکہ ہم اپنے اجتماعی فیصلے آئین ، قانون، سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں کرنے کے بجائے اپنی سیاسی جماعت کی شخصیت کے سیاسی مفادات کو سامنے رکھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نواز شریف ہوں یا بانی تحریک انصاف، آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن یا شہباز شریف یہ سب اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن اصولی طور پر ان کی اہمیت سیاسی کارکنوں کی وجہ ہوتی ہے ۔
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم شخصیات کو اس لیے مضبوط کرتے ہیں تاکہ جان بوجھ کر جمہوری اداروں کو کمزور کیا جا سکے۔ جمہوری اداروں کی بالادستی بنیادی طور پر احتساب اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر اس کے لیے ہماری سیاسی قیادت تیار نہیں ہے اور یہ سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ دیگر طاقتور طبقات بھی خود کو جواب دہ بنانے کے لیے تیار نہیں ۔
شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔یہ سب کچھ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ ہماری ترجیحات میں سیاست اور جمہوریت کی مضبوطی کا عمل کہیں کہیں دھندلا نظر آتا ہے۔
ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم سیاست کے ریموٹ کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس میں طاقت کا جو ارتکاز ہے وہ بھی ہمارے اپنے ہاتھ میں رہے۔شخصیت پرستی کا یہ جنون جان بوجھ کر سیاسی جماعتیں معاشرے میں پھیلاتی ہیں تاکہ وہ اپنی ورکروں کو یا اپنے کارکنوں کو نفرت اور محبت کے درمیان استعمال کر سکیں۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کے اندر بلکہ سیاسی جماعتوں سمیت باقی معاشرے کے دیگر طبقات میں جو خلیج ہے وہ بڑھ رہی ہے۔
اس کا ایک اور بڑا نقصان ہم قومی سیاست میں جو مسائل ہیں ان کی درجہ بندی میں دیکھ رہے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے ہماری ترجیحات قومی مسائل نہیں بلکہ غیر ضروری مسائل میں الجھ کر قوم کو مزید مشکل میں ڈالنا ہے۔سیاست میں اختلافات کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔لیکن جب اختلافات کو شدت پسندی کی بنیاد پر دشمنی کے ساتھ جوڑ دیا جائے اور اس میں شخصیت پرستی کا سیاسی کارڈ کھیلا جائے گا تو اس کے منفی اثرات کا مرتب ہونا فطری امر ہے۔
بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی یا اجتماعی سطح پہ کرنا تھا اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی، سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔
یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت عمل ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں بنیادی طور پر اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں ۔
شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانجھ پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئے سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔جب کہ پوری دنیا اس وقت تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور جدید سیاسی نظام اور جدید تصورات اور جدید ٹیکنالوجی کے تصورات عالمی سیاست پر غالب ہیں۔ تو ہمیں بھی اپنی سوچ اور فکر کو نئے خیالات کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔کیونکہ اگر ہم نے اپنے آپ کو نئے حالات کے ساتھ نہ جوڑا تو پھر ایسے میں ہماری سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔یہ صدی شخصیت پرستی کے مقابلے میں اجتماعیت کی صدی ہے۔
اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے گرد دائرہ لگانے کے بجائے کردار سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔لوگوں کو پوجا پرستی کی طرف مائل کرتا ہے اور ان میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے میں کشادہ ذہن بنانے کے بجائے اسے تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی، سماجی، علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کو ایک بہت بڑے جن کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس کے حق میں اہل دانش کی طرف سے بڑی بڑی دلیلیں دی جاتی ہیں اور اس کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم دنیا کے تجربات سے سیکھنے کے لیے کچھ بھی تیار نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے خود کو ماضی کی غلطیوں سے جوڑا ہوا ہے یہ جو ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی یا تنگ نظری ہے اس کی ایک بڑی وجہ شخصیت پرستی ہے۔ اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آ رہا۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں۔