Express News:
2025-09-18@14:50:03 GMT

بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ ضروری کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس کہنے کو اور کچھ ہے نہیں، بس وہ سیاسی ڈائیلاگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ انھوں نیکراچی میں ساؤتھ ایشیا کے بدلتے حالات کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ ضروری ہیں اور ہم نے مسلم لیگ (ن) اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ بدل لیا تھا۔

شاہد خاقان اور ان کے والد خاقان عباسی شروع ہی سے مسلم لیگ (ن) میں رہے اور مری کے حلقے سے الیکشن بھی لڑتے رہے۔ ان کے والد مرحوم اپنے حلقے میں اپنا ووٹ بینک اس لیے بنانے میں کامیاب رہے تھے کہ وہ حلقے کی بہتری پر اپنا پیسہ خرچ کرتے تھے بلکہ جیب سے خرچہ کر کے مسئلہ حل کرا کر لوگوں کے پاس جاتے تھے ۔ شاہد خاقان کئی بار وفاقی وزیر بنے اور پھر وزیر اعظم بنے۔

ملک میں اس وقت صرف 5 وزرائے اعظم حیات ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ان میں شامل ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں اور مسلسل ان سے مذاکرات چاہتے ہیں کہ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ووٹ کو عزت نہیں دیتے اور انھی کے ذریعے رہائی بھی چاہتے ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم کی اپنی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) سیاسی پارٹیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دو وزرائے اعظم میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اپنی پارٹی سے وفاداری بھی نبھا رہے ہیں اور اقتدار میں بھی ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی واحد سابق وزیر اعظم ہیں جن کی اپنی نئی پارٹی بنانے کے باوجود کوئی سیاسی اہمیت نہیں اور پی ٹی آئی حکومت دور کے جھوٹے مقدمات بھی بھگت رہے ہیں۔

ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کی بات بھی وہی کررہے ہے جب کہ انھیں معلوم ہے کہ کسی حکومت اور سزا یافتہ قیدی کے درمیان ڈائیلاگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات ہوئے بھی تھے جو پی ٹی آئی نے اپنی شرائط پیش کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیے تھے جب کہ حکومت نے ان کے مطالبے طلب بھی کیے تھے مگر بانی کسی صورت مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہی نہیں تھے اور ان کا زور اب بھی بالاتروں سے سیاسی مذاکرات پر ہے مگر بالاتر غیر آئینی ڈائیلاگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔

اسٹیبلشمنٹ واضع کر چکی ہے کہ سیاستدانوں کو سیاسی حکومت سے سیاسی مذاکرات کرنے چاہئیں۔ صدر مملکت آصف زرداری اور موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی قوتوں کے مابین سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی متعدد بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کر چکے ہیں مگر جیل میں بانی کی انا ختم ہونے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے بلکہ بضد ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہے تو مجھ سے مذاکرات کرلے میں صرف انھی سے بات کر سکتا ہوں جب کہ بالاتروں کی کوئی مجبوری ہے اور نہ ہی ضرورت کہ وہ سزا یافتہ سے ڈائیلاگ کریں۔

شاہد خاقان عباسی سب کچھ جانتے ہوئے بھی سیاسی استحکام کے لیے ڈائیلاگ کا مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں جس پر جیل والا فریق تیار ہی نہیں تو پھر بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ پر زور کیوں؟ جب کہ وہ خود اس پوزیشن میں نظر نہیں آتے کہ بانی کو ڈائیلاگ پر راضی کر سکیں ۔موجودہ حکومت جسے پی ٹی آئی جعلی اور بے اختیار قرار دیتی آ رہی ہے، اس نے سوا سال میں پی ٹی آئی سے متعدد بار ڈائیلاگ کی آفر دی اور اسپیکر قومی اسمبلی کی کوشش سے مذاکرات کا دور ہوا بھی جو ادھورا چھوڑ کر پی ٹی آئی اپنے بانی کے کہنے پر چھوڑ گئی تھی۔

 اب پھر پی ٹی آئی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف فیصلے کر سکتے ہیں تو ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ماضی میں اسپیکر قومی اسمبلی نے جو مذاکرات کرائے تھے ،وہ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کی رضامندی سے کرائے تھے مگر پی ٹی آئی نے وہاں حکومت کے طلب کرنے پر بھی شرائط پیش نہیں کی تھیں اور مذاکرات جاری رکھنے سے انکار کر دیا تھا تو اب یہ کہنا کہ ’’اگر شہباز شریف فیصلہ کر سکیں‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے سزا یافتہ بانی کو رہا کرا دیں تو ہی ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملکی معاملات پر ہم کسی سے بھی مذاکرات کرسکتے ہیں۔

وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اقتدار میں موجود جماعتوں کے ہاتھوں میں کچھ نہیں اور وزیر اعظم خود فیصلہ نہیں کر سکتے تو جس عدلیہ کے پاس فیصلے کا اختیار ہے تو اسی عدلیہ پر بانی کی رہائی کے لیے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ لوگ جو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام کی امید رکھتے ہیں، یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں بے مقصد سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا معاملہ ہو یا دیگر اسیران کی رہائی، یہ کام عدلیہ ہی کر سکتی ہے ۔ بہتر ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جائے اور وہ فیصلہ بھی مانا جائے تو ممکن ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی استحکام لے آئے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملک میں سیاسی استحکام شاہد خاقان عباسی سیاسی ڈائیلاگ سے مذاکرات پی ٹی آئی مسلم لیگ کی رہائی رہے ہیں ہیں اور ہی نہیں ہیں کہ

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں مقصد عمران خان کو آئسولیٹ کرنا ہے، علیمہ خان
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • اسرائیل کے انسانیت کیخلاف جرائم کو روکنے کیلیے عرب ٹاسک فورس تشکیل دی جائے