قومی اسمبلی کے رکن اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ سندھ میں امن و امان کا مسئلہ ہے، اسٹریٹ کرائمز بڑھنے سے لوگ پریشان ہیں جس پر کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔
سندھ بچاؤ کمیٹی اور جی ڈی اے کے سیکریٹری صفدر عباسی اور سیکریٹری اطلاعات سردار عبدالرحیم نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہو چکی ہے اور سندھ بھر میں قبائلی خونریزی ہو رہی ہے اور پولیس کو سیاسی بنا دیا گیا ہے، جس کے باعث سندھ میں ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ دو بیانات سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے رہنماؤں کے ہیں جب کہ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی سمیت ایم کیو ایم اور جے یو آئی سندھ کے اہم رہنما بھی سندھ میں بدامنی پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں جب کہ کراچی کی مختلف چھوٹی جماعتوں اور تنظیموں اور پی ٹی آئی کے صوبائی عہدیدار بھی سندھ میں امن و امان کی صورت حال، اغوا اور دیگر بڑھتے جرائم کو تشویش ناک قرار دیتے آ رہے ہیں مگر سندھ حکومت کے ذمے داروں کو سندھ میں بدامنی نظر نہیں آ رہی اور حکمران اور پی پی رہنما ہر معاملے پر بیان بازی کرتے ہیں مگر پی پی رہنما خورشید شاہ جن کا تعلق سکھر سے ہے کے علاوہ کسی کو سندھ میں تشویش ناک بدامنی پر لب کشائی کی توفیق نہیں ہوتی اور وہ تصویر کا صرف ایک رخ پیش کرتے ہیں یا سندھ میں امن و امان کی صورت حال کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اور نہ حکمرانوں کی اس اہم مسئلے پر توجہ ہے بلکہ یہ سب سندھ میں امن و امان کی حالت کو اپوزیشن کا گمراہ کن پروپیگنڈا سمجھتے ہیں۔
سندھ میں حکمران پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں بدامنی روکنے اور امن کی بحالی کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں جس پر اب پی پی میں سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں جو ان کی تعمیری سوچ کی عکاس ہیں۔ سندھ کی ایسی متعدد شاہراہیں ہیں جہاں رات کے اندھیرے میں سفر ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کے علاوہ اندرون سندھ سے بھی بڑی تعداد میں بسیں اور مال بردار ہزاروں کی تعداد میں اندرون سندھ سے گزر کر کراچی آتے اور کراچی سے ملک بھر میں جاتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اندرون سندھ پنجاب سے کراچی آنے والے قربانی کے جانوروں کے ٹرکوں کو روکا گیا اور ان سے ہزاروں روپے بھتہ وصول کرکے انھیں جانے کا راستہ دیا گیا جس کی وجہ سے منڈی میں پہلے جانور کم تھا جو جلد فروخت ہو گیا اور عیدالاضحی کے قریب جانور کراچی لائے گئے جس سے تاجروں نے جانور مہنگے کر دیے اور منہ مانگے داموں قربانی کے جانور فروخت کیے اور وجوہات میں راستے میں دیا جانے والا بھتہ جو پولیس نے بھی وصول کیا بتایا۔ ملک بھر سے مال برداری اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کراچی آمد ٹرینوں سے زیادہ ٹرکوں، ٹرالروں اور مسافر بسوں کے ذریعے ممکن ہوتی ہے اور وہ بدامنی کے حالات میں خود کو غیر محفوظ سمجھ کر سفرکرتے ہیں۔
جن اضلاع میں سندھ کے کچے کے علاقے ہیں وہاں چھپے ڈاکوؤں کے خلاف سندھ پولیس اپنا آپریشن بھی جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی کہ سندھ کی شاہراؤں کو محفوظ قرار دیا جا سکے۔پی پی رہنما کے قریب بدامنی اور اسٹریٹ کرائم کے باعث لوگ پریشان ہیں جب کہ جی ڈی اے کے رہنماؤں کے مطابق سندھ میں قبائل کے درمیان جاری خونریزی سے مسلسل ہلاکتیں اور تصادم نہیں رک پا رہے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں سندھ کی پولیس اس لیے نہیں روک پائی کہ وہ سیاسی بنا دی گئی اور وزیروں، ارکان اسمبلی اور عہدیداروں نے اپنے من پسند افسر تعینات کرا رکھے ہیں جن کے ذریعے مخالفین پر مقدمات بنوائے جاتے ہیں۔
سندھ کے زیادہ تر قبائلی رہنما، مختلف قومیتوں کے سردار، بااثر اور بڑے وڈیرے پیپلز پارٹی میں شامل ہیں جس کے باوجود قبائلی جھگڑے ختم نہیں ہو رہے اور بعض بااثر افراد قبائلی جھگڑے ختم کرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں مگر آئے دن کسی نہ کسی علاقے میں پھر جھگڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور جانی نقصان معمول بن چکا ہے۔سندھ حکومت نہ کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ کر سکی اور نہ قبائلی جھگڑے روک پائی جب کہ کراچی کے علاوہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں جرائم اور اسٹریٹ کرائم پر بھی قابو نہیں پایا جا رہا جس سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں جب کہ کراچی تو لگتا ہے کہ سندھ حکومت کے کنٹرول سے نکل چکا اور کراچی پولیس مکمل ناکام ہو چکی جس پر شہریوں نے خود ڈاکوؤں کو پکڑنا اور ان پر تشدد شروع کر دیا ہے اور وہ خود ہی مایوس ہو کر قانون کو ہاتھ میں لینے لگے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ میں امن و امان کی سندھ حکومت ہیں جب کہ کے علاوہ کہ سندھ سندھ کی رہے ہیں سندھ کے ہے اور
پڑھیں:
وزیراعلی سندھ کا کراچی میں غیر قانونی ٹینکرز کے خاتمے اور کچے میں ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم
سید مراد علی شاہ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کچے کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا منصوبہ بنائیں اور وہاں سڑکیں، اسکول، اسپتال، ڈسپینسری اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں، سیلابی صورتحال کے بعد کچے میں ترقیاتی کام شروع کیے جائیں گے، گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کی تعمیر کے بعد پورا علاقہ کھل جائے گا، سندھ حکومت کی ترجیح ہے کہ امن امان ہر صورت بحال ہو۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کچے کے علاقے میں ڈاکوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے اور کراچی میں غیر قانونی ٹینکرز کے خاتمے کا حکم دیا ہے۔ کچے کے علاقوں میں آپریشن اور کراچی سمیت صوبے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اہم اجلاس وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں انہوں نے ڈکیتوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کچا ڈوب گیا ہے اور قانون شکن باہر آئے ہوں گے، ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن مزید تیز کیے جائیں۔ اجلاس میں وزیراعلی سندھ کو وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار اور انسپکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن نے بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا کہ اکتوبر 2024ء سے ٹیکنالوجی کے ذریعے کچے میں آپریشن تیز کیا گیا ہے، کچے میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر 760 ٹارگٹڈ آپریشن اور 352 سرچ آپریشن کیے ہیں، جنوری 2024ء سے اب تک آپریشن کے ذریعے 159 ڈکیت مارے گئے ہیں، جن میں 10 سکھر، 14 گھوٹکی، 46 کشمور اور 89 شکارپور کے شامل ہیں، 823 ڈکیتوں کو گرفتار کیا اور 8 اشتہاری ڈکیت مارے گئے، آپریشن کے دوران 962 مختلف نوعیت کے ہتھیار بھی برآمد کیے گئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں کا ہر صورت خاتمہ یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ کچے کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا منصوبہ بنائیں اور وہاں سڑکیں، اسکول، اسپتال، ڈسپینسری اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں، سیلابی صورتحال کے بعد کچے میں ترقیاتی کام شروع کیے جائیں گے، گھوٹکی-کندھ کوٹ پل کی تعمیر کے بعد پورا علاقہ کھل جائے گا، سندھ حکومت کی ترجیح ہے کہ امن امان ہر صورت بحال ہو۔ مراد علی شاہ نے کراچی میں غیرقانونی ٹینکرز کے خاتمے کی ہدایت بھی کی۔ اس موقع پر میئر کراچی مرتضی وہاب نے بتایا کہ 243 غیرقانونی ہائیڈرنٹس مسمار کیے گئے ہیں، 212 ایف آئی آر درج کر کے 103 ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، اس وقت 3200 کیو آر کوڈ کے ساتھ ٹینکرز رجسٹرڈ کیے ہیں، مختلف اقدامات سے 60 ملین روپے واٹر بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ اجلاس میں وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار، میئر کراچی مرتضی وہاب، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، کمشنر کرچی حسن نقوی، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو خالد حیدر شاہ، سیکریٹری بلدیات وسیم شمشاد، ایڈیشنل آئی جی آزاد خان، سی او او واٹر بورڈ اسداللہ خان اور دیگر شریک تھے۔