اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس میں تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا، مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کی۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سیاسی تبادلے کیے گئے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور سینئر قانون دان منیر اے ملک نے جواب الجواب میں دلائل دیے، تمام وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ ججز ٹرانسفر کے خلاف کیس کا مختصر فیصلہ آج سنائیں گے۔

واضح رہے کہ صدر مملکت کی جانب سے دیگر ہائیکورٹس سے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کیے جانے کے بعد عدالت عالیہ کے 5 ججز نے سینیارٹی کے معاملے پر رواں سال 20 فروری کو سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین کے توسط سے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت دائر 49 صفحات پر مشتمل درخواست میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ قرار دے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت ججز کے تبادلے کے لامحدود اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مفاد عامہ کے بغیر ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔

یاد رہےکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نظر ثانی شدہ سنیارٹی لسٹ میں ججز کے عہدوں کو کم کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے گزشتہ فیصلوں پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، جس میں بھارتی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی شامل ہے جس میں تقرریوں سے تبادلوں کو الگ کیا گیا تھا۔

نجی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے سنیارٹی لسٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

یہ فیصلہ ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق آئینی دفعات اور عدالتی مثالوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب وزارت قانون و انصاف نے یکم فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کیا جس میں 3 موجودہ ججز جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا ان کے متعلقہ ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کیا گیا تھا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ سپریم کورٹ گیا تھا

پڑھیں:

45برس بعد سپریم کورٹ کے نئے رولز کا اعلان، 6 اگست سے اطلاق

اسلام آباد:

45 سال گزرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ’’ سپریم کورٹ رولز 2025 ‘‘ کے عنوان سے نئی رولز نوٹیفائی کردیے۔ سپریم کورٹ کے 1980کے رولز کو منسوخ کردیا گیا ہے۔

عدالتی کارروائیوں میں شفافیت، کارکردگی اور مجموعی تاثیر کو بڑھانے کے لیے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

اس کمیٹی کے ارکان میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی شامل تھے۔ کمیٹی نے ججز کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ آفس، بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز سے بھی تجاویز طلب کی تھیں، اب نئے قوانین کا اطلاق 6 اگست سے ہوگا۔

یہ واضح کیا گیا ہے کہ منسوخ شدہ قواعد کے تحت ان نئے رولز کے آغاز پر درخواست، پٹیشن، اپیل، ریفرنس، نظرثانی وغیرہ کے ذریعے زیر التوا کوئی بھی کارروائی جاری رکھی جائے گی اور اسے نمٹا دیا جائے گا گویا یہ رولز نہیں بنائے گئے ہیں۔

اگر ان رولز کی کسی شق کو نافذ کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی تو چیف جسٹس اپنی طرف سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کی سفارشات پر ایسا حکم دے سکتے ہیں جو ان رولز کی دفعات سے متصادم نہ ہو۔ نئے قوانین کے مطابق فوجداری اپیل دائر کرنے کی مدت، فوجداری درخواستوںکے فیصلوں ، براہ راست دیوانی اپیلوں کی مدت 30 دن سے بڑھا کر 60 دن کردی گئی ہے۔

رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے خلاف اپیلیں 14 دن میں دائر کی جائیں گی۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں 30 دنوں کے اندر دائر کی جائیں گی۔

درخواست گزار، درخواست دائر کرنے کے بعد، نظرثانی کے لیے فوری طور پر دوسرے فریق کو اس کا نوٹس دے گا اور رجسٹری کو اس نوٹس کی ایک کاپی کی توثیق کرے گا۔ نظرثانی کے لیے ہر درخواست کے ساتھ اس فیصلے یا حکم کی تصدیق شدہ کاپی کے ساتھ ہونا چاہیے جس کی شکایت کی گئی ہے۔

جب درخواست تازہ شواہد کی دریافت کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، دستاویزات کی مصدقہ کاپیاں، اگر کسی پر انحصار کیا گیا ہو، کو درخواست کے ساتھ منسلک کیا جائے گا اور ایک حلف نامہ بھی ہوگا جو اس طرح کے حالات بتائے گا جس میں نئے شواہد دریافت ہوئے ہیں۔

ایڈووکیٹ یا فریق، درخواست پر دستخط کرنے والے کو مختصر طور پر ان نکات کی وضاحت کرنا ہوگی جن پر نظرثانی کی درخواست کی بنیاد ہے۔ سرٹیفکیٹ ایک معقول رائے کی صورت میں ہو گا۔ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایڈووکیٹ یا ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کی طرف سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست پریشان کن یا غیر سنجیدہ تھی تو وہ خود کو تادیبی کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرائے گا اور ؍ یا پچیس ہزار روپے سے کم کی لاگت کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔

اگر درخواست پارٹی نے دائر کی تھی تو وہ فریق کی طرف سے درخواست کا جائزہ لے گا اور درخواست کے غیر سنجیدہ ہونے پر خود کو پچیس ہزار روپے سے کم کی لاگت کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔

جہاں تک قابل عمل ہو نظرثانی کی درخواست اسی بنچ کے سامنے طے کی جائے گی یا اگر مصنف جج ریٹائر ہو جائے یا مستعفی ہو جائے تو ایسی درخواست کی سماعت اسی بینچ کے ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل بنچ کرے گا جس نے فیصلہ سنایا یا نظرثانی کا حکم دیاتھا۔ جیل کی درخواستیں دائر کرنے پر کوئی کورٹ فیس نہیں ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • 26ویں آئینی ترمیم: یحییٰ آفریدی نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی؟ چیف جسٹس کا خط منظر عام پر
  • سپریم کورٹ میں 1980 کے رولز کی جگہ 2025 کے رولز نافذ
  • جشن آزادی: سپریم کورٹ سمیت تمام ہائی کورٹس میں پرچم کشائی کی تقاریب
  • ہم اپنی اپنی فیلڈ میں بھرپور کام کریں گے تاکہ اس ملک کا وقار بڑھتا جائے: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
  • سپریم کورٹ بینچ کی بحریہ ٹا ؤن کیخلاف کیس سننے سے معذرت
  • سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پراپرٹیز نیلامی کیس کی سماعت ملتوی
  • سپریم کورٹ ،بحریہ ٹاون پراپرٹی نیلامی کیس کی سماعت کیلئے بینچ تبدیل
  • سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر کیس کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل دائر
  • آئینی، ٹیکسز اور مالیاتی پٹیشنز سنگل کے بجائے ڈویژن بینچ سنے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر جاری
  • 45برس بعد سپریم کورٹ کے نئے رولز کا اعلان، 6 اگست سے اطلاق