پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2025ء) پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے دو سالوں میں دس لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو ملک بدر کیا ہے اس کے باوجود بہت سے افغان باشندوں نے فوری طور پر واپس آنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان باشندے اپنے ملک میں اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنے کی بجائے قانون کو جھانسا دیتے ہوئے دوبارہ پاکستان پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے امکانات تلاش کر سکیں۔
ان میں سے بہت سے افغان باشندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنا آبائی ملک پہلے کبھی نہیں دیکھا۔گزشتہ برس 2024ء کے اوائل میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے ملک بدر کیے گئے 46 سالہ افغان حیات اللہ (فرضی نام) کہتے ہیں، ''وہاں واپس جانا اپنے خاندان کو موت کی سزا دینے کے مترادف ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
ملک بدری کی نئی لہراپریل کے ماہ سےپاکستان سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی ایک نئی لہر شروع ہوئی۔
قریب 2 لاکھ افغان پاکستان اورافغانستان کے متصلہ دو سرحدی گزرگاہوں کے قریب جمع ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے عجلت میں اپنی روز مرہ کی ضروریات کا سامان ٹرکوں میں لادا اور سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہونے لگے۔ تاہم ان افغان باشندوں کو اپنے مستقبل سے کوئی اچھی امید وابستہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں واپسی جہاں لڑکیوں کو پرائمری سطح سے اوپر کی تعلیم پر پابندی کا سامنا ہے۔حیات اللہ (فرضی نام) ملک بدر ہونے کے ایک ماہ بعد ہی واپس پاکستان آ گئے۔ اس کے لیے انہیں بلوچستان کی سرحدی کراسنگ کے جنوب تک قریب 800 کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑا۔ ان کے لیے افغانستان میں زندگی مکمل جمود کا شکار تھی۔ ان کے بقول، انہیں چمن سرحد عبور کرنے کے لیے رشوت دینا پڑی۔ ''ان تمام دیہاڑی دار مزدوروں کی طرح جو باقاعدگی سے دوسری طرف کام کرنے کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔
‘‘ان کی بیوی اور تین بچے، جن میں بیٹیاں بھی شامل ہیں، کی عمریں 16 اور 18 سال کے درمیان ہیں۔ ان بچوں کو افغانستان میں تعلیم سے محروم رکھا جاتا۔ تاہم یہ گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے میں کامیاب رہے۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''کچھ افغان باشندے جنہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا، انہوں نے بعد میں پاکستان ہجرت کرنے کا انتخاب کیا۔
‘‘ پاکستان کے اندر افغان باشندوں کی مشکلاتحیات اللہ (فرضی نام) نے اپنی فیملی کو خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور منتقل کر دیا، جہاں زیادہ تر پشتون آباد ہیں اور ''پشتون‘‘ افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔
حیات اللہ نے کہا، ''اسلام آباد کے مقابلے میں یہاں کی پولیس ہمیں اتنا ہراساں نہیں کرتی۔
‘‘ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانخیبرپختونخوا دراصل افغان باشندوں کے لیے نسبتاً محفوظ صوبہ خیال کیا جاتا ہے۔ 38 سالہ افغان صمد خان (فرضی نام) نے بھی اپنے خاندان کو پشاور منتقل کرنے کا انتخاب کیا ہے۔
ان کی کہانی حیات اللہ سے کچھ مختلف ہے۔ یہ پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں پہلی مرتبہ تب قدم رکھا، جب انہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا، ''افغانستان میں ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور وہاں زندگی کا کوئی نشان نہیں ہے۔ کوئی کام نہیں، کوئی آمدنی نہیں، اور طالبان انتہائی سخت ہیں۔‘‘
پہلے تو انہوں نے افغانستان میں کام تلاش کرنے کی کوشش کی جہاں کی 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے لیکن چند ہفتوں کے بعد وہ پاکستان واپسی کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے۔
صمد خان (فرضی نام) نے بتایا،''میں نے ایک افغان ٹرک ڈرائیور کو 50,000 روپے (تقریباً 180 ڈالر) ادا کیے، اس کے ایک پاکستانی ملازم کے شناختی کارڈ کو سرحد پار کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘‘
بعد ازاں صمد خان نے اپنے سامان سمیت بیوی اور دو بچوں کو، جو پیچھے رہ گئے تھے، گاڑی میں لاہور سے پشاور بھیج دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے ایک دوست کے تعاون سے جوتوں کا سیکنڈ ہینڈ کاروبار شروع کیا۔
یہاں کی پولیس ہمیں لاہور کی طرح ہراساں نہیں کرتی، اور مجموعی طور پر ماحول بہت بہتر ہے۔‘‘ پاکستان لوٹنے والے افغانوں کے اعداد و شمارملک بدر ہونے والے کل کتنےافغان باشندے واپس پاکستان آئے ہیں، اس بارے میں اعداد وشمار کی کمی کے باعث کوئی مستند بات نہیں کی جا سکتی۔ حکومتی ذرائع، ملک کے مسائل کا الزام سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں پر ڈالتے ہیں۔
واضح رہے عمران خان اب جیل میں ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ کھلم کھلا تنازعہ کا شکار ہیں۔ ان کی حزب اختلاف کی جماعت کے زیر انتظام خیبرپختونخوا صوبہ دراصل افغانوں کے لیے نسبتاً محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں افغان پہلے ہی واپس خیبر پختونخواہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ تاہم ایسے اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں تارکین وطن کے حقوق کے محافظ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی واپسی کے بارے میں سنا ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ ان کی تعداد محدود ہے۔
کابل میں اقوام متحدہ کی ایجنسی کے کمیونیکیشن آفیسر اوند عزیز آغا کے بقول، ''جب لوگ بنیادی خدمات اور معاش کے مواقع تک محدود رسائی والے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو ان کا دوبارہ انضمام مشکل ہو سکتا ہے۔ لوگ پائیدار مواقع تلاش کرتے ہیں جس کے لیے وہ ممکنہ طور پر دوبارہ کسی سمت بڑھ سکتے ہیں۔‘‘
ادارت: عرفان آفتاب
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں افغان باشندوں افغان باشندے پاکستان سے حیات اللہ انہوں نے ملک بدر کے لیے
پڑھیں:
ایرانی میزائلوں کو روکنے والے دفاعی میزائل ختم ہونے کے قریب، اسرائیلی پریشان
اسرائیل کے دفاعی میزائل سسٹم ’ایرو‘ (Arrow Interceptors) کی کمی اسرائیل کے لیے ایک بڑا سیکیورٹی بحران بننے لگی، جس کی وجہ سے ایران کے جانب سے داغے گئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے، امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے ایک نامعلوم امریکی اہلکار نے بتایا کہ واشنگٹن کو گزشتہ کئی مہینوں سے اسرائیل کے دفاعی میزائلوں کی کمی کا علم تھا۔ امریکا نے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے زمینی، فضائی اور بحری نظاموں سے مدد فراہم کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کی طرف سے صرف یہ کہا گیا کہ ہم ہتھیاروں سے متعلق معاملات پر رائے نہیں دیتے۔
دوسری طرف ایران نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسرائیل پر زبردست میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس کے نتیجے میں دارالحکومت تل ابیب دھماکوں سے لرز اٹھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے میزائلوں نے اسرائیلی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور دشمن کے فضائی دفاع کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
ایرانی افواج نے یہ حملہ اپنے جاری آپریشن ’وعدۂ صادق سوم‘ کے دسویں مرحلے کے تحت کیا، جس میں اسرائیل کے اسٹریٹجک اور حساس اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق درجنوں بیلسٹک میزائل اور مسلح ڈرونز مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی جانب فائر کیے گئے، جنہوں نے متعدد اہم عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے مزید میزائل داغے گئے ہیں، جس کے بعد فضائی دفاعی نظام کو مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب، پاسداران انقلاب کے ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ فتح میزائلوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو بے اثر کرتے ہوئے فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ ترجمان نے تل ابیب اور گردونواح کے شہریوں کو فوری طور پر علاقے خالی کرنے کی تنبیہ بھی جاری کی ہے۔
مزید پڑھیں: ایران-اسرائیل جنگ، یو اے ای نے ایئرپورٹ آپریشنز جاری رکھنے کے لیے کیا اہم فیصلے کیے؟
ایرانی سرکاری خبررساں ادارے پریس ٹی وی کے مطابق حملے کی تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ 9 مراحل کے دوران اسرائیل کو نمایاں جانی اور مالی نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔ یہ حملے ایرانی ایرو اسپیس فورس کی قیادت میں کیے جا رہے ہیں، جن میں ڈرونز اور میزائلز بیک وقت استعمال ہو رہے ہیں۔
تازہ حملوں میں خاص طور پر اسرائیلی فضائیہ کے وہ اڈے نشانہ بنائے گئے ہیں جہاں سے ایران پر حملوں کے لیے جنگی طیارے روانہ کیے جاتے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ایرانی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ اسرائیل کی جارحانہ صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ آپریشن وعدۂ صادق سوم کا آغاز گزشتہ جمعہ کی شب ’علی ابن ابی طالب‘ کے کوڈ نام سے کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد اسرائیلی حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں، ایٹمی ماہرین اور بے گناہ شہریوں کی شہادت کا جواب دینا ہے۔
ایرانی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دشمن کے 28 مختلف جنگی طیاروں کو شناخت، تعاقب اور تباہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایران کے فضائی دفاع نے اسرائیلی ساختہ ایک ’ہرمیس‘ جاسوس ڈرون کو حساس علاقوں کی نگرانی کے دوران مار گرایا۔
مزید پڑھیں: ایران نے شہریوں سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کر دیا، مگر کیوں؟
ادھر اسرائیلی حکومت نے شدید حملوں کے بعد میڈیا پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے پیر کو ایرانی میزائل حملوں کی لائیو کوریج پر مکمل پابندی لگا دی تھی، جس سے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تازہ فضائی حملوں کے باعث مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر پیدا ہو چکی ہے، جبکہ عالمی سطح پر بھی خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہو گئی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی دفاعی میزائل امریکا ایران اسرائیل جنگ