UrduPoint:
2025-08-04@21:32:02 GMT

پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2025ء) پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے دو سالوں میں دس لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو ملک بدر کیا ہے اس کے باوجود بہت سے افغان باشندوں نے فوری طور پر واپس آنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان باشندے اپنے ملک میں اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنے کی بجائے قانون کو جھانسا دیتے ہوئے دوبارہ پاکستان پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے امکانات تلاش کر سکیں۔

ان میں سے بہت سے افغان باشندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنا آبائی ملک پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

گزشتہ برس 2024ء کے اوائل میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے ملک بدر کیے گئے 46 سالہ افغان حیات اللہ (فرضی نام) کہتے ہیں، ''وہاں واپس جانا اپنے خاندان کو موت کی سزا دینے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ملک بدری کی نئی لہر

اپریل کے ماہ سےپاکستان سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی ایک نئی لہر شروع ہوئی۔

قریب 2 لاکھ افغان پاکستان اورافغانستان کے متصلہ دو سرحدی گزرگاہوں کے قریب جمع ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے عجلت میں اپنی روز مرہ کی ضروریات کا سامان ٹرکوں میں لادا اور سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہونے لگے۔ تاہم ان افغان باشندوں کو اپنے مستقبل سے کوئی اچھی امید وابستہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں واپسی جہاں لڑکیوں کو پرائمری سطح سے اوپر کی تعلیم پر پابندی کا سامنا ہے۔

حیات اللہ (فرضی نام) ملک بدر ہونے کے ایک ماہ بعد ہی واپس پاکستان آ گئے۔ اس کے لیے انہیں بلوچستان کی سرحدی کراسنگ کے جنوب تک قریب 800 کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑا۔ ان کے لیے افغانستان میں زندگی مکمل جمود کا شکار تھی۔ ان کے بقول، انہیں چمن سرحد عبور کرنے کے لیے رشوت دینا پڑی۔ ''ان تمام دیہاڑی دار مزدوروں کی طرح جو باقاعدگی سے دوسری طرف کام کرنے کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔

‘‘

ان کی بیوی اور تین بچے، جن میں بیٹیاں بھی شامل ہیں، کی عمریں 16 اور 18 سال کے درمیان ہیں۔ ان بچوں کو افغانستان میں تعلیم سے محروم رکھا جاتا۔ تاہم یہ گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے میں کامیاب رہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''کچھ افغان باشندے جنہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا، انہوں نے بعد میں پاکستان ہجرت کرنے کا انتخاب کیا۔

‘‘ پاکستان کے اندر افغان باشندوں کی مشکلات

حیات اللہ (فرضی نام) نے اپنی فیملی کو خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور منتقل کر دیا، جہاں زیادہ تر پشتون آباد ہیں اور ''پشتون‘‘ افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔

حیات اللہ نے کہا، ''اسلام آباد کے مقابلے میں یہاں کی پولیس ہمیں اتنا ہراساں نہیں کرتی۔

‘‘ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان

خیبرپختونخوا دراصل افغان باشندوں کے لیے نسبتاً محفوظ صوبہ خیال کیا جاتا ہے۔ 38 سالہ افغان صمد خان (فرضی نام) نے بھی اپنے خاندان کو پشاور منتقل کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

ان کی کہانی حیات اللہ سے کچھ مختلف ہے۔ یہ پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں پہلی مرتبہ تب قدم رکھا، جب انہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا، ''افغانستان میں ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور وہاں زندگی کا کوئی نشان نہیں ہے۔ کوئی کام نہیں، کوئی آمدنی نہیں، اور طالبان انتہائی سخت ہیں۔‘‘

پہلے تو انہوں نے افغانستان میں کام تلاش کرنے کی کوشش کی جہاں کی 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے لیکن چند ہفتوں کے بعد وہ پاکستان واپسی کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے۔

صمد خان (فرضی نام) نے بتایا،''میں نے ایک افغان ٹرک ڈرائیور کو 50,000 روپے (تقریباً 180 ڈالر) ادا کیے، اس کے ایک پاکستانی ملازم کے شناختی کارڈ کو سرحد پار کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘‘

بعد ازاں صمد خان نے اپنے سامان سمیت بیوی اور دو بچوں کو، جو پیچھے رہ گئے تھے، گاڑی میں لاہور سے پشاور بھیج دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے ایک دوست کے تعاون سے جوتوں کا سیکنڈ ہینڈ کاروبار شروع کیا۔

یہاں کی پولیس ہمیں لاہور کی طرح ہراساں نہیں کرتی، اور مجموعی طور پر ماحول بہت بہتر ہے۔‘‘ پاکستان لوٹنے والے افغانوں کے اعداد و شمار

ملک بدر ہونے والے کل کتنےافغان باشندے واپس پاکستان آئے ہیں، اس بارے میں اعداد وشمار کی کمی کے باعث کوئی مستند بات نہیں کی جا سکتی۔ حکومتی ذرائع، ملک کے مسائل کا الزام سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں پر ڈالتے ہیں۔

واضح رہے عمران خان اب جیل میں ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ کھلم کھلا تنازعہ کا شکار ہیں۔ ان کی حزب اختلاف کی جماعت کے زیر انتظام خیبرپختونخوا صوبہ دراصل افغانوں کے لیے نسبتاً محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں افغان پہلے ہی واپس خیبر پختونخواہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ تاہم ایسے اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان میں تارکین وطن کے حقوق کے محافظ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی واپسی کے بارے میں سنا ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ ان کی تعداد محدود ہے۔

کابل میں اقوام متحدہ کی ایجنسی کے کمیونیکیشن آفیسر اوند عزیز آغا کے بقول، ''جب لوگ بنیادی خدمات اور معاش کے مواقع تک محدود رسائی والے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو ان کا دوبارہ انضمام مشکل ہو سکتا ہے۔ لوگ پائیدار مواقع تلاش کرتے ہیں جس کے لیے وہ ممکنہ طور پر دوبارہ کسی سمت بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: عرفان آفتاب

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افغانستان میں افغان باشندوں افغان باشندے پاکستان سے حیات اللہ انہوں نے ملک بدر کے لیے

پڑھیں:

سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو قتل کرنے والے ملزم نے ویڈیو بیان میں اعتراف کر لیا

کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل کا معاملہ واضح ہوگیا۔ ملزم نے ویڈیو بیان میں قتل کرنے کااعتراف کرلیا۔

ویڈیو کے مطابق ملزم عمران آفریدی نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ شمس الاسلام نے میرے والد کو اغوا کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا۔ دونوں کے درمیان 35 لاکھ روپے کا لین دین تھا، جو تنازع کی بنیاد بنا۔

عمران آفریدی کے مطابق نہ صرف اُس کے والد کو قتل کیا گیا بلکہ اس کے بعد ان کے خاندان کو جھوٹے مقدمات میں الجھا دیا گیا۔شمس الاسلام نے میرے بھائیوں پر دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات بنوائے اور ہماری خواتین کو بھی قانونی پیچیدگیوں میں گھسیٹا، حالانکہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

پاکستان کو سونے کی کان ریکو ڈک کیلئے 5 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی پیشکش 

ملزم کا کہنا ہے کہ اسے قانونی نظام سے انصاف نہیں ملا، جس کی وجہ سے اس نے خود بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ عمران آفریدی نے کہا کہ قتل میں نے اکیلے کیا، میرے کسی عزیز، دوست یا رشتہ دار کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے میرے خاندان یا دوستوں کو تنگ نہ کریں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی کے پوش علاقے خیابانِ راحت میں واقع قرآن اکیڈمی کے باہر خواجہ شمس الاسلام کو اُس وقت فائرنگ کر کے قتل کیا گیا جب وہ اپنے بیٹے دانیال الاسلام کے ہمراہ نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے۔ وہ جوتے پہن رہے تھے کہ حملہ آور نے اچانک گولیاں چلادیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ نے 40 سالہ شادی کا پول کھول دیا ، بچے کسی اور کے نکلے 

پولیس نے واقعے کا مقدمہ مقتول کے بھائی خواجہ فیض الاسلام کی مدعیت میں درخشاں تھانے میں درج کر لیا ہے، جس میں قتل، دہشت گردی اور دیگر سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کے اعترافی بیان کی روشنی میں مزید قانونی کارروائی جاری ہے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے: وزیر اعظم شہباز شریف
  • پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، وزیراعظم
  • پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے: وزیراعظم
  • امریکہ کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کے بعد پاکستان ایک بار پھر  تیل کے ذخائر کی تلاش کے لیے ایکسون موبل کی آف شور ڈرلنگ میں واپسی کا خواہاں
  • سی پیک میں شمولیت ‘ تجارتی حجم 10ارب ڈالر کرنے کے خواہاں ایرانی صڈر : لاہور میں نواز شریف مریم اسلام آباد میں وزیراعظم نے  شاندار استقبال کیا 
  • پاکستان کا افغان مہاجرین کے انخلا کا نیا حکم، ویزا کے بغیر افغان گاڑیوں کا داخلہ بند
  • میساچوسٹس سے فرار ہونے والی پالتو چھپکلی کی واپسی، پولیس پکڑنے میں ناکام
  • امریکہ اور یورپ جانے کے منتظر افغان، غیر یقینی کی وجہ سے پریشان
  • سینئر وکیل خواجہ شمس الاسلام کو قتل کرنے والے ملزم نے ویڈیو بیان میں اعتراف کر لیا
  • تہران کے 1 کروڑ 60 لاکھ باشندے پانی کی قلت سے پریشان