جائیداد کے تنازع پر پھوپھو کو بے دردی سے قتل کرنے والے ملزم کی سزائے موت برقرار
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
قتل میں سزائے موت پانے والے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس عبد الفیاض نے درخواست پر سماعت کی۔ اسلام ٹائمز۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنی سگی پھوپھی کو قتل کرنے والے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کردی۔ تفصیلات کے مطابق پھوپھی کے قتل میں سزائے موت پانے والے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل پر پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس عبد الفیاض نے درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے ملزم کی جانب سے سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل خارج کرتے ہوئے ماتحت عدالت کے سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ مدعی کے وکیل سید مبشر شاہ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم حارث نے 2021 میں صوابی کے علاقے یار حسین کے علاقے میں جائیداد کے تنازعے پر پھوپھی کو کلہاڑیوں کے وار سے قتل کیا جبکہ دوسری پھوپھی کو زخمی کیا تھا۔
صوابی کے سیشن کورٹ نے ملزم کو سزائے موت کی سزا سنائی جس پر حارث نے نظر ثانی کیلیے اپیل دائر کی۔ انہوں نے بتایا کہ ملزم سے خون آلود کلہاڑی بھی برآمد ہوئی اور دیگر شواہد بھی ٹھوس ہیں۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کی اور سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: والے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل سزا کے خلاف سزائے موت
پڑھیں:
26 ویں ترمیم، انتظامیہ عدلیہ سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب
اسلام آباد:26 ویں ترمیم کے بعد انتظامیہ عدالتوں سے اہم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی،ان میں بڑی پیش رفت 9 مئی کے مقدمات پی ٹی آئی کے204 رہنماؤں و کارکنوں کو سزائیں ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 9 مئی کے مقامات کی تیز سماعت میں اہم کردار اور ان کی سربراہی میں بینچ نے چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ڈیڈلائن دی۔
اسی ترمیم کے تحت آئینی بینچ نے 103سویلین کیسز کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی توثیق کی،عمران خان کے بھانجے سمیت بیشتر سزایافتہ جیل میں فوجی عدالتوں میں سزاؤں کے خلاف اپیل کا حق ملنے کی مجوزہ قانون سازی کے منتظر ہیں۔
حکومت نے اپیل کے اس حق کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ گرما تعطیلات کے باعث تین اہم کیسز مخصوص نشستیں، ججوں کی ٹرانسفر اور فوجی عدالتوں پر فیصلے ہوئے ہیں، ادھر حکومت27 ویں آئینی ترمیم کے لیے موزوں وقت کی منتظر ہے۔9 مئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی محاذ آرائی نے عدلیہ کا کردار اہم بنایا، اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت مایوسی ہوئی جب سابق چیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت سے عمران خان کی گرفتاری کا نوٹس اور انہیں بینچ میں پیش کرنے کی ہدایت کی، پھر ریلیف دے کر انتظامیہ کو مزید پریشان کیا۔
سابق چیف جسٹس پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز میں کرانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ کر سکے۔ ان کے پیشرو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کسی معاملے پر حکومت کو مایوس نہ کیا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انتخابی دھاندلی کے الزامات کا نوٹس نہ لیا۔
انہوں نے فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل غیر آئینی ہونے کا فیصلہ معطل کر دیا، پی ٹی آئی انتخابی نشان بلے سے محروم، خواتین رہنما ضمانت حاصل نہ کر سکیں ، جیل ٹرائل میں عمران خان کو تین الزامات میں سزائیں دی گئیں، اس سب کے باوجود 8 فروری کے انتخابی نتائج پی ٹی آئی مخالفین کے لیے حیران کن تھے۔
سابق چیف جسٹس قائز عیسیٰ کو 8 فروری کے بعد تشکیل نظام کا ضامن خیال کیا جاتا ہے، انہوں نے عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت پر اظہار تشویش کرنیوالوں ججوں کا ساتھ نہ دیا۔ وکلاء کی نظر میں جسٹس فائز عیسیٰ کا بڑا احسان سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد کو سپریم کورٹ میں لانے کی حمایت ہے، جسٹس ملک شہزاد نے انتخابی اور 9 مئی مقدمات کی شفاف سماعت یقینی بنانے کے لیے اہم اقدامات کئے جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے۔
بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بھی وہ 9 مئی مقدمات کی چھیڑ چھاڑ میں رکاوٹ بنے رہے، انہیں سپریم کورٹ بھیجنے کے بعد انسداد دہشت گردی عدالتوں کے ججوں کے تبادلے کر دیئے گئے۔گزشتہ سال مارچ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد انتظامیہ نے اعلیٰ عدلیہ کو کنٹرول کرنے پر کام شروع کر دیا۔
26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک ہونے کے بجائے سپریم کورٹ کے جج دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئے، ترمیم سے مستفید ہونیوالوں نے حکومت کو مایوس نہ کیا، انتظامیہ ہائیکورٹس کیساتھ بھی مطمئن ہے، اختلاف کرنیوالوں کی اکثریت سائیڈ لائن کر دی گئی۔
ہائیکورٹس کا چیف جسٹس کی تقرری میں ناپسندیدہ جج نظر انداز کر دیئے گئے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پسندیدہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بٹھانے کا حکومتی منصوبہ کامیاب رہا۔ 26 ویں ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ پر انتظامیہ کا مکمل غلبہ ہے، اس لئے پی ٹی آئی کے سزا یافتہ رہنمائوں و کارکنوں کو کسی معاملے پر قابل ذکر ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔
وکلا ء نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگرقانونی تقاضے پورے کئے بغیر سزائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد مکمل ختم ہو جائیگاجس کا نقصان نظام عدل کو پہنچے گا، 26 ویں ترمیم کے بعد انتظامیہ کے زیر اثر کام کرنے کے تاثر ختم کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے ججوںکو ہی میکانزم بنانا ہو گا۔