اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے بلیک لسٹ کمپنی کو لائسنس جاری، مصنوعات مارکیٹ میں دستیاب
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ہدایت پر ملک بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف سخت انفورسمنٹ یقینی بنانے کے لیے ایل ٹی اوز، آر ٹی اوز اور کارپوریٹ ٹیکس دفاتر نے کاروائیاں تیز کر دی ہیں جبکہ پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے بعض اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے بلیک لسٹ کمپنی کو لائسنس جاری کر دیا گیا اور مصنوعات مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
ایف بی آر نے کروڑوں روپے کی لاہور اور پشاور میں ٹیکس چوری میں ملوث کاسمیٹکس کمپنیوں کا لائسنس منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے اور کمپنیوں کی مصنوعات کی پیداوار، اسٹاکنگ اور فروخت غیر قانونی قرار دے دی ہیں۔
ایف بی آر نے پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) پشاور کو کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث بلیک لسٹ قرار دی گئی نجی کاسمیٹک کمپنی کو جاری کردہ لائسنس فوری طور پر منسوخ کرنے کی باضابطہ ہدایات جاری کر دی ہیں۔
اس سلسلے میں ایف بی آر کی جانب سے نہ صرف اس کمپنی کی مصنوعات کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے بلکہ اس ٹریڈ مارک (بائیو آملہ) یا اس سے ملتے جلتے نام کے تحت کسی بھی دوسری کمپنی یا تیسری پارٹی کی جانب سے مصنوعات کی تیاری، فروخت یا اسٹاکنگ کو بھی قانون کے منافی قرار دے دیا گیا ہے۔
دستاویز کے مطابق ایف بی آر کی جانب سے واضح طور پر پی ایس کیو سی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ نہ صرف مذکورہ کمپنی بلکہ اس سے منسلک کسی بھی ادارے کو مذکورہ برانڈ کے تحت نیا لائسنس جاری نہ کیا جائے اور نہ ہی پہلے سے جاری شدہ کسی لائسنس کی تجدید کی جائے۔
پی ایس کیو سی اے پشاور نے مذکورہ کمپنی کو سات روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بائیو آملہ ٹریڈ مارک سے متعلق ایف بی آر سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ، قابل عمل سیلز ٹیکس رجسٹریشن، حالیہ انکم ٹیکس ریٹرن، سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے ثبوت اور کمپلائنس سرٹیفکیٹس کی تصدیق شدہ نقول فراہم کرے، بصورت دیگر کمپنی کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ایف بی آر کی جانب سے ہی ایس کیو سی اے کو بھیجے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ پشاور میں رجسٹرڈ اس کمپنی کے دونوں پارٹنرز بھی ایف بی آر کے کروڑوں روپے کے نادہندہ ہیں اور ان کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
مذکورہ کمپنی کا کیس ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلیجنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو میں بھی زیرِ تفتیش ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے کراچی اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں بھی ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
لاہور میں کارپوریٹ ٹیکس آفس کی چیف کمشنر سعدیہ صدف گیلانی کی ہدایت پر اس کیس میں یہ بات سامنے آئی کہ بغیر کسی ریکوری اور اعلیٰ حکام کے علم میں لائے پی ایس کیو سی اے کے بعض اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت سے بلیک لسٹ کمپنی کو لائسنس جاری کر دیا گیا۔
اس پر ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو محمد قمر منہاس کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پی ایس کیو سی اے کو خط لکھا اور ضبط شدہ ٹریڈ مارک پر جاری لائسنس کی منسوخی کی ہدایت کی ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق کمپنی پر اکتوبر 2022 تک 57 کروڑ روپے کے واجبات (بمعہ سرچارج و جرمانے) بقایا ہیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس پر جاری کردہ اسیسمنٹ آرڈر کو برقرار رکھ چکی ہے۔
کمپنی کے دونوں ڈائریکٹرز اس وقت بھی جیل میں ہیں جبکہ کمپنی کئی سال سے کاروباری سرگرمیاں ترک کر چکی ہے اور اس کا سیلز ٹیکس رجسٹریشن بھی منسوخ اور بلیک لسٹ قرار دیا جا چکا ہے۔
ایف بی آر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلیک لسٹڈ کمپنی کی مصنوعات مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہیں اور پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی(پی ایس کیو سی اے) پشاور کی جانب سے کمپنی کولائسنس آرڈر کی غلط تشریح اور ایف بی آر کی کلیئرنس کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔
ایف بی آر نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ جب تک ٹیکس واجبات کی ادائیگی مکمل نہیں ہوتی اس کمپنی کو کسی بھی قسم کا لائسنس جاری نہ کیا جائے اور جاری شدہ لائسنس کو فوری طور پر منسوخ کر دیا جائے۔
ایف بی آر کے اس سخت ایکشن کے بعد پی ایس کیو سی اے کی اعلیٰ انتظامیہ متحرک ہو گئی ہے اور اس بات کی انکوائری شروع کر دی گئی ہے کہ ایف بی آر اور ٹریڈ مارک اتھارٹی سے این او سی کے بغیر لائسنس جاری کرنے میں کن اہلکاروں کا ہاتھ ہے۔
ذرائع کے مطابق ذمہ داروں کی نشان دہی کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پی ایس کیو سی اے لائسنس جاری ایف بی آر کی ایف بی آر نے کی جانب سے ٹریڈ مارک کے مطابق بلیک لسٹ کی ہدایت کمپنی کو کے خلاف دیا گیا گیا ہے
پڑھیں:
اسلام آباد میں گدھا کانفرنس ، محنت کش جانور کومعاشی اثاثہ تسلیم کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک منفرد اور غیر روایتی مگر نہایت سنجیدہ موضوع پر کانفرنس منعقد ہوئی، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ گدھے کو صرف ایک محنت کش جانور نہیں بلکہ ایک معاشی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
یہ کانفرنس “ڈونکی ڈویلپمنٹ فورم” کے عنوان سے پاکستان اور چین کے اشتراک سے منعقد کی گئی، جس میں حکومتی نمائندوں، زرعی ماہرین، کاروباری وفود اور بین الاقوامی کمپنیوں نے شرکت کی۔
گدھا — دیہی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی
پاکستان میں گدھا عرصہ دراز سے محنت و مشقت کی علامت رہا ہے۔ چاہے وہ دیہی علاقوں میں کھاد اور فصلیں ڈھونا ہو، یا شہروں میں اینٹیں اور پانی پہنچانا—یہ جانور ہمیشہ انسانی بوجھ اٹھاتا رہا ہے۔
تاہم، معاشی سروے میں گدھوں کی تعداد کا ذکر اکثر مذاق کا موضوع بنتا رہا ہے، لیکن اس کانفرنس نے اس سوچ کو بدلنے کی عملی کوشش کی۔
کانفرنس کا مقصد: معیشت میں گدھوں کا فعال کردار
کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ گدھوں کو صرف مزدور جانور کے بجائے قومی معیشت کا حصہ سمجھا جائے۔
موضوعات میں شامل تھے، گدھوں کی بہتر افزائش، پرورش اور خوراک، امراض سے بچاؤ اور ویٹرنری سہولیات، بین الاقوامی مارکیٹ میں گدھے کی کھال اور مصنوعات کی برآمد
اختتامی اعلامیے میں غیر قانونی ذبح اور مصنوعات کی اسمگلنگ پر پابندی کا عہد کیا گیا، جبکہ اسلامی اصولوں کے مطابق تمام تجارتی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔
چین کے ساتھ مشترکہ اقدامات: روزگار اور ترقی کے نئے مواقع
کانفرنس میں چائنا چیمبر آف کامرس ان پاکستان کے چیئرمین وانگ ہوئی ہوا نے کہا کہ سی پیک کے فریم ورک میں ’ڈونکی انڈسٹری ڈویلپمنٹ‘ ایک نیا باب ہے جو زرعی ترقی، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور غربت کے خاتمے میں کردار ادا کرے گا۔
چین میں گدھے کی کھال سے بننے والی مشہور دوا اور کاسمیٹک مصنوعات ’ایجو‘ کی تیاری ایک اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے، جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی بھرپور تجویز دی گئی۔
اوورسیز چراگاہیںاور دیہی ترقی کا منصوبہ
چینی ماہرین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں ‘اوورسیز چراگاہیں’ قائم کرنے کی تجویز بھی دی، جہاں گدھوں کی جدید بنیادوں پر افزائش اور ان کی مصنوعات کی صنعتی پروسیسنگ کی جا سکے گی۔
پاکستانی کسانوں کے لیے نئی امید
کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ گدھوں کے ساتھ وابستہ منصوبے دیہی خاندانوں کے لیے معاشی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
کسان اپنی زمینوں کے ساتھ ساتھ اپنے پالتو جانوروں سے بھی آمدنی حاصل کر سکیں گے۔
یہ بھی تجویز دی گئی کہ گدھے کی صنعت سے وابستہ تمام منصوبوں میں مقامی افراد کو روزگار دیا جائے۔