Jasarat News:
2025-06-21@09:39:51 GMT

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت (2)

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ’’دی سیمسن آپشن‘‘ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل 1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف 4 فینٹم طیاروں کو ’’تل نوف‘‘ ائر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران ’’سدوت میخا‘‘ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔ ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکا پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹیلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔ کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھرم کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکا نے مداخلت سے گریز کیا تھا اور مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکا کے مرہون منت ہے۔ ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلومات امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھیں۔

1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔ اسی طرح 2003 میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔ فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔ لوئس رینی بیرس، جو ’’پروجیکٹ ڈینیئل‘‘ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ’’ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلیئر آپریشنز‘‘ کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔ اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔ مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ’’ریڈ لائنز‘‘ بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کا خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔ اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔

’’سیمسن آپشن‘‘ یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ’’بیگن ڈاکٹرائن‘‘ کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ’’اوسیرک‘‘ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ’’نطنز’’ پلانٹ پر ’’اسٹکس نیٹ‘‘ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرئن فراہم کرتی ہے۔ اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ NPT یعنی جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکا کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔ امریکا کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت، اسرائیل جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ’’ڈیلیوری سسٹمز‘‘ ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ’’یریکو-III‘‘ میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البر ِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ’’سیکنڈ اسٹرائیک‘‘ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔ اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ’’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘‘ کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقا سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔ اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔ یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔ لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فی صد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سیکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔ اگر ایران، شمالی کوریا یا کسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ اسرائیل اسرائیل نے اسرائیل کی اسرائیل کے کی صلاحیت کے مطابق کے ساتھ کرتا ہے کے تحت رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ

اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جسکے تحت امریکہ اپنے دفاع کیلئے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔ ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

معرکہ حق و باطل جو غزہ سے ایران تک پھیل چکا ہے، جو اسرائیل کا تن تنہا اقدام نہیں۔ اس کے پیچھے وہ ہاتھ ہے، جو برسوں سے دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے، یعنی امریکہ۔ امریکہ ہی ہے، جو اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں آگ بھڑکا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند، گہری اور خونی سازش ہے، جو ایک طے شدہ عالمی اسٹریٹجی کا حصہ ہے۔ وہ اسٹریٹجی جو ٹرمپ نے واضح کی اور عربوں نے مال، تیل، غیرت، عزت، حتیٰ کہ اپنی وفاداریاں بھی واشنگٹن کے قدموں میں رکھ دیں اور ٹرمپ کو خطے سے مزاحمت ختم کرنے کا ٹھیکہ دیدیا گیا۔ یہ صرف سیاسی بیانات یا خفیہ دستاویزات کی بات نہیں، بلکہ اسرائیل کی توسیع کا نقشۂ ہے، جسے وہ "گریٹر اسرائیل" کا نام دے کر پوری دنیا کے سامنے لائے ہیں۔ اس نقشے میں شام، عراق، اردن اور حتیٰ کہ سعودی عرب کے بعض علاقے اسرائیل کے جغرافیے میں شامل کیے گئے ہیں۔

تین ہزار سالہ خرافات کی چادر میں لپٹے اس سامراجی خواب کو حقیقت میں بدلنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران، صیہونیوں نے اس نقشے کو دنیا بھر میں نمایاں کرکے یہ پیغام دیا کہ ان کا ہدف صرف بیت المقدس یا غزہ نہیں، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اگر کوئی آخری دیوار اس خواب کے راستے میں حائل ہے تو وہ ایران ہے، جو مزاحمت کا عظیم ترین مورچہ ہے۔ یہاں جو اہم بات ہے، وہ یہ کہ صہیونیون کے بنائے ہوئے نقشے کو مزید سمجھنا ہوگا۔ ان کی سوچ، ان کا خاکہ، ان کی کارروائیاں واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں۔ ایران کی سرزمین تک پہنچنا صہیونیوں کی باقاعدہ، سوچی سمجھی شیطانی منصوبہ بندی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ ایران تک کیوں پہنچے۔؟ سوال یہ ہے کہ اب وہ وہاں سے آگے کہاں جائیں گے۔؟ ایران اس وقت ان کے نشانے پر ہے، کیونکہ وہ ایٹمی طاقت بننے کے دہانے پر کھڑا ہے۔

ایران کے پاس ایٹمی سائنس دان، ایٹمی تنصیبات اور سب سے بڑھ کر ارادہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کا مرکز خود بنے، کسی استعماری طاقت کا مرہونِ منت نہ رہے۔ یہی ارادہ امریکہ، اسرائیل اور خطے کے بعض مفاد پرست حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ انہیں خوف ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن گیا تو وہ نہ صرف اسرائیل کیلئے خطرہ بن جائے گا بلکہ پورے استکباری نظام کیلئے ایک چیلنج بن جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے تاخیری حکمتِ عملی ترک کرتے ہوئے عملی اقدام شروع کر دیئے ہیں۔ بلا کسی جھجک، بلا کسی رکاوٹ کے۔ لیکن! ایران ابھی اس سفر کے آغاز میں ہے۔ پاکستان تو اس سفر کو مدتوں پہلے طے کرچکا ہے۔ پاکستان ایک پختہ، مستحکم اور تجربہ کار ایٹمی طاقت ہے۔ نہ صرف ایٹمی بم رکھتا ہے بلکہ اسے چلانے، سنبھالنے اور دشمن پر اثر انداز ہونے کی مکمل مہارت رکھتا ہے۔ اس کے سائنسدان، اس کی تنصیبات اور اس کی ایٹمی پالیسی ایک منظم اور مضبوط ڈھانچے پر قائم ہیں اور سب سے بڑھ کر، یہ ایٹمی طاقت اسلامی ریاست کی ملکیت ہے۔

کیا بھارت، اسرائیل یا امریکہ ایک اسلامی ایٹمی طاقت کو برداشت کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کی ترجیحات میں پاکستان کا غیر مسلح، کمزور اور داخلی خلفشار کا شکار ہونا ضروری ہے اور اب جب وہ ایران میں اپنی نفوذی فوج کے ذریعے کارروائیاں کر رہے ہیں تو ان کا اگلا میدان پاکستان ہی ہوگا۔ اسرائیل نے پہلے سے ہی پاکستان میں اپنی نفوذی قائم کر رکھی ہے اور یہ نفوذی کون ہیں۔؟ وہی جن کی بازگشت سب نے غزہ جنگ کے دوران سنی تھی۔ غزہ کی مظلومیت پر خاموشی اختیار کرنیوالے، اسرائیل کے مظالم پر پردہ ڈالنے والے، وہی پاکستانی وفود، اینکرز، سیاستدان، صحافی اور مذہبی رہنماء جو اسرائیل کے دفاع میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے پائے گئے۔ خود اسرائیلی اخبارات نے انکشاف کیا کہ پاکستان کی ایک مقبول اور طاقتور سیاسی جماعت کا مرکزی لیڈر اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھتا ہے، بلکہ اُس سے روابط بھی قائم کرچکا ہے۔ یہ روابط خاندانی اور سیاسی نوعیت تک شامل ہیں۔

اسرائیل کے یہ نفوذی پاکستان میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں، جو ایران میں ادا کیا گیا۔ ملک کو اندر سے کمزور کرنا، باہر کے دشمن کیلئے راستہ ہموار کرنا اور یہ سب کچھ محض مفروضہ نہیں! بھارت نے جو حالیہ فوجی کارروائی پاکستان کیخلاف کی، وہ اسرائیل کیساتھ براہِ راست مشاورت سے کی گئی۔ اسرائیلی ڈرون، اسرائیلی میزائل، اسرائیلی انٹیلیجنس اور اسرائیلی جنگی مشیر بھارت کی مدد کو موجود رہے۔ جس طرح بھارت نے غزہ جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا، اسرائیل نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے کر احسان کا بدلہ چکا دیا، چونکہ دشمن کیلئے سب سے زیادہ آسانی اُس وقت ہوتی ہے، جب گھر کے دروازے اندر سے کھولے جائیں۔ ایسے نازک اور ناپائیدار حالات میں پاکستان اور اس کی ریاست کو غیر معمولی بصیرت، دور اندیشی اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی بقا، تحفظ اور خود مختاری کیلئے کسی خارجی ریاست، اتحاد یا وعدے پر بھروسہ نہ کرے۔

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیئے کہ عربوں کے امدادی وعدے اور پروگرام، جن سے ہم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، محض فریبِ نظر ہیں اور ان پر انحصار ہماری سب سے بڑی سادہ لوحی اور خطرناک غلط فہمی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہی عرب حکمران فلسطین، لبنان اور ایران کیخلاف دشمنوں کے آلہ کار بنے اور آئندہ بھی پاکستان کے خلاف اسی طرح استعمال ہوں گے۔ ان پر اعتماد خودکشی کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کو اپنی بقاء، سالمیت اور دفاع کیلئے صرف ایک جگہ دیکھنی ہے، وہ ہے اپنے اندر۔ اس وقت پاکستان کے تمام طبقات، عوام، افواج اور اداروں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا ہوگا۔ تمام غیر ضروری مباحث ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کے تحفظ کو اولین ترجیح دینی چاہیئے۔ پاکستان کو اب دفاع کی جنگ اپنی سرزمین سے باہر لڑنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے، جس کے تحت امریکہ اپنے دفاع کے لیے یوکرین، یورپ اور خلیجی ممالک میں اڈے قائم کرچکا ہے۔

ایران بھی اسی حکمت عملی پر گامزن رہا، یہی حکمت عملی پاکستان کو اپنانا ہوگی، تاکہ دشمن کو اپنے دروازے تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ ایران کو اپنی بیرونی دفاعی فرنٹ لائن بنائے۔ یہ نہ صرف ایران کے دفاع کا تقاضا ہے، بلکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور عسکری استحکام کا دفاع بھی ہے۔ اسرائیل نے ایران پر بیک وقت کئی مقامات پر حملہ کرکے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈرز کو ان کے گھروں میں شہید کر دیا۔ اسرائیل کے اس حملے کے بعد، پاکستان ان کے اگلے نشانے پر ہے، کیونکہ ان کے مطابق وہ فلسطین، لبنان، شام اور اب ایران کو عبور کرکے پاکستان تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کیخلاف اسرائیل اکیلا نہیں ہوگا۔ امریکہ، بھارت اور عرب ریاستیں اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی۔ ہمیں اس حقیقت سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔ پاکستان کے اندر پہلے ہی صہیونی ایجنٹ اپنی کارروائیاں کرچکے ہیں، ایٹمی راز افشا کیے، افواجِ پاکستان کو بدنام کیا۔ معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا، بیرونی دنیا کو پیغامات دیئے کہ پاکستان کمزور ہوچکا ہے۔

یہ سب کچھ مودی کو حملے پر اُکسانے کیلئے کیا گیا تھا، لیکن مودی کو شکست ہوئی۔ اگر یہی حماقت اسرائیل نے کی تو ان شاء اللہ اسے بھی وہی خفت نصیب ہوگی۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کی افواج، حکمران، عوام، مذہبی طبقہ اور ادارے سنجیدگی سے متحد ہوں، بیان بازی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں۔ دفاعی بجٹ اگرچہ بڑھایا گیا ہے، لیکن یہ موجودہ خطرات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ ہمیں آنیوالے دنوں میں فوری طور پر اپنی دفاعی کمزوریاں دور کرنا ہوں گی، میدان میں عسکری مشقیں کرکے دشمن کو طاقت کا پیغام دینا ہوگا اور عوامی سطح پر دفاعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ پاکستان کو چین سے امید ہے، چین چونکہ خود امریکہ کے خطرے سے دوچار ہے، وہ ضرور امریکہ مخالف قوتوں کا ساتھ دے گا۔ لیکن یہ سب عالمی برادری، مسلمان ملکوں سمیت، قابلِ اعتبار نہیں۔ ایران کے بعض لوگوں نے یہی غلطی کی اور ٹرمپ کی دھوکہ دہی کا شکار بنے۔ ہمیں اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

ڈپلومیسی ضرور کریں، لیکن دشمن پر اعتماد ہرگز نہ کریں۔ پاکستان میں نفوذ نہ ہونے دیں اور جو پہلے سے اسرائیلی نفوذ قائم ہوچکا ہے، اس کا صفایا کیا جائے۔ ایران نے جن عناصر کی وجہ سے نقصان اٹھایا، ہمیں ان سے بچنا ہے۔ اپنی ٹیکنالوجی کو محفوظ بنائیں، کمانڈ سسٹمز کو محفوظ بنائیں، ایٹمی اثاثے محفوظ بنائیں۔ یہ ملک کسی اشرافیہ کا نہیں، پاکستانی عوام کا ہے۔ لہٰذا عوام تھکن کا اظہار نہ کریں۔ اگرچہ حکومت اور سیاستدان نالائق ثابت ہوئے ہیں، لیکن اس قوم نے ہر بار ثابت کیا ہے کہ یہ قوم افواج کیساتھ کھڑی ہے۔ مودی کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ عوام افواج سے دور ہوچکے ہیں، لیکن بھارتی جہاز گرنے پر اس فضا کا رخ بدل گیا اور عوام نے اپنی افواج کیساتھ کھڑے ہو کر دشمن کو واضح پیغام دیا اور اب بھی عوام وطن عزیز پاکستان میں تمام دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے بیدار ہیں اور اپنی فوج کیساتھ ہے۔ مودی، ٹرمپ اور نیتن یاہو سب شیطانی لشکر ہیں، جو میدان میں ہیں، مگر اللہ کا وعدہ ہے کہ یہ شیطانی منصوبے باطل ہوں گے اور مومنین کا لشکر کامیاب ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ایرانی ایٹمی پلانٹ پر حملے کی صورت میں جوہری تباہی کا سامنا ہوگا، آئی اے ای اے کا انتباہ
  • ایرانی ایٹمی پلانٹ پر حملے کی صورت میں جوہری تباہی کا سامنا ہوگا، آئی اے ای اے کا انتباہ
  • ایران کے جوہری پروگرام کو دو سال پیچھے دھکیل دیا ہے، اسرائیل کا دعویٰ
  • ایران پر اس وقت حملہ ہوا جب جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری تھے، عباس عراقچی
  • وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ کا ٹیلیفونک رابطہ، ایران اسرائیل بحران کے پرامن حل کی ضرورت پر زور
  • غزہ سے ایران اور ایران سے پاکستان صیہونی سازش کا نیا محاذ
  • ایران کے جوہری پروگرام، جنگ بندی پر مغرب سے مذاکرات آج ہوں گے
  • اسرائیل کے مقابلے پر ملت ایران و رہبر معظم کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • ایٹمی جنگ اور تابکاری کا سایہ، کیا پاکستان کی فضا زہر آلود ہو رہی ہے؟