کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جون 2025ء) اگرچہ سعودی عرب اور اردن نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی عوامی سطح پر مخالفت کی ہے لیکن اردن نے اپنی فضائی حدود میں اسرائیل پر حملہ آور ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے جبکہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب نے ایران پر حملوں کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں 21 عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس ہفتے جاری ایک مشترکہ بیان میں ان ممالک نے ''اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کی قطعی مذمت اور مخالفت‘‘ کی۔ بیان میں ''اسرائیلی جارحیت‘‘ فوری روکنے اور خطے کے امن و استحکام کو درپیش خطرات پر ''گہری تشویش‘‘ کا اظہار بھی کیا گیا۔
(جاری ہے)
اس بیان پر اردن اور سعودی عرب دونوں نے ہی دستخط کیے تھے۔مگر عوامی سطحپر مخالفت کے باوجود اردن اور سعودی عرب نے بظاہر اس تنازعے میں بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ مثال کے طور پر اردن نے ایران سے اسرائیل کی طرف آنے والے میزائل مار گرائے۔
اردنی فوج نے تصدیق کی کہ فضائی حدود میں داخل ہونے والے میزائل اور ڈرون گنجان آباد علاقوں پر گرنے کا خطرہ رکھتے تھے، جس کے باعث یہ کارروائی کی گئی۔
کہا گیا تھا کہ خود مختار ریاست کے طور پر کسی بھی میزائل یا غیر مجاز شے کی فضائی حدود میں دراندازی، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔سعودی عرب نے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی حدود میں میزائل گرانے کی اجازت دی گئی اور ممکنہ طور پر نگرانی میں بھی تعاون کیا گیا۔
اردن میں سیاسی ہلچل کا خدشہمگر جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا، ایسی فوجی کارروائیاں داخلی سطح پر تنازعات کو جنم دے سکتی ہیں۔ دونوں ملکوں کی عوام میں اسرائیل کے خلاف ماضی کی جنگوں اور کشیدگی کی وجہ سے شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ بالخصوص اردن میں تو غم و غصہ نمایاں ہے کیونکہ اس ملک کا پانچ میں سے ایک شہری (بشمول ملک کی ملکہ) فلسطینی نژاد ہے۔
اسی لیے اردن کی حکومت کے لیے ایران کے اسرائیل کی جانب داغے گئے میزائل مار گرانے کا جواز دینا مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس اقدام کو ''دفاع‘‘ قرار دیا گیا۔ کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن عمان کے سربراہ ایڈمنڈ راتکا کے مطابق، ''ہر چینل پر یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ 'ہم صرف اپنے دفاع‘ کے لیے یہ کر رہے ہیں۔‘‘
راتکا نے اس بات کی تصدیق کی کہ اردن کسی طور اسرائیل کا محافظ نظر نہیں آنا چاہتا کیونکہ عوام کی اکثریت اسرائیل کو جارح تصور کرتی ہے۔
البتہ ایران کے بارے میں بھی عوامی رائے اچھی نہیں ۔ سالہا سال کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کو ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے، جو عرب معاملات میں مداخلت کر کے خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔جرمن تجزیہ کار اسٹیفن لوکاس کے مطابق اردن کی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ایرانی میزائل گرانے کو اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے طور پر نہ دکھائے، حالانکہ یہ اقدام کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا۔
اردن کے لیے یہ اقدام کرنے کی ایک اور وجہ امریکہ کے ساتھ سن 2021 میں ہونے والا دفاعی معاہدہ بھی ہے، جس کے تحت امریکی افواج، طیارے اور گاڑیاں اردن میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ اردن مالی اور سکیورٹی لحاظ سے امریکہ اور کسی حد تک اسرائیل پر بھی انحصار رکھتا ہے۔
سعودی عرب کی حکمت عملی کیا ہے؟سعودی عرب بھی ایک نازک صورتحال کا شکار ہے۔
اس نے بھی دیگر 20 مسلم ممالک کے ساتھ وہی اعلامیہ جاری کیا اور اس سے پہلے بھی ایران کو ''برادر ملک‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی تھی۔مگر اصل صورتحال مختلف ہے۔ اسٹیفن لوکاس کے مطابق سعودی عرب غیر رسمی طور پر ایران مخالف کارروائیوں میں شریک ہے، ''سعودی عرب اسرائیل کو ریڈار ڈیٹا فراہم کرتا ہے اور اپنی فضائی حدود کے شمالی حصے میں اسرائیلی طیاروں کی موجودگی نظر انداز کرتا ہے، خاص طور پر اس حصے میں جہاں سے ایرانی میزائل گزرتے ہیں۔
‘‘سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے مگر اب بھی ان کا رشتہ کمزور ہے۔ کسی بھی غیر یقینی صورت میں سعودی عرب امریکہ ہی کی طرف دیکھے گا۔
ادارت: شکور رحیم
یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور سعودی عرب اسرائیل کے کے لیے
پڑھیں:
ایران اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کو کیسے چکمہ دے رہا ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی میں حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے داغے گئے بعض بیلسٹک اور کروز میزائل اسرائیل کے جدید دفاعی نظام کو چکمہ دے کر اپنے اہم اہداف تک پہنچے۔ یہ امر دنیا بھر میں عسکری تجزیہ کاروں کے لیے باعث حیرت ہے کیونکہ اسرائیل کا شمار دنیا کے سب سے مضبوط فضائی دفاعی نظام رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔
اسرائیلی دفاعی نظام، ایک جامع ڈھانچہاسرائیل کا دفاعی نظام متعدد سطحوں پر مشتمل ہے۔
Iron Dome: قریبی فاصلے کے راکٹ اور میزائلوں کو روکنے کے لیے
David’s Sling: درمیانے فاصلے کے میزائلوں کے لیے
Barak-8: زمین سے فضا میں مار کرنے والا نظام
Arrow-2 اور Arrow-3: طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں کے لیے
یہ نظام ریڈار، کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز اور لانچر یونٹس پر مشتمل ہوتے ہیں، جو دشمن کے میزائلوں کو ٹریک کر کے انہیں ہوا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پھر بھی ایرانی میزائل کیسے کامیاب ہوئے؟ایران کی جانب سے تازہ حملوں میں بعض ایرانی میزائل اور ڈرونز اسرائیل کے دفاعی نظاموں کو چکمہ دے کر اہم اسرائیلی اہداف جیسے تل ابیب میں واقع ملٹری ہیڈکوارٹر (Kirya) اور سورکا اسپتال کے قریب انٹیلیجنس سنٹرز تک جا پہنچے۔ ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو یہ کامیابی کیسے ملی؟ وہ اسرائیل کے دفاعی نظام کو چکمہ دے کر کیسے اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے؟ اس کی چند بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں:
ایران نے ایک ساتھ 400 سے زائد میزائل اور سینکڑوں ڈرون فائر کیے۔ یہ over-saturation کی حکمتِ عملی کہلاتی ہے، جس میں اتنی بڑی تعداد میں حملے کیے جاتے ہیں کہ دفاعی نظام کے ہاں انٹرسپٹر میزائلوں کی حد ختم ہو جائے۔
یہ بھی پڑھیے ایران کا سجیل 2 میزائل: اسرائیل میں تباہی مچانے والے جدید ترین ہتھیار کی خاص بات کیا؟
اسرائیلی نظام کے پاس انٹرسپٹر میزائلوں کی تعداد محدود ہے، اور ہر میزائل کے جواب میں عموماً 2 انٹرسپٹر داغے جاتے ہیں۔
????BREAKING : ???????????????????? CNN reports that Iran has launched nearly 400 ballistic missiles and approximately 1,000 drones targeting Israel so far. pic.twitter.com/ilnInvScZF
— Defense Intelligence (@DI313_) June 18, 2025
ہائپرسونک میزائلز کا استعمالایران کے پاس Fattah-2 جیسے hypersonic glide vehicles (HGV) موجود ہیں، جو آواز سے 5 گنا زیادہ رفتار سے پرواز کرتے ہیں۔
یہ میزائل نہ صرف تیز رفتار ہوتے ہیں بلکہ ان کی پرواز کا راستہ مسلسل بدلتا ہے، جس کی وجہ سے روایتی دفاعی نظام ان کے بارے میں اندازہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔
کروز میزائل، جیسے Hoveyzeh, بہت کم بلندی پر اور مسلسل پرواز کرتے ہوئے ہدف کی طرف بڑھتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کا ریڈار کی نظر سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے۔
یہ میزائل طیاروں کی مانند پرواز کرتے ہیں اور اکثر شہری یا غیر عسکری راستوں سے گزر کر اچانک وار کرتے ہیں۔
???????????? Des quartiers entiers de Tel-Aviv réduits à l’état de ruines sous une pluie de missiles balistiques iraniens.#israel #Iran pic.twitter.com/xbTq9cDnPE
— Shanna Messaoudi (@Shanna__Bylka) June 19, 2025
جعلی اہداف اور ڈی کوائز (Decoys)ایران نے ممکنہ طور پر جعلی میزائل یا ڈرونز بھی استعمال کیے، جنہیں دفاعی نظام حقیقی خطرہ سمجھ کر انٹرسپٹرز استعمال کرتا ہے۔
یہ طریقہ دفاعی نظام کی صلاحیت اور انٹرسپٹر ذخیرے کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایرانی میزائل بعض اوقات ریڈار جیمنگ یا سپریس کرنے والی ٹیکنالوجی سے بھی لیس ہوتے ہیں، جس سے ان کی شناخت اور تعاقب مشکل ہو جاتا ہے۔
کیا اسرائیل یا ایران کے ہتھیار ختم ہو سکتے ہیں؟تجزیہ کار الیکس گیٹوپولس کے مطابق یہ جنگ ایک تھکانے والی جنگ بن چکی ہے۔ دونوں ممالک اپنے میزائل ذخائر، لانچ سسٹمز، اور فضائی نگرانی کی استعداد کو مسلسل آزما رہے ہیں۔
اسرائیل کے لیے ایران پر حملہ آسان نہیں کیونکہ زمینی فاصلہ تقریباً 1,000 کلومیٹر ہے۔ طویل پروازوں کے لیے ایندھن کی کمی اور طیاروں کا زیادہ دیر تک فضاء میں رہنا ممکن نہیں حتیٰ کہ امریکی مدد سے بھی محدود صلاحیت ہی حاصل ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ایران کا سب سے بڑا میزائل حملہ، آرمی انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر اور اسٹاک ایکسچینج کی عمارت نشانہ بن گئی
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائلوں کا اسرائیلی دفاعی نظام کو چکمہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ کوئی بھی دفاعی نظام 100٪ ناقابلِ تسخیر نہیں ہوتا۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ حکمتِ عملی، رفتار اور مقدار بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ایران اسرائیل جنگ صرف ٹیکنالوجی کا نہیں بلکہ ذہانت، حکمت عملی، اور برداشت کا بھی امتحان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی دفاعی نظام ایران اسرائیل جنگ