Jasarat News:
2025-09-20@21:08:33 GMT

کیا اسلام کے عالمگیر غلبے کا آغاز ہونے والا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے یہ شعر کہلوایا ہے۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
اس شعر میں خدا مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمان جنہوں نے کبھی پوری دنیا کو فتح کیا تھا بلاشبہ وہ سب تمہارے بزرگ تھے مگر بدقسمتی سے آج کے مسلمانوں میں ان کی ایک بھی خوبی موجود نہیں۔ خدا کے بقول آج کے مسلمان تو صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مستقبل کا انتظار کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں کی صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔ آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ نہ ان کا کوئی شاندار ماضی تھا نہ ان کا کوئی روشن حال ہے اور نہ ہی ان کا کوئی تابناک مستقبل ہے۔ اقبال کے بقول آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
مسلمانوں کے پاس آج 57 ریاستیں ہیں مگر ان کی حیثیت روئے زمین پر 57 جھونپڑیوں سے زیادہ نہیں۔ مسلمانوں کے پاس تیل اور گیس کی بے پناہ دولت ہے مگر اس دولت سے وہ نہ اپنے ماضی سے زندہ تعلق پیدا کررہے ہیں نہ اپنے حال کو بہتر کررہے ہیں اور نہ کوئی شاندار مستقبل کاشت کررہے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا اصرار ہے کہ دنیا میں اسلام کے عالمگیر غلبے کا آغاز ہونے ہی والا ہے۔ اس کا شعور ہماری تاریخ میں یا تو اقبال کو تھا یا مولانا مودودی کو۔ مولانا مودودی نے 1950ء کی دہائی میں صاف کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ کمیونزم کا ماسکو میں کوئی پرستار نہیں ہوگا اور ایک وقت آئے گا جب مغرب کے بڑے مراکز میں سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ڈیموکریسی کی کوئی مان دان نہیں ہوگی۔ مولانا کے الفاظ یہ نہیں تھے مگر ان کی بات کا مفہوم یہی تھا لیکن اقبال نے مولانا مودودی سے بھی بہت پہلے اپنی ایک نظم اور اپنے ایک شعر میں مسلمانوں کے ’’عہد عروج‘‘ کی پیش گوئی کردی تھی۔ اقبال کی ایک نظم کا عنوان ہے۔ 1907ء ذرا اس نظم کے کچھ اشعار کو ملاحظہ کیجیے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردۂ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آوارہ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہو شیار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا
اقبال کی اس نظم کے پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں وہ ہٹنے کا وقت آنے والا ہے اور خدا کی قدرت کاملہ معجزات کی صورت میں اس طرح آشکار ہوجائے گی کہ اربوں انسان اپنی آنکھوں سے خود اس کا مشاہدہ کریں گے۔ جس طرح کبھی رسول اکرمؐ کے دور میں اسلام پر مرمٹنے والے صحابہ کرام تھے وہ ایک بار پھر انسانی بستیوں میں نمودار ہوجائیں گے۔ انہیں اس طرح آزمایا جائے گا جس طرح صحابہ کرام کو آزمایا گیا تھا مگر ان کی آزمائشیں ’’بالکل نئی‘‘ ہوں گی۔ مغرب نے خدا کی بنائی ہوئی دنیا کو ’’دکان‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے حالانکہ خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔ چنانچہ اہل مغرب جن جن چیزوں پر ناز کررہے ہیں وہ سب حقیر ثابت ہونے والی ہیں۔ اور یہ مغربی تہذیب اپنے ہی خنجر یعنی عقل پرستی سے خودکشی کرلے گی۔ آخر شاخ نازک پر بنے ہوئے آشیانے کا انجام تباہی کے سوا کیا ہے؟ چنانچہ مغربی تہذیب بھی جلد فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی۔
جیسا کہ ظاہر ہے ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، علمی، سیاسی، معاشی اور تخلیقی حالت اچھی نہیں مگر مسلمانوں کا ایک کمال غیر معمولی ہے۔ ہندوئوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ویدوں اور گیتا کی صورت میں توحید کا پیغام دیا تھا مگر ہندوئوں نے ایک خدا کی خدائی کو ترک کرکے خدا کے شریک ایجاد کرلیے۔ یہودیت کے پاس بھی کبھی توحید موجود تھی مگر ان کی عظیم اکثریت نے توحید کیا
پورے مذہب ہی کو چھوڑ دیا اور آج یہودیوں کی عظیم اکثریت سیکولر زندگی اختیار کیے ہوئے ہے۔ عیسائیوں کے پاس بھی کبھی توحید کا سرمایہ تھا مگر عیسائیوں نے کسی سند کے بغیر سیدنا عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک کا ارتکاب کرلیا۔ مزید المناک بات یہ ہوئی عیسائیوں کی اکثریت نے جدیدیت کے زیر اثر اپنا مذہب ہی چھوڑ دیا اور آج عیسائیوں کی تمام ریاستیں سیکولر اور لبرل ریاستیں ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی اور علمی حالت ناگفتہ بہ ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ابھی تک قرآن و سنت اور قرآن و حدیث سے چمٹی ہوئی ہے۔ چنانچہ دنیا میں اگر توحید کے پیغام کو عام ہونا ہے اور پوری انسانیت کو اگر توحید کے گرد طواف کرنا ہے تو توحید کا خالص تصور صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلمانوں کے پاس صرف توحید کا تصور ہی نہیں ہے دین کی پوری روایت موجود ہے۔ اس پوری روایت کا عالمگیر احیا ہوگا تو دنیا سیکولر ازم، لبرل ازم اور قوم پرستی کے ہولناک اور امراض سے نجات حاصل کرے گی۔
اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی رہنما رسول اکرمؐ کی وہ حدیث مبارکہ ہے جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا اور اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کو پسند ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مشیت ہوگی اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کم و بیش 50 سال سے کاٹ کھانے والی آمریت کے تحت اجتماعی زندگی بسر کررہی ہے اور یہ کاٹ کھانے والی آمریت کم و بیش اپنے تمام امکانات ظاہر کرچکی ہے اور اب اس کے پاس مسلمانوں کو دکھانے کے لیے کوئی اور تماشا نہیں ہے۔ چنانچہ اب رسول اکرمؐ کی حدیث مبارکہ کی رو سے ہم خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کے آغاز کے بہت قریب کھڑے ہیں۔
اس تجربے کی نوعیت کیا ہوگی یہ بات تو خدا ہی جانتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جدید مغرب نے مذہب کی جو تحقیر پیدا کی ہے اسے کسی علمی دلیل سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ مغرب کے ممتاز دانش ور جیمز فریزر نے اپنی کتاب ’’گولڈن بائو‘‘ میں جس کا اردو میں ’’شاخ زریں‘‘ کے نام سے سید ذاکر علی ترجمہ کرچکے ہیں انسان کی پوری فکری تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسانی فکر کا پہلا عہد جادو کا عہد تھا۔ اس عہد میں انسان جادو کے زیر اثر زندگی بسر کرتا تھا۔ جادو ہی انسانوں کا ضابطۂ حیات تھا۔ انسانی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا اور پھر انسان ہزاروں سال تک مذہب کے ضابطۂ حیات کے تحت زندگی بسر کرتا رہا۔ انسان کی فکر نے مزید ’’ترقی‘‘ کی تو انسان نے فلسفہ وضع کرلیا اور ساری دنیا میں فلسفے کا عہد شروع ہوگیا۔ انسان ہزاروں سال تک فلسفے کے زیر اثر زندگی گزارتا رہا۔ انسان کی فکر نے مزید ترقی کی تو انسان نے سائنس تخلیق کرلی اور آج ہمارا عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کا عہد ہے اور اب سائنس اور ٹیکنالوجی ہی ہمارا ضابطۂ حیات ہے۔ جیمز فریزر نے انسانی تاریخ کی جو تعبیر بیان کی ہے پورا مغرب اس پر ایمان لایا ہوا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام سمیت دنیا کے تمام مذاہب گویا انسان کے عہد طفولیت کی یادگاریں ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مقابلے پر مذہب کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دیکھا جائے تو ان کی نوعیت تقریباً ’’معجزاتی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ ریڈیو 20 ویں صدی کا ایک بڑا ’’معجزہ‘‘ تھا۔ وہ انسانی آواز کو ہزاروں کلو میٹر تک پہنچا سکتا تھا مگر ٹیلی وژن ریڈیو سے بھی بڑا معجزہ بن کر سامنے آیا اس لیے کہ اس نے تصویر کو متحرک کرکے ہزاروں کلو میٹر تک پہنچانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ماضی کے ’’تناظر‘‘ میں دیکھا جائے تو ’’بجلی‘‘ خود ایک معجزے کی طرح ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ انسان دل کے آپریشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر جدید سرجری نے دل کے آپریشن کو ’’معمول کی چیز‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کو ایسے سیکڑوں معجزات سے بھر دیا ہے۔
چنانچہ اب اکیسویں صدی میں جب خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کا آغاز ہوگا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے معجزات کا ظہور ہوگا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ساری ’’ترقی‘‘ ان کے آگے بچوں کا کھیل نظر آئے گی۔ انسان کے پاس ایجاد و اختراع کی جو صلاحیتیں ہیں وہ بھی اللہ ہی کی دی ہوئی ہیں مگر خدا کی معجزاتی صلاحیت کے مقابلے پر انسانی معجزات کی اوقات ہی کیا ہے۔ چنانچہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کے آغاز کے بعد جو معجزات ظاہر ہوں گے مغرب کا سائنس اور تکنیکی ذہن بھی ان کا انکار نہیں کرسکے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری مغربی دنیا مسلمان ہوجائے گی۔ مغرب مسلمان ہوجائے گا تو ہندوستان کیسے دائرہ اسلام سے باہر رہے گا؟ افریقا کیوں نعمت خدا وندی سے محروم رہے گا؟
سوال یہ ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کا آغاز کہاں سے ہوگا؟ اس سلسلے میں ہم نے آج سے 25 سال پہلے کہیں ایک حدیث مبارکہ پڑھی تھی۔ رسول اکرمؐ نے ایک حدیث شریف میں فرمایا ہے کہ مجھے ہندوستان کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ اقبال نے اس حدیث شریف کا ذکر اپنے ایک شعر میں یوں کیا ہے۔
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
یہاں ہم ہندوستان کے بجائے ’’برصغیر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ممکن ہے کہ اس تجربے کا آغاز ہندوستان سے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس تجربے کا آغاز پاکستان سے ہو۔ آخر پاکستان لیلتہ القدر میں تخلیق ہوا تھا۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: منہاج النبوہ کے تجربے سائنس اور ٹیکنالوجی مسلمانوں کے پاس تجربے کا ا غاز ا ج کے مسلمان مسلمانوں کی رہے گا جب تک ہوگی اور اس خلافت علی رسول اکرم کررہے ہیں اس کے بعد مگر ان کی توحید کا یہ ہے کہ تھا مگر نہیں ہے کا عہد نے ایک خدا کی ہے اور کیا ہے

پڑھیں:

انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟

انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟

شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔

خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش

بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت

پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی

سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا

مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔

یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔

قدیم نظریہ، جدید عکس

19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔

انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک

زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک

کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن

کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک

یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔

شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟

جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔

مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔

لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔

بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز

متعلقہ مضامین

  • انسان کے روپ میں وحشی درندہ
  • اسلام آباد میں بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے والوں کو حوالات دکھانے کا فیصلہ
  • اسلام آباد ؛ بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے گاڑی چلانے والوں کیخلاف پولیس کا بڑا فیصلہ
  • ارباز خان نے خوشبو خان سے طلاق کی تصدیق کر دی
  • صدر زرداری کا چین میں سنکیانگ اسلامک انسٹیٹیوٹ کا دورہ، مسلمانوں کیلئے خدمات کی تعریف
  • جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر سوال اٹھا دیا
  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • رینالہ خورد میں ہونے والا ٹرین حادثہ، تحقیقات میں اہم انکشافات
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • اسلامی تہذیب کے انجن کی پاور لائیز خراب ہوگئی ہیں،احسن اقبال