خشک سالی کا عالمی دن اور پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ہر سال 17 جون کو ’’خشک سالی ‘‘ کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ دنیا بھر میں زمینی انحطاط (Land Degradation) اور پانی کی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے آگاہی پھیلائی جا سکے۔ 2025 کے اس دن کا موضوع ہے: ’’ زمین کو بحال کریں، مواقع کو اجاگرکریں۔‘‘ اس دن کو منانے کا مقصد ہے زمین کی حفاظت، کسانوں کی بہتری اور پائیدار ترقی کی راہ ہموارکرنا۔
ایک اندازے کے مطابق 1970سے اب تک دنیا کے 75 فیصد زمینی رقبے پر زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہر سیکنڈ میں اوسطاً چار فٹ بال میدانوں کے برابر زمین خراب ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق زمین کی تباہی عالمی معیشت کو سالانہ 44 ٹریلین ڈالر کے قریب نقصان پہنچاتی ہے۔ عالمی سطح پر تقریباً ایک ارب ہیکٹر زمین بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جس پر 1.
2022 میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی رپورٹ‘‘Global Drought Risk and Adaptation Report’’کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو خشک سالی کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے تحت جاری کردہ عالمی تجزیاتی رپورٹس کے مطابق پاکستان نہ صرف خشک سالی کے تیزی سے بڑھتے اثرات کا سامنا کر رہا ہے بلکہ ماحولیاتی لحاظ سے وہ جنوبی ایشیا کے ان خطوں میں شامل ہے جہاں آبی وسائل خطرناک حد تک سکڑ رہے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 23 ممالک میں شامل ہے جو خشک سالی کے شدید خطرے سے دوچار ہیں جب کہ ملک کی 80% زرعی زمین کا انحصار بارش پر ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں بھی شامل ہے جہاں پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں فی کس پانی کی دستیابی 900 کیوبک میٹر سے بھی کم ہے، جو عالمی معیار (1700 کیوبک میٹر) سے بہت نیچے ہے جب کہ پاکستان کے پاس صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، ماہرین کے مطابق اس بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ہمارا پڑوسی ملک بھارت جس نے پاکستان پر آبی جارحیت مسلط کر رکھی ہے، وہ پانی 190 دن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔
سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب ہمارے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UNCCD کے مطابق پاکستان کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ زمین کے بنجر ہونے، پانی کی قلت اور خوراک کی عدم دستیابی جیسے خطرات سے بچا جا سکے۔ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب وہ علاقے ہیں جو شدید خشک سالی کی زد میں رہتے ہیں۔
بلوچستان کے 26 اضلاع میں تقریباً 1.5 ملین افراد خشک سالی سے براہِ راست متاثر ہیں۔ ہزاروں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور فصلوں کی پیداوار میں زبردست کمی آئی ہے۔
موسمی پیٹرن کی تبدیلی،گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے پاکستان میں خشک سالی اور سیلاب دونوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سندھ اور بلوچستان میں مون سون بارشوں میں 67 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں شدید گرمی، فضائی آلودگی اور ناقص نکاسی آب کا نظام بھی ماحولیاتی دباؤ میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ ماحولیاتی تنزلی کا براہِ راست اثر پانی کے وسائل، زراعت، جنگلات اور انسانی صحت پر پڑ رہا ہے۔
اگر چہ اس ضمن میں حکومتی سطح پر کئی منصوبوں پر کام جاری ہے جیسےLiving Indus کے تحت دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کی بحالی ، حکومت نے 1.5 بلین درخت لگائے، جب کہ بلوچستان اور سندھ میں متاثرہ افراد کے لیے خصوصی ریلیف پیکیجزجاری کیے گئے ہیں جن میں چارہ، ادویات اور پینے کا صاف پانی شامل ہے۔ پی ایم ڈی نے خشک سالی کی مانیٹرنگ اور وارننگ کے لیے نیا نظام متعارف کرایا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں قومی سطح پر اس حوالے سے مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے جن میں زمین کی بحالی میں سرمایہ کاری، ریجنریٹو ایگریکلچر اور زمین کی زرخیزی بڑھانے والے طریقوں کو فروغ دینا، پانی کی منصفانہ تقسیم، ڈرپ ایریگیشن، رین واٹر ہارویسٹنگ اور گھریلو استعمال میں بچت پر توجہ دینا۔
قانون سازی اور پالیسیز کے ذریعے پانی کے منصفانہ استعمال اور زمین کے تحفظ سے متعلق مؤثر قوانین کا نفاذ۔ اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی لیول پر آگاہی مہمات چلانا۔ اقوام متحدہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر زمین کی بحالی اور پانی کے انتظام کے منصوبے شروع کرنا۔
پاکستان کا اقوامِ متحدہ کی خشک سالی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہونا ایک تشویشناک اشارہ ہے، جو نہ صرف ماحولیاتی بلکہ غذائی، معاشی اور سماجی سلامتی پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ خشک سالی صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ سماجی، معاشی اور صحت کا بحران بھی ہے۔ پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے یہ ایک انتباہ ہے کہ اگر اب بھی اقدامات نہ کیے گئے تو خوراک، پانی اور معیشت تینوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
خشک سالی کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زمین کی بحالی صرف زمین کا نہیں، انسانیت کا مسئلہ ہے، اگر ہم آج زمین کے تحفظ کے لیے کھڑے نہیں ہوئے توکل زمین بھی ہمیں جواب نہیں دے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے مطابق پاکستان خشک سالی کی بحالی شامل ہے پانی کی زمین کی دنیا کے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
عالمی سطح پر بھارت کی دوغلی پالیسی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کی طرف سے روسی تیل کی خریداری پر اس کی مصنوعات پر امریکی ٹیرف میں کافی حد تک اضافہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، روسی تیل کی فروخت ماسکو کے لیے یوکرین کے خلاف جنگ میں آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ بھارت ’’ بڑے پیمانے پر روسی تیل خرید رہا‘‘ اور اسے ’’ بڑے منافع‘‘ پر بیچ رہا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت پر مزید اضافی ٹیرف کے اعلان نے وزیراعظم نریندر مودی کی معاشی ٹیم کی موقع پرستانہ پالیسیوں کا پول کھول دیا ہے۔
دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کا دعوے دار بھارت امریکی ٹیرف وار میں مزید اضافہ شاید برداشت نہ پائے ، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ تین برس تک بھارت دھڑلے سے روسی تیل کم قیمت پر خرید کر مہنگا فروخت کرکے بے تحاشا منافع کماتا رہا اور امریکی انتظامیہ خاموش رہی، اب ’’ان بن‘‘ ہوئی ہے تو صدر ٹرمپ، بھارت کے پول کھول رہے ہیں۔
امریکا، جو بھارت کا اسٹرٹیجک پارٹنر کہلاتا تھا، اب وہ اس نالاں نظر آرہا ہے ۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران امریکا نے واضح اعلان کیا کہ ’’ ہم نے مداخلت کر کے جنگ روکی‘‘ لیکن بھارت کے وزیراعظم برملا اسے تسلیم نہیں کررہے تاہم صدر ٹرمپ کی وجہ سے بھارت کی بڑھک بازی ناکام ہوئی ہے اور اسے شرمندگی اٹھانی پڑی جب کہکینیڈا میں تو مودی حکومت کو کھلی بے عزتی کا سامنا ہے۔
سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد کینیڈا نے بھارت کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دینے کی مہم شروع کر دی۔ فرانس میں بھارتی پائلٹس کی تربیت کے دوران ہونے والی نااہلی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ رافیل طیارے اڑانے والے بھارتی’’ایس‘‘ پائلٹ کی کارکردگی پر فرانس کے عسکری ماہرین نے جو تبصرے کیے، وہ مودی کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف تھے۔ بھارت کا غرور خاک میں مل گیا ہے اور دنیا کو ایک بار پھر یقین آ گیا کہ بھارت صرف بڑھکوں کا بادشاہ ہے، حقیقت میں کھوکھلا سا کاغذی شیر۔
بھار ت کو جھوٹ اور الزام تراشی کی سیاست نے بالآخر اسے عالمی تنہائی کے ایک گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہے، جہاں جاتا ہے، رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف ننگی جارحیت کی لیکن ایک بھر پور جوابی وار سے عبرتناک شکست سے دوچار ہوا۔ پاکستان کے حوالے سے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی اس کی تمام کوششوں ناکام ہوگئیں، اس نے کانگریس کے رہنما ششی تھرور کی قیادت میں ایک وفد بیرون ممالک بھیجا جو ناکام واپس لوٹا، اس ناکامی کا ششی تھرور نے ایک انٹرویو کے دوران خود اعتراف کیا۔
جھوٹ کو کارآمد بنانے کے لیے اس میں تھوڑا سا ہی سہی، سچ تو ہونا چاہیے لیکن جب تمام تر بیانیہ ہی جھوٹ کا ایک پلندہ ہو تو یقین کون کرے گا۔ دہشت گردی کی بھارتی رام کہانیوں اور اس کے جھوٹ در جھوٹ سے اب عالمی برادری تنگ آچکی ہے کیونکہ اس کے پاس ثبوت ہیں نہ شواہد، یہ سب کچھ اگر ہیں تو پاکستان کے پاس ہیں۔ پاکستان کئی مرتبہ شواہد کے ساتھ بھارتی تخریب کاری کے بارے میں ڈوزیئر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورموں پر پیش کر چکا ہے۔
بھارتی دہشت گردی صرف مقبوضہ جموں وکشمیر اور پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر اپنے پنجے گاڑھ لیے ہیں۔ کینیڈا میں خالصتان حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے بہیمانہ قتل اور امریکا میں سکھ رہنما گرو پتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش نے مودی حکومت کا بھیانک چہرہ عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ ان دونوں واقعات میں مودی حکومت کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد سامنے آچکے ہیں۔
بھارت کو عالمی وعدوں اور معاہدوں کا پاس ہے نہ لحاظ۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ پورا کرنے کے بجائے وہ جابرانہ ہتھکنڈوں سے ان کی آواز دبانے کی کوشش کررہا ہے، اس نے پہلگام واقعے کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر معطل کر دیا، وہ دریائے سندھ کا پانی نہر کے ذریعے راجستھان لے جانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے پر بین الاقوامی ثالثی عدالت نے ایک تازہ فیصلے میں کہا ہے کہ بھارت کا معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل اور ثالثی عدالت کے کردار کو محدود کرنے کا اقدام قطعاً درست نہیں۔ ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی ایک واضح جیت جب کہ بھارت کے لیے ایک اور سبکی ہے۔
مودی سرکار کی بنیاد ہی جھوٹ، پروپیگنڈے اور اقلیت دشمنی پر کھڑی ہے۔ ایک طرف ان کی پارٹی بی جے پی، رام مندر اور رام راج کے نام پر ووٹ بٹورتی ہے، دوسری طرف پاکستان کو دشمن نمبر ایک بنا کر ہر الیکشن میں عوام کو ورغلاتی ہے۔ آج بھارت اندرونی اور بیرونی، دونوں محاذوں پر عبرتناک رسوائی کا شکار ہے۔ سب سے پہلے اگر ہم خطے کی بات کریں تو وہ بنگلہ دیش، جسے بھارت نے 1971 میں اپنی ’’کامیابی‘‘ سمجھا تھا، اب بھارت سے تنگ آ چکا ہے۔
سرحدی تنازعات، پانی کے مسئلے اور تجارت میں نابرابری نے بنگلہ دیش کو مجبور کردیا کہ وہ بھارت سے فاصلہ رکھے اور پھر، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک، جنھیں بھارت ہمیشہ اپنی جیب کی گھڑی سمجھتا رہا، اب بھارت کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ نیپال نے نقشے میں بھارتی علاقوں کو اپنا قرار دے کر اپنی خود مختاری کا اظہار کر دیا۔ بھوٹان نے بھی چین کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے، جس سے بھارت کا سر نیچے ہو گیا ہے۔
بھارت کے اندرونی حالات کی تصویر دیکھیں تو بات اور بھی ہولناک ہو جاتی ہے۔ مودی حکومت نے آتے ہی مسلمانوں کو نشانے پر لیا۔ کبھی ’’ لو جہاد‘‘ کے نام پر، کبھی’’ گائے کے ذبح‘‘ پر، کبھی ’’شہریت ترمیمی قانون‘‘ کے ذریعے، بھارت کے مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ دہلی کے فسادات، اتر پردیش میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلا کر’’ نیا بھارت‘‘ بنانے کا دعویٰ، درحقیقت ایک فاشسٹ ذہنیت کی عکاسی ہے۔
سکھ بھی اس ظلم سے محفوظ نہیں رہے۔ کسان تحریک کے دوران جس طرح مودی حکومت نے سکھ کسانوں پر لاٹھیاں برسائیں، انھیں خالصتانی قرار دے کر بدنام کیا، اس سے پنجاب میں بی جے پی کی زمین بالکل کھسک گئی ہے۔بھارت میں چرچ جلائے جاتے ہیں، مشنری اسکولوں پر حملے ہوتے ہیں، اور جبری تبدیلی مذہب جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
دلتوں کی تو بات ہی چھوڑیں، وہ تو آج بھی’’ اچھوت‘‘ ہیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں مذہب، ذات اور زبان کے نام پر ظلم ہی ظلم ہو؟ مئی میں بھارت کے ساتھ تصادم نے اچانک پاکستان کے عالمی تشخص کو انتہائی بہتر بنایا ہے جب کہ اسے سفارتی اور اسٹرٹیجک عروج کا ایک نادر موقع بھی فراہم کیا ہے۔
پاکستان اب جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں مضبوط کردار ادا کررہا ہے ۔ افغانستان کا بدلتا ہوا منظر نامہ اور پاکستان کی انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں نے علاقائی سلامتی کی بات چیت میں پاکستان کو مزید اہم کردار بنا دیا ہے۔ ایران، اسرائیل تنازع کے دوران پاکستان کی سفارت کاری نے بھی اس کے امیج کو بہتر بنایا۔ یہ تبدیلیاں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں ہو رہی ہیں جس میں مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا کا خطہ شامل ہے۔ پاکستان اب وسطی ایشیا اور قریبی جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
چونکہ کچھ ممالک بھارت سے ناخوش ہیں اور روس قلیل مدتی مفادات پر زیادہ توجہ دیتا ہے تو پاکستان کے پاس نئی شراکت داری قائم کرنے کا موقع ہے۔اس وقت پاکستان افغانستان سے ملحقہ بلوچستان اور خیبر پختو نخوا کے سرحدی علاقوں میں انسدادِ شورش اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے جب کہ ان کوششوں کا بین الاقوامی کرداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔
بھارت کے لیے ہزیمت اور رسوائی کے اس گہرے گڑھے سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ الزام تراشی کی سیاست بند کرے، ثبوت و شواہد اور حق و انصاف کی بنیاد پر بات کرے، عالمی وعدوں، معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دے اور دریاؤں کا پانی نہروں کے ذریعے ہڑپ کرنے کی دھمکیاں دینا بند کرے، اسی میں نہ صرف اس کی بلکہ اس پورے خطے کی بھلائی ہے۔