امریکی رکن کانگریس نے ایران پر حملہ ٹرمپ کیخلاف مواخذےکی بنیاد قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: امریکی کانگریس کی رکن نے ایران پر حملے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی ایک واضح بنیاد قرار دیا ہے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر بمباری کا فیصلہ کیا، جو امریکی آئین اور کانگریس کے جنگی اختیارات کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے جذبات میں آکر ایک ایسی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جو کئی نسلوں تک امریکا کو متاثر کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام مکمل طور پر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے لیے ایک ٹھوس اور واضح جواز فراہم کرتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا نے حال ہی میں ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں دعویٰ کیا کہ ایران کی تین نیوکلیئر سائٹس پر کامیاب حملے کیے گئے، جن میں فردو ایٹمی تنصیب کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔
بعد ازاں واشنگٹن میں خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ حملوں میں ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور امریکا کا مقصد ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران کی
پڑھیں:
امریکی صدر کے ایلچی کی روسی صدر سے ملاقات
روسی سرمایہ کاری کے ایلچی کیرل دمتریف، جنہوں نے اسٹیو وٹکوف کا استقبال کیا اور کریملن کے قریب ایک پارک میں ان کے ساتھ چہل قدمی کی، نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ مکالمہ غالب آئے گا، دونوں فریقوں کی طرف سے بات چیت کے مواد پر کوئی فوری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیو وٹکوف نے کریملن میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی، یہ ملاقات اس ڈیڈ لائن سے دو دن قبل ہوئی جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کو یوکرین میں امن کے لیے رضامند ہونے یا نئی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے دی تھی۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسٹیو وٹکوف ماسکو میں ایک ہنگامی مشن پر پہنچے تھے تاکہ 2022 میں روس کے حملے سے شروع ہونے والی ساڑھے تین سالہ جنگ میں کوئی پیش رفت حاصل کی جا سکے۔ روسی خبر رساں اداروں کے مطابق مذاکرات تقریباً تین گھنٹے بعد ختم ہوئے اور اسٹیو وٹکوف کا قافلہ کریملن سے روانہ ہوتے دیکھا گیا۔
روسی سرمایہ کاری کے ایلچی کیرل دمتریف، جنہوں نے اسٹیو وٹکوف کا استقبال کیا اور کریملن کے قریب ایک پارک میں ان کے ساتھ چہل قدمی کی، نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ مکالمہ غالب آئے گا۔ دونوں فریقوں کی طرف سے بات چیت کے مواد پر کوئی فوری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ، جو امن کی سمت پیش رفت کی کمی پر پیوٹن سے مایوس ہیں، نے روسی برآمدات خریدنے والے ممالک پر بھاری محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ وہ خاص طور پر بھارت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، جو چین کے ساتھ روسی تیل کا ایک بڑا خریدار ہے، کریملن کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو سزا دینے کی دھمکیاں غیر قانونی ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ روس ٹرمپ کی دھمکی کو ٹالنے کے لیے اسٹیو وٹکوف کو کیا پیشکش کر سکتا ہے۔ بلوم برگ اور آزاد روسی خبر رساں ادارے دی بیل نے اطلاع دی ہے کہ کریملن ممکنہ طور پر روس اور یوکرین کی طرف سے فضائی حملوں پر ایک عارضی پابندی کی تجویز دے سکتا ہے، یہ خیال بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے پچھلے ہفتے پیوٹن سے ملاقات میں پیش کیا تھا۔ اگر یہ تجویز منظور ہو جائے تو بھی یہ اس مکمل اور فوری جنگ بندی سے بہت کم ہو گا جس کی یوکرین اور امریکا کئی ماہ سے کوشش کر رہے ہیں، تاہم اس سے دونوں فریقوں کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔
مئی میں دونوں فریقوں کے درمیان براہ راست امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے بعد روس نے جنگ کے سب سے شدید فضائی حملے کیے، جن میں صرف کییف میں کم از کم 72 افراد ہلاک ہوئے تھے، ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ان روسی حملوں کو ’ قابل نفرت’ قرار دیا تھا۔ جواب میں یوکرین روسی ریفائنریوں اور تیل کے ذخائر کو نشانہ بناتا رہا ہے اور ان پر کئی بار حملے کر چکا ہے۔ پیوٹن کے قریبی تین ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ پیوٹن ٹرمپ کی پابندیوں کی الٹی میٹم کے آگے جھکنے کا امکان نہیں رکھتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ میں غالب آ رہے ہیں اور ان کے فوجی مقاصد امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش سے زیادہ اہم ہیں۔
روسی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ پوتن کو شک ہے کہ امریکا کی مزید پابندیوں سے کوئی خاص فرق پڑے گا، کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سال کی جنگ میں متعدد معاشی پابندیوں کے باوجود بھی روسی معیشت نے کام جاری رکھا ہے۔ دو ذرائع نے کہا کہ روسی رہنما ٹرمپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ واشنگٹن اور مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے ایک موقع کو گنوا سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے جنگی اہداف زیادہ اہم ہیں۔ روسی ذرائع کے مطابق پیوٹن کی امن کے لیے شرائط میں شامل ہیں: ایک قانونی طور پر پابند معاہدہ کہ نیٹو مشرق کی طرف توسیع نہیں کرے گا، یوکرین کی غیر جانبداری، روسی زبان بولنے والوں کا تحفظ، اور جنگ میں روس کی حاصل کردہ علاقائی فتوحات کو تسلیم کیا جائے۔
زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین روس کی ان مقبوضہ علاقوں پر خودمختاری کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور کییف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ نیٹو میں شمولیت چاہتا ہے یا نہیں۔ اسٹیو وٹکوف، جو ایک ارب پتی رئیل اسٹیٹ کاروباری ہیں، جب وہ جنوری میں ٹرمپ کی ٹیم میں شامل ہوئے تو ان کے پاس کوئی سفارتی تجربہ نہیں تھا، لیکن انہیں بیک وقت یوکرین اور غزہ کے تنازعات میں جنگ بندی کی کوششوں اور ایران کے جوہری پروگرام کے بحران میں مذاکرات کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ناقدین نے انہیں پیوٹن جیسے 25 سال سے حکمرانی کرنے والے طاقتور رہنما کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں ناتجربہ کار قرار دیا ہے، اور بعض اوقات ان پر کریملن کے بیانیے کی تائید کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔