پہلی بار پاکستانی گندم کے بیج خلا میں تجربے کے لئے بھیجےجائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
دنیا کے 110 سے زائد ممالک اب تک بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر مختلف سائنسی تجربات کا حصہ بن چکے ہیں، تاہم پاکستان اس فہرست میں تاحال شامل نہیں ہو سکا۔
البتہ اس سے قبل پاکستانی بیج محدود پیمانے پر صرف چینی خلائی سٹیشن پر تجربات کے لیے بھیجے گئے تھے۔
تاہم اب یہ تاریخ بدلنے جا رہی ہے کیونکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سپیس انجینیئر مہد نیئر جو ان دنوں امریکہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، ایک ایسے منصوبے کا حصہ بنے ہیں جس کے تحت پہلی بار پاکستان کی گندم کے بیج جلد ہی خلا میں تجربے کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔
یہ منصوبہ پاکستان کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے کیونکہ اس پروجیکٹ کے تحت دنیا کے صرف چار ممالک کو منتخب کیا گیا ہے جن کی فصلوں کے بیج خلا میں مائیکروگریویٹی کے ماحول میں تجربات کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں گندم نہ صرف خوراک کا بنیادی ذریعہ ہے بلکہ زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مہد نیئر اور اُن کی ٹیم نے پاکستانی گندم کو اس سائنسی تجربے کے لیے منتخب کیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ خلا میں گندم کے بیجوں پر کیے جانے والے تجربات زمین پر فصل کی پیداوار، معیار اور موسمی اثرات کے خلاف مدافعت کے حوالے سے انقلابی نتائج دے سکتے ہیں۔
یہ منصوبہ کیسے ممکن ہوا؟
یہ تاریخی تجربہ ’جگوار سپیس‘ اور ’دی کارمن پروجیکٹ‘ کے اشتراک سے ممکن ہوا ہے۔ یہ دونوں ادارے خلا میں نوجوان محققین کو تحقیق کے مواقع فراہم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔
یہ پروجیکٹ ناسا کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ یہ بیج جلد ہی ناسا کے لانچ پیڈ سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی جانب روانہ کیے جائیں گے۔
مہد نیئر اور اُن کے ساتھی محمد ہارون امریکی ریاست انڈیانا میں موجود پرڈیو یونیورسٹی میں ایسٹروڈائنامکس اور سپیس ایپلی کیشنز کے گریجویٹ ریسرچر ہیں۔
اُن کی تحقیق زمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹس کی نقل و حرکت اور خلائی ٹریفک کے مؤثر انتظام پر مرکوز ہے۔
انہوں نے آسٹریا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف گراز سے سپیس سسٹمز میں ماسٹرز اور امریکی ایئر فورس اکیڈمی سے انجینئرنگ اور ہیومینیٹیز میں ڈگری حاصل کی۔
اس سے قبل وہ پاکستان ایئر فورس میں 10 سال بطور ایئر سپیس انجینیئر خدمات بھی سرانجام دے چکے ہیں۔
مہد نیئر کا شمار ان پاکستانی نوجوانوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف خلا سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر اس میدان میں اپنی شناخت بھی بنا چکے ہیں۔
وہ متعدد بین الاقوامی خلائی اداروں سے منسلک ہیں جن میں ایس جی اے سی، آئی اے ایف، آئی اے اے اور اے آئی اے اے شامل ہیں۔
سنہ 2024 میں انہیں ’کارمن پائنیر‘ کے طور پر منتخب کیا گیا جو خلا، پالیسی سازی اور پائیدار سائنسی ترقی میں خدمات کے اعتراف کا ایک اعزاز ہے۔
انہیں خلائی تحقیق اور پالیسی میں بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز اور اعزازات بھی مل چکے ہیں۔
مہد نیئر خلا سے وابستہ تحقیقی پس منظر رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ بین الاقوامی تنظیم ’کارمن‘ کا حصہ ہیں جو خلائی تحقیق کے لیے دنیا بھر کے منتخب نوجوان سائنس دانوں کو پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
کارمن فیلوشپ میں اس وقت 150 ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس دان شامل ہیں۔ رواں برس فروری سے مارچ کے دوران ان تمام ارکان کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے سائنسی پروپوزل پیش کریں۔
ان میں سے بہترین پروپوزلز کو نہ صرف خلا میں تحقیق کا موقع دیا جانا تھا بلکہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جن ممالک سے پروپوزل منتخب ہوں گے، اُن کی زرعی فصلوں کے بیج بھی بین الاقوامی خلائی سٹیشن بھیجے جائیں گے۔
اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مہد نیئر نے اپنی یونیورسٹی سے ایک اور پاکستانی طالب علم محمد ہارون کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔
محمد ہارون کا تحقیقی پس منظر زرعی سائنس سے ہے اور اس وجہ سے وہ اس پروجیکٹ میں کلیدی کردار کے حامل رہے۔
دونوں نے مل کر ایک مفصل سائنسی پروپوزل تیار کیا جس میں پاکستانی گندم کو خلا میں بھیج کر اس کے بیجوں پر مائیکروگریویٹی کے اثرات کا مطالعہ شامل تھا۔ یہ پروپوزل کارمن اور جگوار سپیس نامی ادارے کو بھیجا گیا جہاں اسے منظور کر لیا گیا۔
یوں 150 ممبران میں سے مہد نیئر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کریں بلکہ پاکستانی گندم کو تاریخ میں پہلی بار انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں بھیجنے کا موقع حاصل کریں۔
اس خلائی تحقیقی منصوبے میں پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر تین ممالک کو بھی اپنی زرعی فصلوں کے بیج بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں بھیجنے کا موقع ملا ہے۔ یہ ممالک مصر، آرمینیا اور نائیجیریا ہیں جنہوں نے اپنی نمایاں زرعی اجناس کے بیج تجربات کے لیے منتخب کیے۔
مصر کی جانب سے کپاس، آرمینیا کی طرف سے انار اور نائجیریا کی طرف سے ایگوسی خربوزے کے بیج خلا میں بھیجے جا رہے ہیں، جب کہ پاکستان اس تجربے میں گندم کے بیجوں کے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔
یہ چاروں ممالک اپنی مخصوص زرعی اجناس کے ذریعے بین الاقوامی سائنسی تجربات کا حصہ بنے ہیں جو مستقبل میں زرعی پیداوار، بیجوں کی جینیاتی مضبوطی اور موسمیاتی چیلنجز کے مقابل بہتری کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔
مہد نیئر اس سائنسی منصوبے کے پس منظر میں بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ دنیا کے 110 سے زائد ممالک اپنے زرعی بیج اور تحقیقاتی تجربات خلا میں بھیج چکے ہیں، تو انہیں خیال آیا کہ پاکستان، جو کہ دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں شمار ہوتا ہے، اب تک کیوں اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکا؟
ان کے مطابق ’جب میں نے دنیا بھر کے تجربات کا مطالعہ کیا تو یہ سوال میرے ذہن میں اُبھرا کہ 25 کروڑ آبادی کا ہمارا ملک اس سطح پر آخر کب پہنچے گا؟ یہی سوچ کر میں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو بھی اس میدان میں نمائندگی دلوانا ہے۔‘
اسی مقصد کے تحت انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے ساتھی محمد ہارون کے ساتھ مل کر ایک پروپوزل تیار کیا۔
اس پروپوزل میں سائنسی معیار، مقصدیت اور جدت سب کچھ شامل کیا گیا تاکہ اسے رد نہ کیا جا سکے اور پاکستان کو خلا میں پہلی بار نمائندگی ملے۔
کیا حکومت پاکستان کو اس کا علم ہے؟
اس سوال پر مہد نیئر نے صاف گوئی سے بتایا کہ یہ منصوبہ اُن کی ذاتی کوشش ہے جس کا تعلق نہ اُن کی پی ایچ ڈی ریسرچ سے ہے، نہ کسی ادارے یا حکومت پاکستان سے۔
’میں نے یہ قدم صرف اس لیے اٹھایا کہ مجھے خلا اور سائنس سے محبت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ پاکستان بھی اس عالمی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے نہ حکومت کو اس بارے میں مطلع کیا، نہ کسی سے مالی مدد لی۔ اگر آئندہ کوئی ادارہ یا حکومتی نمائندہ اس سلسلے میں تعاون چاہے گا تو میں خوش دلی سے اپنی خدمات پیش کروں گا۔‘
مہد نیئر کا کہنا تھا کہ ان کی اصل خواہش یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں، خاص طور پر طلبہ میں خلا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے دلچسپی پیدا ہو۔
پاکستانی گندم کے بیج کیسے منتخب کیے گئے؟
اس منصوبے کے لیے چار مختلف ممالک کے بیج منتخب کیے گئے اور ہر فصل کا انتخاب سائنسی بنیادوں پر ہوا۔
مہد نیئر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ خلائی تجربات میں استعمال ہونے والے آلات میں بیج رکھنے کے لیے محدود جگہ ہوتی ہے، اس لیے بیجوں کا سائز، ساخت اور اُن کی پیکنگ انتہائی اہم مرحلہ تھا۔
’گندم کے بیج چونکہ موزوں سائز کے تھے اور امریکہ میں تحقیقی مقاصد کے لیے پاکستان سے پہلے ہی درآمد کیے گئے تھے، اس لیے ہم نے ان میں سے چند بیج منتخب کیے جو اس خلائی تجربے میں استعمال ہوں گے۔‘
مہد نیئر کے مطابق ’خلا میں تجربے کے لیے بیجوں کو ایک خاص قسم کی ٹیسٹ ٹیوب میں رکھا جاتا ہے جس کی گنجائش محدود ہوتی ہے، لہٰذا زیادہ تعداد نہیں رکھی جا سکتی۔‘
’ہم گندم کے اوسطاً آٹھ سے دس بیج خلا میں بھیج رہے ہیں جو بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں مائیکروگریویٹی میں رکھے جائیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کششِ ثقل سے آزاد ماحول میں اِن کی افزائش کیسے ہوتی ہے۔‘
انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر قمرالاسلام نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر پاکستانی گندم کے بیج بھیجے جانے کے تجربے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلا میں تحقیق خاص طور پر مائیکروگریویٹی ماحول میں فصلوں کے جینیاتی ردِعمل، بیماریوں کے خلاف مزاحمت اور مستقبل کی خلائی بستیاں بسانے کے لیے خوراک کے نئے ذرائع کی تلاش میں مدد دیتی ہے۔
ڈاکٹر قمرالاسلام نے بتایا کہ پاکستانی گندم پر کیے جانے والے یہ تجربات زمین پر بھی فصلوں کی بہتری کے لیے کارآمد ہو سکتے ہیں، بالخصوص ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز کے تناظر میں۔
اُن کا کہنا تھا کہ خلا کی لیبارٹریوں میں فارماسوٹیکل پودوں اور فصلوں کے مختلف تجربات ہوتے ہیں تاکہ اُن کی نشوونما کو وہاں مختلف انداز میں دیکھا جا سکے اور زمین اور خلا کا فرق بھی جانا جا سکے۔
ڈاکٹر قمرالاسلام کہتے ہیں کہ ’یقینی طور پر اگر اس مقصد کے لیے پاکستانی طالب علم کا پروپوزل منتخب ہوا ہے تو یہ قابل ستائش ہے اور حکومت کو بھی ایسے نوجوانوں کو سراہنا چاہیے اور ان کی معاونت کرنی چاہیے۔‘
سپارکو میں ڈائریکٹر پروجیکٹ مینجمنٹ اینڈ سسٹمز انجینیئرنگ ڈاکٹر محمد یاسر کا کہنا ہے کہ ’خلا میں حیاتیاتی (Biological) تجربات ہمیشہ سے سپیس سائنس کا بنیادی مقصد رہے ہیں۔‘
خلا میں کی جانے والی تحقیق کا اصل فائدہ تو زمین پر موجود انسانی کمیونٹی کو پہنچانا ہوتا ہے۔ اسی مقصد کے تحت مختلف ممالک کی سپیس ایجنسیاں ایسے بیج خلا میں بھیجتی ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ مائیکروگریویٹی اور دیگر مخصوص خلائی حالات میں کیسے ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد یاسر کے مطابق ’ماضی میں بھی ایسے متعدد تجربات ہو چکے ہیں جن میں بیج یا پودے خلا میں بھیجے گئے اور واپسی پر زمین پر دوبارہ اُگا کر اُن میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ان تجربات سے معلوم ہوا کہ کچھ فصلوں یا سبزیوں میں دفاعی صلاحیت یا ساختی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو زمین پر اُن کی کارکردگی پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد یاسر کہتے ہیں کہ ’جہاں تک پاکستانی گندم کے بیج خلا میں بھیجنے کا تعلق ہے، تو یہ یقیناً سائنسی سوچ، تحقیق اور مشاہدے کے ساتھ کیا گیا فیصلہ ہے۔
’بیجوں کا انتخاب اور اُن کو خلا میں بھیجنا ایک سنجیدہ عمل ہوتا ہے، جس میں سائنس دانوں کی مہارت اور بین الاقوامی خلائی اداروں کی منظوری شامل ہوتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بین الاقوامی خلائی سٹیشن پاکستانی گندم کے بیج کے بیج خلا میں کہ پاکستان محمد ہارون منتخب کیے انہوں نے بتایا کہ تجربے کے بھیجے جا پہلی بار فصلوں کے رہے ہیں دنیا کے کے ساتھ ہوتا ہے میں بھی کیا گیا ہوتی ہے چکے ہیں کا کہنا اور ا ن کہ خلا کے لیے جا سکے ہے اور کو بھی کے تحت کا حصہ
پڑھیں:
پاکستان کا بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود مزید ایک ماہ بند رکھنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک: بھارتی طیاروں کے لئے پاکستانی فضائی حدود آج سے مزید ایک ماہ کے لئے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایوی ایشن ذرائع کے مطابق پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان نے 24 اپریل کو پاکستانی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے بند کی تھی جس میں مزید ایک ماہ کی توسیح 23 مئی کو کی گئی تھی جو آج ختم ہورہی ہے۔
تاہم بھارتی طیاروں کیلئے پاکستانی فضائی حدود آج سے مزید ایک ماہ کیلئے بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم کا قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس طلب
اس سلسلے میں نوٹم سہہ پہر تک جاری کردیا جائے گا۔
یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے بھی جوابی طور پر پاکستانی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کی گئی۔