کراچی:

بلوچستان کے رکنِ صوبائی اسمبلی مفتی ہدایت الرحمان کا کمسن بیٹا عبدالباسط کراچی سے لاپتہ ہوگیا۔

اہل خانہ کے مطابق عبدالباسط ملیر کے علاقے سعود آباد میں واقع جامعہ مجید انفیہ نامی مدرسے میں زیر تعلیم تھا اور وہیں قیام پذیر بھی تھا۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ عبدالباسط آج شام پانچ بجے مدرسے سے اپنے ماموں کے گھر منگھوپیر جانے کے لیے نکلا تھا تاہم وہ تاحال واپس نہیں پہنچا۔

رشتے داروں کے مطابق انہیں شک ہے کہ بچہ ممکنہ طور پر راستہ بھٹک گیا ہے، اسی لیے ابتدائی طور پر اپنی مدد آپ کے تحت تلاش جاری ہے اور فی الحال پولیس میں باقاعدہ گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی۔

ایس ایس پی کورنگی کا کہنا ہے کہ لڑکے کی گمشدگی کی رپورٹ ابھی درج نہیں کی گئی، تاہم پولیس اہلکار اہل خانہ کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں اور ہر ممکن تعاون کیا جا رہا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچے کی تلاش کے لیے قریبی علاقوں میں معلومات جمع کی جا رہی ہیں اور جلد بازیابی کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب گودار سے منتخب ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمان کے بیٹے کی کراچی میں گمشدگی پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے نوٹس لے کر رکن اسمبلی سے رابطہ کیا اور تفصیل پوچھ کر اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

اس کے بعد سرفراز بگٹی نے   وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے رابطہ کیا اور مولانا ہدایت الرحمان کے بیٹے کی گمشدگی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بازیابی کیلئے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہدایت الرحمان

پڑھیں:

بنگلہ دیش: جبری گمشدگی کے جرائم پر سخت سزائیں دینے کا فیصلہ، آرڈیننس منظور

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی مشاورتی کونسل نے 2025 کے لیے ’جبری گمشدگی کی روک تھام، علاج اور تحفظ‘ کے مسودے کی حتمی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت اغوا یا جبری گمشدگی کے مرتکب افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا موت ہوگی۔

چیف ایڈوائزر پروفیسر یونس کے پریس سیکریٹری شفیق العالم نے جمعرات کو فارن سروس اکیڈمی ڈھاکہ میں مشاورتی کونسل کے اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا۔ اجلاس کی صدارت چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کی۔

مزید پڑھیں: پولیس اصلاحات: آئرلینڈ کی بنگلہ دیش کو معاونت فراہم کرنے کی پیشکش

پریس سیکریٹری کے مطابق یہ آرڈیننس متاثرین کے لیے انصاف یقینی بنانے اور جبری گمشدگی کے خلاف سخت قانونی فریم ورک قائم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جس پر طویل عرصے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔

مسودے کو پہلے پالیسی کی منظوری حاصل تھی، تاہم کونسل کے حالیہ اجلاس میں اسے باضابطہ نفاذ کے لیے حتمی شکل دی گئی ہے۔

تجویز کردہ قانون میں جرم کے مرتکب افراد کے لیے موت کی سزا اور معاونین یا سہولت فراہم کرنے والوں کے لیے سخت قید کی سزائیں شامل ہیں۔

یہ اقدام حکومت کے اس حالیہ فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے لیے علیحدہ کمیشن قائم نہ کیا جائے بلکہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے دائرہ کار میں ان معاملات کی تحقیقات شامل کی جائیں۔

سرکاری حکام کے مطابق یہ نیا قانونی فریم ورک عبوری مدت کے دوران قانون کی بالادستی اور جوابدہی کو مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے، جس کے بعد قومی انتخابات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پروفیسر یونس کے روڈ میپ کی حمایت کرتے ہیں، نئے انتخابات کے بعد استحکام آئےگا، بنگلہ دیشی فوج

رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں میں 1900 سے زیادہ جبری گمشدگیوں کی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے ذمہ دار افراد کو سب سے اعلیٰ سطح کے انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آرڈیننس بنگلہ دیش پروفیسر یونس جبری گمشدگی چیف ایڈوائزر مشاورتی کونسل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • آرٹیکل 243 سے جمہوریت پر اثر پڑا تو قابل قبول نہیں،فضل الرحمان
  • قنبر علی خان: ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں تیزی لانے کی ہدایت
  • بلوچستان میں 1 ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ، اجتماعات پر پابندی
  • بنگلہ دیش: جبری گمشدگی کے جرائم پر سخت سزائیں دینے کا فیصلہ، آرڈیننس منظور
  • محبوبہ مفتی کا کشمیری نظربندوں کی حالت زار پر اظہار تشویش
  • محراب پورحادثہ: دادی پوتی جاں بحق، باپ بیٹا زخمی
  •  شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • کراچی گارڈن سے اغوا 2 نوجوانوں کو بلوچستان سے بازیاب کرالیا گیا
  • اسلام آباد: باپ کو فائرنگ کرکے قتل کرنے والا بیٹا ساتھی سمیت گرفتار
  • اسلام آباد: والد کے قتل میں ملوث بیٹا سمیت 2 ملزمان گرفتار