سلامتی کونسل: ایران کے جوہری پروگرام پر سفارتکاری کی اہمیت پر اصرار
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جون 2025ء) اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری مسئلے کا سفارتی حل نکالنے کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مشترکہ جامعہ لائحہ عمل (جے سی پی او اے) اور اس کی مںظوری دینے والی قرارداد کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔
سیاسی امور کے لیے اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل روزمیری ڈی کارلو نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کا اعلان تباہ کن کشیدگی کو روکنے اور ایران کے جوہری مسئلے کا پرامن حل نکالنے کا موقع ہے۔
حالیہ تنازع نے اس مسئلے کے سفارتی حل کی کوششوں کو کمزور کیا ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں نے سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 پر مکمل عملدرآمد کے امکانات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے یہ بات ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے 2015 میں طے پانے والے معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
یہ معاہدہ ایران اور امریکہ، چین، یورپی یونین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور روس کے مابین طے پایا تھا۔
اس کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی سختی سے محدود کرنے، جوہری مواد کی مقدار میں کمی لانے، سینٹری فیوج کے مخصوص حد سے زیادہ استعمال کو روکنے اور جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کو اپنی تنصیبات کی موثر نگرانی کی اجازت دینے کا پابند کیا گیا اور اس کے عوض اس پر اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد ایران نے بھی جوہری سرگرمیوں کو محدود رکھنے کا وعدہ پورا کرنے سے انکار کر دیا۔
اس معاہدے کے تحت ایران پر جوہری سرگرمیوں سے متعلق پابندیاں 18 اکتوبر کو ختم ہو جائیں گی۔ روزمیری ڈی کارلو نے خبردار کیا ہے کہ کونسل کی جانب سے اس مدت میں توسیع نہ کی گئی تو معاہدے کے اہم مقاصد حاصل نہیں ہو پائیں گے۔
سفارت کاری عزمانڈر سیکرٹری جنرل نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ حالیہ مہینوں کے دوران اومان میں ایران اور امریکہ کے مابین جوہری مسئلے پر دوطرفہ بات چیت کے پانچ ادوار کے نتیجے میں معاہدے پر مکمل عملدرآمد بحال نہیں ہو سکا اور اس دوران ایران پر اسرائیل کے حملوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ 'جے سی پی او اے' میں شامل چین، فرانس، جرمنی، ایران، روس اور برطانیہ نے اس مسئلے کا سفارتی حل نکالنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ مارچ میں چین، ایران اور روس نے سیکرٹری جنرل کو قرارداد 2231 کی شرائط اور اس پر عملدرآمد کے مراحل سے آگاہ کیا تھا۔ علاوہ ازیں، چین نے ایران کے جوہری مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرحلہ وار اور دوطرفہ طریقہ کار بھی تجویز کیا۔
انہوں نے کہا کہ سفارت کاری اور تصدیق ہی ایران کے جوہری پروگرام کو یقینی طور پر پُرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہیں۔
یورپی یونین نے اس مسئلے پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی اپیل کو دہراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عسکری کارروائی کے بجائے مذاکراتی معاہدہ ہی ایران کے جوہری مسئلے کے پائیدار حل کا ضامن ہو سکتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے سابق نائب صدر سٹیوروس لیمبرینیڈز نے یونین کی اعلیٰ سطحی نمائندہ کاجا کیلس کی جانب سے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے اس مسئلے کے سفارتی حل کی جانب فوری واپسی کی ضرورت کو واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول یا تیاری سے روکنا یورپی یونین کے لیے سلامتی کی ایک اہم ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی بڑھتی ہوئی جوہری سرگرمیوں اور 'آئی اے ای اے' کو ان کی نگرانی کے لیے رسائی نہ ملنے کے مسئلے نے 'جے سی پی او اے' کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے جبکہ یورپی یونین سفارت کاری کے ذریعے معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے متواتر کوششیں کرتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سفارت کاری جاری رہنی چاہیے اور اس معاملے میں آگے بڑھنے میں 'آئی اے ای اے' کی جانب سے نگرانی اور تصدیق کی کوششوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہونا ضروری ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایران کے جوہری مسئلے سلامتی کونسل یورپی یونین سفارت کاری کی جانب سے سفارتی حل نے کہا کہ اس مسئلے انہوں نے کیا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت سے گروسی کا ایک بار پھر گریز
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی و اسرائیلی حملوں کے تباہ کن کردار کو تسلیم کرنیکے باوجود عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل نے ان حملوں کی مذمت سے ایک بار پھر گریز کیا ہے اسلام ٹائمز۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں کی مذمت کئے بغیر "تہران کے ساتھ سفارتکاری کی جانب واپسی" پر زور دیا ہے۔ فرانس 24 کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں سے "سفارتی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا ہے"، رافائٖل گروسی نے کہا کہ اُس وقت، جون میں، ہم نے طاقت کے ذریعے سفارتکاری کو نظرانداز کیا تھا تاہم اب ہمیں سفارتکاری کی طرف واپس لوٹنا چاہیئے!
واضح رہے کہ رافائل گروسی نے اب تک، ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکہ و غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ حملوں کی مذمت کرنے سے مسلسل گریز کیا ہے جبکہ ایرانی حکام نے بھی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے "جانبدارانہ رپورٹس کی تیاری" کو اُن عوامل میں سے ایک قرار دیا ہے کہ جو ایران کے خلاف امریکہ و اسرائیل کے جارحانہ حملوں کا باعث بنے ہیں۔ فرانس 24 کے ساتھ انٹرویو میں رافائل گروسی نے یہ دعوی بھی کیا کہ میری تمام رپورٹس کا "ایران پر حملے" میں کوئی کردار نہیں اور یہ کہ ان رپورٹس میں "کوئی نئی بات" نہ تھی!