Express News:
2025-06-26@16:48:22 GMT

ٹیسٹنگ گراؤنڈ

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی کہتا تھا‘ وہ دشمن کی طاقت چیک کرنے کے لیے جنگ کے شروع میں چھوٹا لشکر بھجواتا تھاجب کہ دشمن مقابلے میں اپنا مکمل لشکر لے کر آ جاتا تھا‘ لڑائی ہوتی تھی اور اس دوران چنگیز خان کے فوجی حکمت کار بلندی پر بیٹھ کر دشمن کی ٹیکنالوجی‘ فوج کی فارمیشن اور جوانوں کی خوبیوں اور خامیوں کا نقشہ بناتے رہتے تھے‘ وہ یہ نقشہ بعدازاں چنگیز خان کو بھجوا دیتے تھے اور وہ اس نقشے کے مطابق اپنی فوج کی فارمیشن تبدیل کرتا تھا اور دشمن پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا‘ اس حکمت عملی نے چنگیز خان کو دنیا کا عظیم فاتح بنا دیا اور اس نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

یہ آرٹ بعدازاں دنیا نے سیکھ لیا اور پھر کرہ ارض کے تمام کونوں میں یہ تکنیک استعمال ہوتی چلی گئی‘ آپ دنیا کی کسی بڑی جنگ کا مطالعہ کر لیں آپ کو اس کے دو حصے ملیں گے‘ پہلے حصے میں بڑا ملک چھوٹے ملک پر چھوٹا سا حملہ کرے گا اور اس حملے میں وہ اس کی جنگی اور فوجی اہلیت کا اندازہ کرے گا اور پھر اس پربھرپور اور مکمل حملہ کرے گا‘ میں آپ کو یہاں انڈیا اور پاکستان کی مثال دے سکتا ہوں۔

 بھارت نے 2019 میں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی‘ 26 فروری کی رات بھارت کے 12طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور بالاکوٹ کے جنگل میں میزائل داغ کر واپس چلے گئے‘ یہ بھارت کی طرف سے سلامی تھی‘ پاکستان نے اگلے دن 27 فروری 2019 کو اس کا کمال جواب دیا‘ بھارت کے دو طیارے گر گئے‘ اس کا پائلٹ ابھی نندن بھی گرفتار ہو گیا‘ وہ پاکستان کے لیے ٹیسٹر تھا‘ بھارت کو اس سلامی میں اپنی ائیرفورس کی کم زوریوں اور پاک فضائیہ کی قوت کا اندازہ ہو گیا‘ نریندر مودی نے فوری طور پر فرانس سے رافیل طیارے خریدلیے‘ پاکستان کو بھی اپنی خامیوں کا اندازہ ہو گیا۔

 ہم بھی یہ جان گئے دنیا میں اب ’’وار تھیٹر‘‘ تبدیل ہو چکا ہے‘ جنگ اب گراؤنڈ پر نہیں ہو گی فضا میں ہو گی اور جو فضا میں تگڑا ہو گا وہ جیت جائے گا اور جو وہاں کم زوری دکھائے گا اس کی ہار یقینی ہو گی چناں چہ ہم نے بھی پیٹ کاٹ کر چین کی منت ترلہ کر کے اس سے جے ٹین طیارے اور پی 15 میزائل لیے اور بھارت سے ایک قدم آگے ہو گئے‘ میں یہاں ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی خدمات کا اعتراف کروں گا‘ یہ شخص حقیقتاً پاکستان کا محسن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے وقت کا ادراک دے رکھا ہے‘ اس شخص نے پوری ائیرفورس کا پیٹ کاٹ کر اس کے کھانے‘ چائے اور پٹرول بند کر کے ایک ایسا ائیر ڈیفنس سسٹم بنایا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔

 آپ 2019 میں جا کر دیکھیں پاکستان میں ائیرفورس کو کوئی جانتا تک نہیں تھا‘پاک فضائیہ نے 27 فروری کو بھارت کے دو طیارے گرائے اور پورے ملک میں زندہ باد ہو گئی‘ پاک فضائیہ دوسری بار مئی 2025 میں ٹیسٹ ہوئی اور پوری دنیا میں ہیرو بن گئی‘ ہیروشپ کا یہ سہرا سیدھا ائیر مارشل ظہیر احمد بابر کے سر جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اسی شخص کو بخشنا تھا‘ یہ قدرت کا فیصلہ تھا‘ یہ 19 مارچ 2021 کوائیر چیف بنے‘ اس وقت ان کے چیف بننے کے امکانات بہت کم تھے‘ عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل جاوید کے بھائی ائیر فورس میں تھے‘ وہ وزیراعظم کا اے ڈی سی تھا‘ فیصل جاوید اور ان کا بھائی ائیروائس مارشل محمد حسیب پراچہ کو ائیر چیف بنوانا چاہتے تھے۔

 حسیب پراچہ کا تعلق پشاور سے تھا اور یہ فیصل جاوید کو پرانا جانتے تھے‘ ان لوگوں نے عمران خان کو قائل کر لیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ظہیر احمد بابر کی صلاحیتوں سے واقف تھے‘ یہ ان کی فائل خود لے کر وزیراعظم کے پاس گئے اور انھیں بڑی مشکل سے قائل کیا یوں یہ ائیرچیف بنے‘ اس زمانے میں اس تقرری پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے بہت تنقید کی تھی لیکن اللہ کو پاکستان کی عزت عزیز تھی‘ یہ شخص آیا اور اس نے ائیرفورس کے جسم میں نیا خون دوڑا دیا‘ ائیر مارشل ظہیر احمد کی زندگی میں دوسرا واقعہ مارچ 2024 میں ایک سال کی ایکسٹینشن تھی۔

 اس پر بھی بہت شور ہوا تھا لیکن بعدازاں یہ بھی قدرت کا فیصلہ ثابت ہوئی‘ آپ تصور کریں اگر 2024 میں ائیرمارشل ظہیر کی ایکسٹینشن نہ ہوتی تو ہم آج کہاں کھڑے ہوتے؟ دوسرا عرب ملکوں کی زیادہ تر ائیرفورسز پاکستان نے ڈویلپ کیں لیکن آخر میں حالت یہ ہوگئی تھی عرب ملک پاکستان کے ساتھ جوائنٹ ایکسرسائز تک نہیں کرتے تھے‘ یہ ہمیں ’’پرانے لوگ‘‘ کہتے تھے لیکن آج پوری دنیا پاک فضائیہ کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے لائین میں کھڑی ہے‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا خاص کرم اور ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابرکے اخلاص کا نتیجہ ہے۔

میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں‘ بھارت نے ہمیں 2019میں بھی سلامی دی تھی اور 2025 کے حملوں کا مقصد بھی پاکستان کی صلاحیت اور قوت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی یہ بلکہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی‘ آپ دیکھیے گا بھارت آنے والے دنوں میں کہاں کہاں سے کیا کیااسلحہ خریدے گا‘ آپ یہ بھی دیکھیے گا امریکااسے کس کس طرح نوازتا ہے‘ آپ اب اس نظریے سے دنیا کے پچھلے پانچ سالوں کا تجزیہ کیجیے‘تین جنوری 2020 کو ایران کے پاس داران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا۔

 فروری 2022 میں یوکرائن اور روس کی جنگ ہوئی‘ اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا‘2024 میں لبنان اور شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا‘ 31 جولائی 2024 کو حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو تہران میں شہید کر دیا گیااور2024 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے یہ ملک اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا‘ کیوں؟ یہ سب سلامیاں تھیں اور ان کا مقصد دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنا تھا‘ آپ اب اس ریفرنس کے ساتھ مئی میں پاک بھارت اور جون میں اسرائیل ایران جنگ کو دیکھیں‘ یہ دونوں بھی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھے اور ان کا مقصد صرف چین‘ ایران اور پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کا اندازہ کرنا تھا‘ اس کے پیچھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ تھا‘ امریکا کی ہلہ شیری پر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں امریکا کو چینی طیاروں اور میزائلوں کی رینج کا علم بھی ہو گیا اور پاکستان کی جنگی صلاحیت کا بھی اور ہمارے پاس موجود سسٹمز بھی اوپن ہو گئے۔

 اسرائیل پر ایران کا حملہ بھی خالصتاً ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ تھا‘ آپ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ٹویٹس اور بیانات پڑھنا شروع کریں اور پڑھتے پڑھتے دو ماہ پیچھے چلے جائیں‘ آپ کو جنگ کا مقصد اور منصوبہ ساز دونوں کا علم ہو جائے گا‘ اس جنگ کا مقصد ایران کی صلاحیت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا اسرائیل اور امریکا کو12 دنوں میںمعلوم ہو گیا ایران کے پاس میزائلوں کے سوا کچھ نہیں‘ دوسرا یہ ابھی ایٹم بم سے بہت دور ہے۔

 تیسرا روس اور چین ایران کے لیے اسرائیل اور امریکا سے نہیں لڑیں گے‘ چوتھا اسلامی دنیا زخمی بطخ ہے‘ یہ ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر سکتے‘ پانچواں اقوام متحدہ عملاً ختم ہو چکی ہے‘ یہ اسرائیل کا ہاتھ روک سکتی ہے اور نہ امریکا کا اور چھٹا اسرائیل بھی جان گیا میں امریکا کے بغیر کچھ نہیں ہوں اگر امریکا میرا ساتھ نہیں دیتا تو مجھے ایران کھا جائے گا‘ آپ اس ریفرنس کو تھوڑاسا مزید بڑھا لیں تو آپ یوکرائن اور ساؤتھ افریقہ کے صدر کی بے عزتی کی وجہ بھی جان لیں گے اور آپ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار بھی سمجھ آ جائے گی‘آپ جان جائیں گے اس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا چوہدری صرف میں ہوں اور دنیا کو صرف میرا آرڈر ماننا ہوگا۔

آپ یقین کریں یہ جنگیں صرف ٹیسٹ تھیں اور ایران‘ پاکستان‘ غزہ‘ شام اور یوکرائن اس کی ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ امریکا اور اسرائیل نے ان میں صرف عالم اسلام کی صلاحیت اور برداشت کا اندازہ کیا‘یہ سلامیاں تھیں جب کہ جنگ ابھی باقی ہے‘ بھارت کو تیاری کے لیے ڈیڑھ سال چاہیے‘ یہ 2027میں پاکستان پر بڑا اور مکمل حملہ کرے گا اور اس وقت اسے اسرائیل اور امریکا کی مدد بھی حاصل ہو گی‘ پیسہ اور لوگ بھارت کے استعمال ہوں گے‘ ٹیکنالوجی اسرائیل کی ہو گی اور فضائی‘ بری اور بحری نگرانی امریکا کرے گا‘ ایران کی باری بھی ہمارے ساتھ ہی آ ئے گی تاہم یہ فیصلہ باقی ہے ایران پہلے قربان ہو گا یا پاکستان‘ چین اور روس کی اقتصادی نس بندی میں بھی چند ماہ میں اضافہ ہو جائے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت میں چین میں موجود ساری انڈسٹری واپس امریکا لے آئے گا تاکہ امریکا ہر قسم کی پیداواری اور صنعتی مجبوریوں سے آزاد ہو جائے‘ آپ کو آنے والے دنوں میں عرب ملکوں میں بھی انسانی حقوق اور جمہوری تحریکیں چلتی نظر آئیں گی۔

 ان کا مقصد عرب ملکوں میں جمہوریت کی پرورش نہیں ہو گا‘ اس کا مقصد شاہی خاندانوں سے مزید رقم اینٹھنا ہو گا‘ جمہویت کی آواز اٹھتی رہے گی اور شاہی خاندان اپنے خزانے لٹاتے رہیں گے اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک شاہی خزانوں میں خزانہ باقی رہے گا جس دن یہ خالی ہو جائے گا اس دن شاہی بھی ختم ہو جائے گی اور آپ اپنی کھلی آنکھوں سے عربوں سے حجاب غائب ہوتے دیکھیں گے۔

 اللہ کرم کرے دنیا ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے‘ یہ اب زیادہ دور نہیں رہی‘ ہم تاریخ کی خوش نصیب ترین نسل تھے‘ ہم بڑی جنگوںاور خوف ناک وباؤں سے بچے رہے‘ ہمارا کورونا بھی کچھ نہ بگاڑ سکا تھا لیکن اب ہم اس کرہ ارض کی آخری نسل بھی بنتے جا رہے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں‘ زندگی جتنی بچی ہے اسے اچھے طریقے سے گزار لیں اور ذہنی طور پر بڑی اور خوف ناک جنگ کی تیاری کر لیں‘ یہ جنگیں اس بڑی جنگ کی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ جنگ ابھی باقی ہے اور یہ بس آئی ہی چاہتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا اندازہ کرنا تھا مارشل ظہیر احمد پاکستان کی ڈونلڈ ٹرمپ پاک فضائیہ کی صلاحیت چنگیز خان ائیر چیف بھارت کے عرب ملک نہیں ہو جائے گا کا مقصد اور پاک ہو جائے حملہ کر کے ساتھ بڑی جنگ کے لیے اور اس کرے گا گا اور کر دیا گی اور اور ان ہو گیا کی جنگ

پڑھیں:

’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

میں: آج کے عنوان سے مجھے ماضی کے کئی ایسے واقعات یاد آرہے ہیں، جب ہم بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر ہم کبھی اپنے بیرونی آقائوں کی جھوٹی یقین دہانیوں اور چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کبھی اپنی بزدلی کو مصلحت کا نام دے کر چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
وہ: ایسا پہلی بار تو شاید سن ۴۸ء میں ہوا جب کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کے قبائلی علاقوں سے مجاہدین کشمیر میں داخل ہوکر مسلسل آگے بڑھتے گئے مگر بھارت اقوام متحدہ چلا گیا اور اس نے پاکستان کو خبردار کیا کہ بس رک جائیں اب ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور اس کی جانب سے رائے شماری کا لولی پاپ دیے جانے پر ہم پیچھے ہٹ گئے اور جتنا کشمیر حاصل کرسکے وہ آج آزاد کشمیر کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔
میں: خیر اس وقت ہم بھارت کے ساتھ کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ نو آزاد پاکستان کو نہ جنگی وسائل میسر تھے اور نہ ہی خاطر خواہ فوجی قوت۔ شاید دور اندیشی کا تقاضا یہی تھا کہ معاملے کو افہام وتفہیم سے حل کرلیا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے برسوں گزرنے جانے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکی۔ اور اقوام متحدہ کی طفل تسلیوں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہمیشہ کے لیے فائلوں، عرضیوں اور یادداشتوں کی نذر کردیا۔
وہ: اسی طرح سن ۶۲ء میں چین انڈیا جنگ کے موقع پر چین کے اشارہ دیے جانے کے باوجود پاکستان امریکا کے فریب میں آگیا جب اس نے کہا ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ امریکا بیچ میں پڑ کے اس مسئلے کو حل کرے گا اور یوں کشمیر حاصل کرنے کا سنہری موقع ہم نے اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔ پھر چین انڈیا جنگ کے خاتمے کے بعد کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو نام نہاد مذاکرات ہوئے وہ چائے بسکٹ کی پارٹیوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ تب پاکستان کو اپنی کم عقلی کا احساس ہوا تو جذبات اور غصے میں آکر انڈیا کے خلاف آپریشن جبرالٹر کا آغاز کردیا جو ۶۵ء کی جنگ کا باعث بنا۔ ۷۱ء میں آدھا پاکستان گنوایا، ۹۰ ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بے غیرتی کا طوق گلے میں لٹکا کر ’’ شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ کا نعرہ لگایا۔
پھر روس کی افغانستان پر یلغار کے وقت ۸۰ء میں امریکی صدر ریگن نے جنرل ضیا سے کہا کہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ مگر جیسا ہم کہیں گے ویسا آپ ضرور کریں گے اور ہم نے خاموشی سے سرتسلیم خم کردیا۔ اور پھر نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے کورنش بجالانے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر ۹۹ء میں کارگل جنگ چھیڑ کر کشمیر حاصل کرنے کا ایک اور موقع ایک بار پھر کھودیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سر جھکا کر امریکی صدر کلنٹن کے روبرو پیش ہوئے اور ہم نے ایک بار پھر ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ کا حکم سن کر سیکڑوں جانیں گنوائیں اور خاموشی کے ساتھ کارگل سے واپسی کی راہ لی۔
میں: میرے خیال سے کارگل سے پسپائی اس لیے بھی ضروری تھی کہ اس وقت دونوں پڑوسی ملک ایٹمی طاقت بن چکے تھے لہٰذا خطے کے لیے ایسی کوئی بھی جنگ شدید خطرناک ہوسکتی تھی۔
وہ: پاکستان بھارت کی دیرینہ چپقلش اور دشمنی کی وجہ سے یہ خطرہ تو اس خطے پر ہمیشہ منڈلاتا رہے گا، لہٰذا مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور فوری حل از حد ضروری ہے۔ ورنہ ایک ملک اس مسئلے کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنائے رکھے گا اور دوسرا محض زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر سفارتی سطح پر چند بیانات دینے کے علاوہ کبھی کوئی پیش قدمی نہیں کرے گا۔ تمہیں یاد ہوگا ۲۰۱۹ء میں جب ہمیں ایک بار پھر کشمیرکے مسئلے پر آواز بلند کرنے اور آگے بڑھ کرکچھ کرنے کا موقع ملا تھا، جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت کا مستقل حصہ قرار دے دیا۔ اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں Kashmir Hour منانے کا فیصلہ کیا جس میں ہر پاکستانی اپنے گھر اور دفتر سے باہر آکر آدھے گھنٹہ احتجاج کرے گا۔ پر مشکل یہ تھی کہ ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے کیوں کہ بھارت کے اس اقدام سے ایک ماہ پہلے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ امریکا میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے گئے تھے جس میں ٹرمپ نے انہیں کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اس ممکنہ اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے جواب میں کچھ نہ کرنے کی ضمانت مانگی تھی اور کہا تھا کہ بھارت یہ ارادہ رکھتا ہے مگراس کے ردعمل میں آپ کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کریں گے یعنی ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘۔ اور ایک طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق بالکل ایسا ہی ہوا۔
میں: تم آخر کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
وہ: ابھی گزشتہ ہفتے موجودہ آرمی چیف، وائٹ ہائوس میں مدعو تھے۔ جو بلاشبہ پاکستان کی انڈیا کے خلاف حالیہ جنگی سبقت کے تناظر میں ایک اور بڑی سفارتی کامیابی ہے اور ٹرمپ کے بیان نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقینا اس نے پاکستان کے قدمیں اضافہ کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن اس ملاقات نے ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور ایک ایٹمی طاقت بھی، اور امریکا یہ بالکل نہیں چاہے گا کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف ایران کی جنگی حوالے سے کوئی مدد کرے۔ یہ ظہرانہ شاید پاکستان کو یہی باور کرانے کے لیے تھا کہ اسرائیل کے خلاف آپ ایران کی حمایت فقط سفارتی سطح تک محدود رکھیں گے اس سے زیادہ ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘ اور ہم شاید برسوں سے اپنی اس روش پر اسی طرح قائم ہیں یعنی ہمارا جواب جی بہت بہتر کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور پھر اتنی عزت افزائی اور پذیرائی کے بعد کیا ہم امریکا کے لیے اتنا بھی نہیں کریں گے۔
میں: لیکن یہ سب تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟
وہ: نہیں میں تو ماضی کے تجربات کی بنیاد پر صرف یہ خیال ظاہر کررہا ہوں، کیوں کہ ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی فضائیہ کی جنگی صلاحیت دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے لیے جنگی برتری صرف اور صرف میزائل ٹیکنالوجی اور فضائی مہارتوں پر منحصر ہے۔ لیکن ایک خیال پھر بھی ذہن میں باربار پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہم امریکا کے سامنے اتنی زبان کھولنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتے کہ اگر آپ فلسطین اور ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلم کھلا سیاسی حمایت اور بے دریغ عسکری مدد کرسکتے ہیں تو پھر پاکستان اپنے مسلم برادر ملک ایران کے ساتھ صف آرا کیوں نہیں ہوسکتا۔ بقول شاعر
آپ کچھ بھی نہیں کریں گے جناب
بس وہی جو بھی ہم کہیں گے جناب
آپ ایسے ہی جی حضور رہیں
ساتھ ہم بھی یونہی رہیں گے جناب

 

متعلقہ مضامین

  • ایئر انڈیا حادثہ؛ پاکستان اور بھارت کیلیے برطانیہ، یورپ، امریکا کا دہرا معیار
  • مودی حکومت نے بھارت کو خواتین کیلیے دنیا کا غیر محفوظ ترین ملک بنا دیا
  • پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ
  • پاک بھارت جنگ بندی وقتی، یہ محاذ کسی وقت بھی دوبارہ کھل سکتا ہے، خرم دستگیر خان
  • ایران نے اسرائیل و امریکہ کا غرور خاک میں ملا دیا
  • اور ایران جیت گیا
  • جس طرح جنگ بند ہوئی یہ لوگوں کو سمجھ نہیں آیا
  • ٹرمپ دنیا کا چودھری بنا ہوا، امریکا قابلِ بھروسہ نہیں، عبدالغفور حیدری
  • ’’آپ کچھ نہیں کریں گے! اوکے‘‘