چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی کہتا تھا‘ وہ دشمن کی طاقت چیک کرنے کے لیے جنگ کے شروع میں چھوٹا لشکر بھجواتا تھاجب کہ دشمن مقابلے میں اپنا مکمل لشکر لے کر آ جاتا تھا‘ لڑائی ہوتی تھی اور اس دوران چنگیز خان کے فوجی حکمت کار بلندی پر بیٹھ کر دشمن کی ٹیکنالوجی‘ فوج کی فارمیشن اور جوانوں کی خوبیوں اور خامیوں کا نقشہ بناتے رہتے تھے‘ وہ یہ نقشہ بعدازاں چنگیز خان کو بھجوا دیتے تھے اور وہ اس نقشے کے مطابق اپنی فوج کی فارمیشن تبدیل کرتا تھا اور دشمن پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا‘ اس حکمت عملی نے چنگیز خان کو دنیا کا عظیم فاتح بنا دیا اور اس نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
یہ آرٹ بعدازاں دنیا نے سیکھ لیا اور پھر کرہ ارض کے تمام کونوں میں یہ تکنیک استعمال ہوتی چلی گئی‘ آپ دنیا کی کسی بڑی جنگ کا مطالعہ کر لیں آپ کو اس کے دو حصے ملیں گے‘ پہلے حصے میں بڑا ملک چھوٹے ملک پر چھوٹا سا حملہ کرے گا اور اس حملے میں وہ اس کی جنگی اور فوجی اہلیت کا اندازہ کرے گا اور پھر اس پربھرپور اور مکمل حملہ کرے گا‘ میں آپ کو یہاں انڈیا اور پاکستان کی مثال دے سکتا ہوں۔
بھارت نے 2019 میں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی‘ 26 فروری کی رات بھارت کے 12طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے اور بالاکوٹ کے جنگل میں میزائل داغ کر واپس چلے گئے‘ یہ بھارت کی طرف سے سلامی تھی‘ پاکستان نے اگلے دن 27 فروری 2019 کو اس کا کمال جواب دیا‘ بھارت کے دو طیارے گر گئے‘ اس کا پائلٹ ابھی نندن بھی گرفتار ہو گیا‘ وہ پاکستان کے لیے ٹیسٹر تھا‘ بھارت کو اس سلامی میں اپنی ائیرفورس کی کم زوریوں اور پاک فضائیہ کی قوت کا اندازہ ہو گیا‘ نریندر مودی نے فوری طور پر فرانس سے رافیل طیارے خریدلیے‘ پاکستان کو بھی اپنی خامیوں کا اندازہ ہو گیا۔
ہم بھی یہ جان گئے دنیا میں اب ’’وار تھیٹر‘‘ تبدیل ہو چکا ہے‘ جنگ اب گراؤنڈ پر نہیں ہو گی فضا میں ہو گی اور جو فضا میں تگڑا ہو گا وہ جیت جائے گا اور جو وہاں کم زوری دکھائے گا اس کی ہار یقینی ہو گی چناں چہ ہم نے بھی پیٹ کاٹ کر چین کی منت ترلہ کر کے اس سے جے ٹین طیارے اور پی 15 میزائل لیے اور بھارت سے ایک قدم آگے ہو گئے‘ میں یہاں ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی خدمات کا اعتراف کروں گا‘ یہ شخص حقیقتاً پاکستان کا محسن ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اسے وقت کا ادراک دے رکھا ہے‘ اس شخص نے پوری ائیرفورس کا پیٹ کاٹ کر اس کے کھانے‘ چائے اور پٹرول بند کر کے ایک ایسا ائیر ڈیفنس سسٹم بنایا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔
آپ 2019 میں جا کر دیکھیں پاکستان میں ائیرفورس کو کوئی جانتا تک نہیں تھا‘پاک فضائیہ نے 27 فروری کو بھارت کے دو طیارے گرائے اور پورے ملک میں زندہ باد ہو گئی‘ پاک فضائیہ دوسری بار مئی 2025 میں ٹیسٹ ہوئی اور پوری دنیا میں ہیرو بن گئی‘ ہیروشپ کا یہ سہرا سیدھا ائیر مارشل ظہیر احمد بابر کے سر جاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز اسی شخص کو بخشنا تھا‘ یہ قدرت کا فیصلہ تھا‘ یہ 19 مارچ 2021 کوائیر چیف بنے‘ اس وقت ان کے چیف بننے کے امکانات بہت کم تھے‘ عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل جاوید کے بھائی ائیر فورس میں تھے‘ وہ وزیراعظم کا اے ڈی سی تھا‘ فیصل جاوید اور ان کا بھائی ائیروائس مارشل محمد حسیب پراچہ کو ائیر چیف بنوانا چاہتے تھے۔
حسیب پراچہ کا تعلق پشاور سے تھا اور یہ فیصل جاوید کو پرانا جانتے تھے‘ ان لوگوں نے عمران خان کو قائل کر لیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ظہیر احمد بابر کی صلاحیتوں سے واقف تھے‘ یہ ان کی فائل خود لے کر وزیراعظم کے پاس گئے اور انھیں بڑی مشکل سے قائل کیا یوں یہ ائیرچیف بنے‘ اس زمانے میں اس تقرری پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے بہت تنقید کی تھی لیکن اللہ کو پاکستان کی عزت عزیز تھی‘ یہ شخص آیا اور اس نے ائیرفورس کے جسم میں نیا خون دوڑا دیا‘ ائیر مارشل ظہیر احمد کی زندگی میں دوسرا واقعہ مارچ 2024 میں ایک سال کی ایکسٹینشن تھی۔
اس پر بھی بہت شور ہوا تھا لیکن بعدازاں یہ بھی قدرت کا فیصلہ ثابت ہوئی‘ آپ تصور کریں اگر 2024 میں ائیرمارشل ظہیر کی ایکسٹینشن نہ ہوتی تو ہم آج کہاں کھڑے ہوتے؟ دوسرا عرب ملکوں کی زیادہ تر ائیرفورسز پاکستان نے ڈویلپ کیں لیکن آخر میں حالت یہ ہوگئی تھی عرب ملک پاکستان کے ساتھ جوائنٹ ایکسرسائز تک نہیں کرتے تھے‘ یہ ہمیں ’’پرانے لوگ‘‘ کہتے تھے لیکن آج پوری دنیا پاک فضائیہ کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے لائین میں کھڑی ہے‘ یہ صرف اور صرف اللہ کا خاص کرم اور ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابرکے اخلاص کا نتیجہ ہے۔
میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں‘ بھارت نے ہمیں 2019میں بھی سلامی دی تھی اور 2025 کے حملوں کا مقصد بھی پاکستان کی صلاحیت اور قوت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی یہ بلکہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی‘ آپ دیکھیے گا بھارت آنے والے دنوں میں کہاں کہاں سے کیا کیااسلحہ خریدے گا‘ آپ یہ بھی دیکھیے گا امریکااسے کس کس طرح نوازتا ہے‘ آپ اب اس نظریے سے دنیا کے پچھلے پانچ سالوں کا تجزیہ کیجیے‘تین جنوری 2020 کو ایران کے پاس داران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کر دیا گیا۔
فروری 2022 میں یوکرائن اور روس کی جنگ ہوئی‘ اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا‘2024 میں لبنان اور شام میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا‘ 31 جولائی 2024 کو حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ کو تہران میں شہید کر دیا گیااور2024 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے یہ ملک اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا‘ کیوں؟ یہ سب سلامیاں تھیں اور ان کا مقصد دشمن کی طاقت کا اندازہ کرنا تھا‘ آپ اب اس ریفرنس کے ساتھ مئی میں پاک بھارت اور جون میں اسرائیل ایران جنگ کو دیکھیں‘ یہ دونوں بھی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھے اور ان کا مقصد صرف چین‘ ایران اور پاکستان کی جنگی صلاحیتوں کا اندازہ کرنا تھا‘ اس کے پیچھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دماغ تھا‘ امریکا کی ہلہ شیری پر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں امریکا کو چینی طیاروں اور میزائلوں کی رینج کا علم بھی ہو گیا اور پاکستان کی جنگی صلاحیت کا بھی اور ہمارے پاس موجود سسٹمز بھی اوپن ہو گئے۔
اسرائیل پر ایران کا حملہ بھی خالصتاً ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ تھا‘ آپ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ٹویٹس اور بیانات پڑھنا شروع کریں اور پڑھتے پڑھتے دو ماہ پیچھے چلے جائیں‘ آپ کو جنگ کا مقصد اور منصوبہ ساز دونوں کا علم ہو جائے گا‘ اس جنگ کا مقصد ایران کی صلاحیت کا اندازہ کرنا تھا لہٰذا اسرائیل اور امریکا کو12 دنوں میںمعلوم ہو گیا ایران کے پاس میزائلوں کے سوا کچھ نہیں‘ دوسرا یہ ابھی ایٹم بم سے بہت دور ہے۔
تیسرا روس اور چین ایران کے لیے اسرائیل اور امریکا سے نہیں لڑیں گے‘ چوتھا اسلامی دنیا زخمی بطخ ہے‘ یہ ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کر سکتے‘ پانچواں اقوام متحدہ عملاً ختم ہو چکی ہے‘ یہ اسرائیل کا ہاتھ روک سکتی ہے اور نہ امریکا کا اور چھٹا اسرائیل بھی جان گیا میں امریکا کے بغیر کچھ نہیں ہوں اگر امریکا میرا ساتھ نہیں دیتا تو مجھے ایران کھا جائے گا‘ آپ اس ریفرنس کو تھوڑاسا مزید بڑھا لیں تو آپ یوکرائن اور ساؤتھ افریقہ کے صدر کی بے عزتی کی وجہ بھی جان لیں گے اور آپ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف وار بھی سمجھ آ جائے گی‘آپ جان جائیں گے اس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا چوہدری صرف میں ہوں اور دنیا کو صرف میرا آرڈر ماننا ہوگا۔
آپ یقین کریں یہ جنگیں صرف ٹیسٹ تھیں اور ایران‘ پاکستان‘ غزہ‘ شام اور یوکرائن اس کی ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ امریکا اور اسرائیل نے ان میں صرف عالم اسلام کی صلاحیت اور برداشت کا اندازہ کیا‘یہ سلامیاں تھیں جب کہ جنگ ابھی باقی ہے‘ بھارت کو تیاری کے لیے ڈیڑھ سال چاہیے‘ یہ 2027میں پاکستان پر بڑا اور مکمل حملہ کرے گا اور اس وقت اسے اسرائیل اور امریکا کی مدد بھی حاصل ہو گی‘ پیسہ اور لوگ بھارت کے استعمال ہوں گے‘ ٹیکنالوجی اسرائیل کی ہو گی اور فضائی‘ بری اور بحری نگرانی امریکا کرے گا‘ ایران کی باری بھی ہمارے ساتھ ہی آ ئے گی تاہم یہ فیصلہ باقی ہے ایران پہلے قربان ہو گا یا پاکستان‘ چین اور روس کی اقتصادی نس بندی میں بھی چند ماہ میں اضافہ ہو جائے گا‘ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مدت صدارت میں چین میں موجود ساری انڈسٹری واپس امریکا لے آئے گا تاکہ امریکا ہر قسم کی پیداواری اور صنعتی مجبوریوں سے آزاد ہو جائے‘ آپ کو آنے والے دنوں میں عرب ملکوں میں بھی انسانی حقوق اور جمہوری تحریکیں چلتی نظر آئیں گی۔
ان کا مقصد عرب ملکوں میں جمہوریت کی پرورش نہیں ہو گا‘ اس کا مقصد شاہی خاندانوں سے مزید رقم اینٹھنا ہو گا‘ جمہویت کی آواز اٹھتی رہے گی اور شاہی خاندان اپنے خزانے لٹاتے رہیں گے اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک شاہی خزانوں میں خزانہ باقی رہے گا جس دن یہ خالی ہو جائے گا اس دن شاہی بھی ختم ہو جائے گی اور آپ اپنی کھلی آنکھوں سے عربوں سے حجاب غائب ہوتے دیکھیں گے۔
اللہ کرم کرے دنیا ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے‘ یہ اب زیادہ دور نہیں رہی‘ ہم تاریخ کی خوش نصیب ترین نسل تھے‘ ہم بڑی جنگوںاور خوف ناک وباؤں سے بچے رہے‘ ہمارا کورونا بھی کچھ نہ بگاڑ سکا تھا لیکن اب ہم اس کرہ ارض کی آخری نسل بھی بنتے جا رہے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں‘ زندگی جتنی بچی ہے اسے اچھے طریقے سے گزار لیں اور ذہنی طور پر بڑی اور خوف ناک جنگ کی تیاری کر لیں‘ یہ جنگیں اس بڑی جنگ کی صرف ٹیسٹنگ گراؤنڈز تھیں‘ جنگ ابھی باقی ہے اور یہ بس آئی ہی چاہتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا اندازہ کرنا تھا مارشل ظہیر احمد پاکستان کی ڈونلڈ ٹرمپ پاک فضائیہ کی صلاحیت چنگیز خان ائیر چیف بھارت کے عرب ملک نہیں ہو جائے گا کا مقصد اور پاک ہو جائے حملہ کر کے ساتھ بڑی جنگ کے لیے اور اس کرے گا گا اور کر دیا گی اور اور ان ہو گیا کی جنگ
پڑھیں:
دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
وہ جو کائنات کا رنگ، دھرتی کی ہریالی، سمندرکی وسعت اور آسمان کی نیلاہٹ دیکھ کر خاموشی سے سوچتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے اورکہاں جا رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امن فقط ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ انسان کی بقا کی شرطِ اول ہے۔
یہ زمین جو ہماری ماں ہے، لاکھوں کروڑوں برس پہلے وجود میں آئی اور ہم ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ کون سے عوامل تھے جنھوں نے ماضی کی عظیم تہذیبوں کو مٹی میں ملا دیا اور وہ جانور جو کبھی اس دھرتی کے بادشاہ تھے، کیوں نابود ہو گئے۔
ہم صرف موجودہ لمحے میں زندہ ہیں اور اکثر تاریخ کو نظرانداز کرتے ہوئے خود کو ناقابلِ شکست سمجھ بیٹھتے ہیں۔ کچھ دن پہلے بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے سامنے ایٹمی طاقت کے بدمست گھوڑوں پر سوار تھے، ایک چنگاری، ایک غلطی اور ایک ایسا طوفان اٹھتا جو نسلِ انسانی کو برباد کر سکتا تھا۔
آج پھر روس اور یوکرین کی سرحدوں پر موت رقص کر رہی ہے۔دنیا کے طاقتور حکمران اپنے محلات سے جھانکتے ہوئے جنگ کے شعلوں کو تماشا سمجھتے ہیں، جیسے شطرنج کی بساط پر بس مہرے بدلنے کا کھیل ہو لیکن اُن مہروں میں بسنے والے انسان ہیں، بچے، مائیں، مزدور، طالبعلم اور بزرگ جن کے لیے ہر جنگ ایک قیامت ہوتی ہے۔
کبھی روم کی سلطنت تھی، کبھی مغلوں کا جاہ وجلال، کبھی نازیوں کا غرور، کبھی سامراجی قوتوں کا ظلم، آج اُن کے نقش بھی مٹ چکے ہیں، وقت کا صحیفہ اُن کے اقتدار کے دنوں کو محض عبرت کی کہانیوں میں بدل چکا ہے۔ تاریخ یہ سبق بار بار دیتی ہے کہ جو لوگ پوری دنیا کو زیرِنگیں کرنا چاہتے ہیں، انھیں آخرکار خاک ہونا پڑتا ہے، مگر افسوس کہ یہ سبق آج کے حکمران پڑھنے کے لیے تیار نہیں۔
ہماری اس دنیا کو آج جتنے خطرات لاحق ہیں، اُن میں سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ ہم نے امن کوکمزوری اور جنگ کو طاقت کا نشان سمجھ لیا ہے۔ ہم نے ہتھیاروں کی دوڑکو ترقی اور امن کی بات کو بزدلی کا طعنہ بنا دیا ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک ہتھیار بیچ کر معیشت سنوار رہے ہیں اور کمزور ملک اُن ہتھیاروں کے بوجھ تلے دب کر بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
ایسے میں اگر کوئی امن کی بات کرتا ہے تو اُسے خام خیالی یوٹوپیا یا نادان کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ انسان کی اصل ضرورت روٹی، پانی، مکان، دوا، تعلیم اور عزت ہے۔ امن ان سب کا دروازہ ہے، جنگ ہر دروازہ بند کردیتی ہے۔
ہم کب سمجھیں گے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ہم کب سیکھیں گے کہ بندوق سے کبھی سکون نہیں آیا۔ ہم کب سوچیں گے کہ نفرت کی زمین پر کبھی محبت کے پھول نہیں کھلتے۔آج اگر دنیا کے حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اگر انھوں نے اپنے اقتدار کی ہوس کو انسانیت پر غالب رکھا تو ایک چھوٹی سی غلطی پوری دنیا کو برباد کرسکتی ہے اور اس سانحے کے بعد پھرکوئی باقی نہ رہے گا، یہ کہنے کو کہ ہم نے خبردار کیا تھا۔
ہم جو آج یہاں بیٹھے لکھ رہے ہیں، بول رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہے کہ کوئی جنگ ابھی ہمارے دروازے تک نہیں پہنچی لیکن اگر ہم نے امن کے دیپ نہ جلائے، اگر ہم نے جنگ کے خلاف آواز بلند نہ کی تو وہ دن بھی دور نہیں جب ہم صرف ماضی کی یادوں میں زندہ رہیں گے اور ہمارے بچے صرف یہی پوچھتے رہ جائینگے کہ وہ دنیا کہاں گئی جو کبھی خوبصورت تھی، جو کبھی ہنستی تھی جو کبھی رنگوں سے بھری تھی۔
خدارا، ان انسانوں کو سکون سے جینے دو، جن کی زندگی پہلے ہی غموں سے بھری ہے۔ ایک غریب آدمی کے پاس پہلے ہی روٹی کا مسئلہ، دوا کی کمی اور تعلیم کا فقدان ہے اور اگر اس پر جنگ بھی مسلط کر دی جائے تو اُس کو سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔
امن انسان کا بنیادی حق ہے، یہ کسی طاقتور کی خیرات نہیں، یہ زمین صرف بادشاہوں کی اور حکمرانوں کی جاگیر نہیں، یہ مزدور کی بھی ہے، کسان کی بھی ہے، شاعرکی بھی ہے اور ایک عام انسان کی بھی۔ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا جہاں چھوڑنا ہے، جس میں وہ خواب دیکھ سکیں نہ کہ پناہ گاہیں تلاش کرتے پھریں۔
جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف جسموں کو ہی نہیں ذہنوں اور روحوں کو بھی زخم دیتی ہے۔ جو بچ جاتے ہیں وہ بھی اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ دنیا کے وہ علاقے جہاں دہائیوں سے جنگ جاری ہے، اُن کے بچوں کی آنکھوں میں بچپن نہیں خوف ہوتا ہے جسے اسکول میں ہونا چاہیے وہ پناہ گاہ میں ہوتا ہے، جسے استاد کے سوالوں کے جواب دینے چاہیے وہ گولے اور بم گنتا ہے۔
امن کوئی مہنگا سودا نہیں، جنگ ہے جو مہنگی پڑتی ہے، تباہی لاتی ہے، پچھتاوے چھوڑتی ہے، امن وہ شجر ہے جس کی جڑیں انصاف میں ہیں، اگر ہم واقعی امن چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اس نظامِ پر سوال اٹھانا ہوگا جو چند ملکوں کی طاقت اور ہزاروں انسانوں کی کمزوری پر قائم ہے۔
یہ جو سرمایہ داری کا نظام ہے جس نے دنیا کو منڈیوں میں بانٹ رکھا ہے وہی تو ہے جو جنگ کو ہوا دیتا ہے۔ اسلحہ بیچنے والے تیل پر قبضہ کرنیوالے سستی مزدوری کے لیے ملکوں کو عدم استحکام میں رکھنے والے یہی اصل دشمن ہیں، ان کے خلاف اگر ہم آواز نہیں اٹھاتے تو امن کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا۔شاعر، ادیب، دانشور، استاد، طالب علم سب کو مل کر اس شورش زدہ دنیا میں امن کا علم اٹھانا ہوگا۔ ہمیں وہ دیے جلانے ہوں گے جو نفرتوں کی آندھیوں میں بھی بجھنے نہ پائیں۔
ہمیں وہ حرف لکھنے ہوں گے جو بارود کی مہک کو شکست دے سکیں۔آج اگر کوئی یہ کہے کہ ہم بار بار امن کی بات کیوں کرتے ہیں تو اسے بتانا ہوگا کہ ہم اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ابھی تک انسان نے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر سیکھ لیا ہوتا تو آج بھی فلسطین خون میں نہ نہا رہا ہوتا، یمن میں بچے بھوک سے نہ مر رہے ہوتے، افریقہ میں زمینیں ہتھیائی نہ جا رہی ہوتیں اور برما ،کشمیر، یوکرین، سوڈان، غزہ میں انسانی لاشوں کا بوجھ زمین کو نہ اٹھانا پڑتا۔
یہ دنیا ہمیں اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے سنوارنی ہے، ہم تو آج ہیں، کل نہیں ہوں گے مگر ہمارے بچے جو آنے والا کل ہیں، ان کے لیے اس دنیا کو سنوارنا اور سنبھالنا ہوگا۔توآئیے، جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں آواز بلند کریں، اس لیے نہیں کہ یہ مقبول بات ہے بلکہ اس لیے کہ یہ سچ ہے اور سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔