اسلام آباد:

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے خزانہ ڈویژن کے بجٹ پر کٹوتی کی 60 تحاریک پیش کردیں۔

اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وزارتوں اور ڈویژنز کے مالیاتی بجٹ کی منظوری  اور کٹوتی کی تحاریک کا عمل شروع ہوا۔ اجلاس میں خزانہ ڈویژن کے 14 مطالبات زر منظوری کیے لیے پیش کیے گئے جب کہ اپوزیشن نے خزانہ ڈویژن کے بجٹ پر کٹوتی کی 60تحاریک پیش کیں۔

دورانِ اجلاس اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ کٹوتی کی تحریکوں کا مقصد یہ ہے کہ ہم پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی زیادہ کر دی ہے، یہ عوام کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں۔ ساڑھے 500 ارب کی اسمگلنگ ہوتی ہے، جسے روکنے کے لیے ان کی کیا کوششیں ہیں؟ بالکل صفر۔  

انہوں نے کہا کہ کرپٹ ادارے کو مزید اختیارات دے رہے ہیں، اس کو گرفتاری کے اختیارات دے رہے ہیں۔ انرجی سیکٹر بیٹھ چکا ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 44 فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے ہے اور یہاں پر یہ لوگ عیاشیاں کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور صدر ہاؤس کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، بتایا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔

رکن اسمبلی عالیہ کامران نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس چوری کس نے روکنی ہے؟۔ ایف بی آر کے اپنے سسٹم میں اتنی کمزوریاں ہیں۔ ایف بی آر میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی مدد سے ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔

کٹوتی کی تحاریک پر بحث کے دوران پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ افغان سرحد پر سکیورٹی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی صورتحال جوں کی توں ہے۔ کے پی میں پاک افغان سرحد پر دوطرفہ تجارت تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ ضم شدہ فاٹا اضلاع پر جی ایس ٹی کا نفاذ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پی ٹی آئی سابقہ فاٹا میں ٹیکسز نفاذ کے خلاف نہیں ہے، لیکن حکومت سہولتیں بھی دے۔ اور سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے تک ٹیکسز مؤخر کرے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان خزانہ ڈویژن کے کٹوتی کی رہے ہیں کہا کہ

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کا بجٹ میں متنازع شقوں میں ترمیم کا مطالبہ، کابینہ آج نظر ثانی شدہ بجٹ کی منظوری دے گی

اسلام آباد:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بدھ کے روز آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں شامل کچھ سیاسی طور پر غیر مقبول شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ قومی اسمبلی میں آج (جمعرات) متوقع منظوری سے قبل ان متنازع شقوں میں ترمیم کرے۔

تفصیلات کے سابق وزیر خزانہ اور پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمر (جو اس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی ہیں) نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی تاکہ فنانس بل 2025 کی اہم شقوں پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

فنانس بل پر قومی اسمبلی کے فیصلہ کن ووٹ سے قبل وقت کم رہ گیا ہے، اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اس دوران ارکان قومی اسمبلی سے انفرادی ملاقاتیں تیز کر دی ہیں، تاکہ بل کی منظوری سے قبل ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔

وزیراعظم سیکریٹریٹ کے ایک ذرائع کے مطابق، بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے وزیراعظم روزانہ 5 سے 6 ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے ہیں ، ان دنوں کو چھوڑ کر جب وہ بیرون ملک ہوتے ہیں۔

ہر ملاقات تقریباً 10 منٹ کی ہوتی ہے، جس کا مقصد پارلیمنٹ میں حاضری کو یقینی بنانا اور ارکان کے انفرادی تحفظات کو دور کرنا ہوتا ہے، یہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ایک ترغیب ہے، اس عمل کی بدولت ارکان بجٹ سیشنز میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس معاملے پر پیغامات یا کالز کا جواب نہیں دیا۔

نوید قمر نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ فنانس بل کا حتمی مسودہ قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کی عکاسی کرتا ہے، ان ترامیم کو حتمی ووٹنگ سے قبل کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس افسران کے لیے گرفتاری کے مجوزہ اختیارات پر پی پی پی کے تحفظات تسلیم کیے، اور کہا کہ یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیر بحث ہے اور حتمی ووٹ سے قبل اسے حل کر لیا جائے گا۔

ایک اور ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت آج کابینہ کا اجلاس بلا رہی ہے، تاکہ نظر ثانی شدہ فنانس بل کی منظوری دی جا سکے، یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت نے قائمہ کمیٹی کی تقریباً نصف سفارشات کو حتمی مسودے میں شامل کیا ہے، کابینہ اس ترمیم شدہ بل کی منظوری دے گی اور پھر اسے پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا جائے گا۔

سب سے متنازع شق ایف بی آر کو توسیعی اختیارات دینے سے متعلق ہے، خاص طور پر سیلز ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں گرفتاری اور قانونی کارروائی کے اختیارات، اس پر پی پی پی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی تجویز پر مفاہمت ہوئی، اور ترمیم شدہ شقیں اب حتمی مسودے میں شامل کیے جانے کی توقع ہے۔

ایک اور متنازع اقدام میں جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری کو فرد کے آمدنی گوشوارے سے منسلک کیا گیا ہے، حکومت نے اس کی حد بڑھا دی ہے، تاہم پی پی پی کا مؤقف ہے کہ یہ شق سیاسی طور پر غیر مقبول ہے، اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

تیسرا تنازع سیلز ٹیکس رجیم کے تحت کاروباری رجسٹریشن سے متعلق ہے، ابتدائی طور پر تجویز دی گئی تھی کہ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کی یوٹیلیٹی سروسز منقطع یا ان کے کاروبار بند کر دیے جائیں گے، تاہم، حکومت نے اب اس تجویز کا ترمیم شدہ ورژن پیش کر دیا ہے۔

بجٹ منظوری میں ایوان زیریں کے اختیارات میں اضافہ
ماضی کی روایت سے ہٹتے ہوئے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی چیئرمین شپ اب حکومت کے بجائے، اتحادی جماعت کے رکن کے پاس ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کمیٹی نے فنانس بل کا شق وار جائزہ لیا ہے۔

نوید قمر (جو قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں) نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط 2007 کے قاعدہ 122 میں ستمبر 2024 میں ان کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔

یہ ترمیم، جسے قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط و استحقاق نے متفقہ طور پر منظور کیا، لازمی قرار دیتی ہے کہ فنانس بل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کو منظوری سے قبل بھیجا جائے، اور کمیٹی کو 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنا لازم ہے۔

ماضی میں، فنانس بل کو سینیٹ میں پیش کیا جاتا تھا، جہاں چیئرمین اسے سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے سپرد کرتا تھا۔

ادھر، قومی اسمبلی عموماً بجٹ کو 28 دن بعد منظور کرتی تھی، جس سے قبل طویل بحث و مباحثہ ہوتا تھا، تاہم، سینیٹ کی سفارشات محض مشاورتی حیثیت رکھتی تھیں اور اکثر اوقات انہیں حتمی بل میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔

اس کے برعکس، قومی اسمبلی کی سفارشات اب لازمی حیثیت رکھتی ہیں، جو بجٹ سازی کے عمل میں ایوانِ زیریں کے اختیارات میں اضافے کی عکاسی کرتی ہیں، فی الوقت، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے چیئرمین بھی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سلیم مانڈوی والا ہیں۔

اس ترمیم کے نتیجے میں، قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس 2025 کے دوران نوید قمر نے فنانس بل پر کمیٹی کی پہلی تفصیلی رپورٹ پیش کی، جس کا مقصد وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو یکم جولائی سے نافذ کرنا ہے۔

نوید قمر نے اس پیش رفت کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کو بجٹ پر مائیکرو سطح پر غور کرنے کا اختیار حاصل ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی کے اراکین باقاعدگی سے اجلاسوں میں شریک رہے، اور فنانس بل پر تفصیلی مباحثوں میں بھرپور حصہ لیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باوجود کمیٹی کی بیشتر سفارشات تسلیم کیں۔

نوید قمر نے کہا کہ یہ عمل اب محض رسمی منظوری تک محدود نہیں رہا، بجٹ سازی کا اختیار بیوروکریسی سے نکل کر عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوگیا‘اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد
  • پیپلز پارٹی کا بجٹ میں متنازع شقوں میں ترمیم کا مطالبہ، کابینہ آج نظر ثانی شدہ بجٹ کی منظوری دے گی
  • عدلیہ کے الاؤنس میں کٹوتی ،سندھ کا بجٹ منظور،جماعت اسلامی کی تحاریک مسترد
  • قومی اسمبلی اجلاس: اعظم نذیر تارڑ کی تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج، چور چور کے نعرے
  • سندھ اسمبلی میں 156 ارب روپے مالیت کا ضمنی بجٹ منظور
  • قومی اسمبلی اجلاس میں کھربوں روپے مالیت کے 136مطالبات زر منظور
  • قومی اسمبلی: کھربوں روپے مالیت کے 136 مطالبات زر منظور
  • قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اراکین میں ہاتھا پائی
  • قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں ہاتھا پائی