پینٹاگون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایران پر حملوں میں ہم نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے، ایران اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے بہت ساری باتیں کر رہا ہے، صدر ٹرمپ اب بھی بات چیت اور معاہدے کے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی وزیر دفاع نے ایران پر حملے سے متعلق امریکی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی افواج نے انتہائی مہارت سے اپنا مشن مکمل کیا اور ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کیا، کچھ امریکی چینل من گھڑت رپورٹ چلا رہے ہیں، تنقید کرنے والے نہیں چاہتے کہ صدر ٹرمپ کامیاب ہوں۔ پینٹاگون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کا ذہن خراب کرتے ہیں، ٹرمپ پر تنقید کے لیے امریکی فوج کے آپریشن کو کمتر بنا رہے ہیں، امریکا نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے، آئی اے ای اے اور سی آئی اے کی رپورٹس میں بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی اور امریکی حملے میں ایران ایٹمی تنصیبات کو نقصان ہوا، یہ نقصان کئی برس میں ختم ہوگا۔

امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایران پر حملوں میں ہم نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے، ایران اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے بہت ساری باتیں کر رہا ہے، صدر ٹرمپ اب بھی بات چیت اور معاہدے کے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین کا کہنا تھا کہ قطر میں امریکی ائیربیس پر حملے سے پہلے ہمیں ایرانی حملے کی اطلاع مل گئی تھی، ہم نے قطر میں امریکی ائیربیس پر ایک کے بعد ایک ایرانی میزائل حملے کو ناکام بنایا۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ ایران پر حملوں اور ائیربیس پر ایرانی حملے ناکام بنانے میں ہماری فوج کی کارکردگی قابل تعریف ہے، آپریشن مڈنائٹ ہیمر کی شاندار کامیابی پر آپریشن میں شامل فوجیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پینٹاگون بریفنگ میں ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے والے بموں کی کارکردگی کی وٖیڈیو بھی دکھائی گئی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کرتے ہوئے ایران پر رہے ہیں

پڑھیں:

امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے

جب سے غزہ کا بحران شروع ہوا ۔مغربی میڈیا کی جانبداری پر درجنوں سوالات اٹھ چکے ہیں۔اگر اس وقت کھلی صحافتی جانبداری کا ورلڈ کپ منعقد ہو تو ٹیم امریکا کو یورپ بھی شاید نہ ہرا سکے ۔

مثلاً اخبار نیویارک ٹائمز کی مئی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں غزہ کے لاکھوں قحط متاثرین میں سے ایک محمد زکریا المتواق ( عمر ڈیڑھ برس ) کا بھی ذکر ہوا۔ زکریا کی ماں نے بتایا کہ اس کا بچہ صحت مند پیدا ہوا تھا۔مگر مسلسل ناکافی غدائیت کے سبب ابتر حالت میں ہے۔

یہ رپورٹ شایع ہونے کے لگ بھگ ایک ماہ بعد اخبار نیویارک ٹائمز نے قارئین سے معذرت کرتے ہوئی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ہمیں مزید چھان بین سے معلوم ہوا کہ محمد زکریا پیدائش کے وقت ہی سے سیریبرل پالسی ( اعصابی بیماری ) میں مبتلا تھا۔لہٰذا اس کی خراب حالت محض ناکافی غذائیت کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس ’’ تصیح ‘‘ پر ایک مبصر نے طنز کیا کہ اچھا ہوا اخبار نے صفائی پیش کر دی کہ ڈیڑھ سالہ محمد زکریا کی لاغری کا سبب خوراک کا ملنا نہیں بلکہ پیدائشی نقص ہے۔اس وضاحت کے بعد اب جرمن نازیوں کے اس موقف کو بھی سچ ماننا ہو گا کہ ہالوکاسٹ کا ایک شہرہ آفاق کردار بارہ سالہ این فرینک کسی کنسنٹریشن کیمپ میں نازی پہرے داروں کے ظلم کے نتیجے میں نہیں بلکہ ٹائفس کے سبب مری تھی۔

اسرائیل کا مہینوں سے موقف ہے کہ ہم نے فلسطینیوں کو اٹھہتر برس سے امداد بانٹنے والی اقوامِ متحدہ کی تنظیم انرا پر اس لیے پابندی لگائی کہ اسے دھشت گردوں نے ہائی جیک کر لیا تھا۔اور یہ کہ غزہ میں گزشتہ بائیس ماہ کے دوران جتنی بھی بین الاقوامی امداد پہنچی اس کا بیشتر حصہ حماس نے لوٹ لیا چنانچہ امداد کی تقسیم کا کام بادلِ ناخواستہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے سپرد کرنا پڑا۔

اس پورے عرصے میں اخبار نیویارک ٹائمز حماس کے ہاتھوں امداد کی چوری کا الزام تندہی سے شایع کرتا رہا۔ گزشتہ ہفتے اس نے پہلی بار ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا کہ چار اسرائیلی ذرایع نے تصدیق کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کا امدادی تقسیم کا نظام خاصا موثر تھا اور یہ کہ حماس اقوامِ متحدہ کی امداد کی چوری میں ملوث نہیں ۔ البتہ حماس چند چھوٹی امدادی تنظیموں کو ملنے والی رسد ضرور ضبط کرتی رہی ہے۔

مگر اس وضاحت سے پہلے جنوری سے جولائی کے آخری ہفتے تک غزہ میں امداد کی چوری کا اسرائیلی الزام نیویارک ٹائمز کی اکسٹھ رپورٹوں اور مضامین میں دھرایا گیا۔ان میں سے نو رپورٹوں میں صرف اسرائیلی موقف پر ہی تکیہ کیا گیا۔بارہ مضامین میں یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ حماس امداد کی تقسیم میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔مگر گزشتہ ہفتے شایع ہونے والی وضاحت میں یہ پھر بھی نہیں قبولا گیا کہ اخبار اب تک مسلسل غلط بیانی کرتا رہا۔الٹا اخبار آج بھی بضد ہے کہ وہ اسرائیل کے سرکاری دعوے اور فلسطینیوں کا موقف باریک بینی سے چھان پھٹک کے بعد ہی چھاپتا ہے۔

اگر یہ وضاحت درست ہے تو پھر تو اور تعجب خیز ہے کہ اخبار کو مہینوں سے دھرائے جانے والا انرا کا یہ موقف کیوں دکھائی نہیں دیا کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ حماس یا اسرائیل سے برسرِ پیکار دیگر مسلح گروہ ہماری امداد کی چوری میں ملوث ہیں۔ بلکہ اس طرح کا دعوی امداد کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لینے کے جواز کے طور پر کیا جا رہا ہے۔حالانکہ امداد کی موجودہ تقسیم بین الاقوامی انسانی قوانین کو خاطر میں لائے بغیر ہو رہی ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں جو بھی امداد عالمی فلاحی اداروں کی جانب سے پہنچی۔اس کا محض ایک فیصد غائب ہوا یا لوٹا گیااور اس کام میں بھی اسرائیلی حمائیت یافتہ ابو شباب گروپ آگے آگے ہے۔یورپی یونین کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا۔مگر نیویارک ٹائمز میں ان تردیدوں کے باوجود امریکی اہلکاروں کے حوالے سے تین ایسی خبریں پھر بھی شایع ہوئیں کہ حماس امداد چوری کر رہی ہے۔

گزشتہ برس اپریل میں ایک موقر آن لائن امریکی جریدے ’’دی انٹرسیپٹ ‘‘ نے نیویارک ٹائمز کے عملے کے لیے جاری ہونے والے ایک انٹرنل میمو کا حوالہ دیا۔اس میمو میں اسٹاف کو ہدائیت کی گئی کہ وہ نسل کشی، نسلی صفائی، مقبوضہ علاقے جیسی اصطلاحات استعمال نہ کرے اور فلسطین اور غزہ کے پناہ گزین کیمپ کی اصطلاح بھی کم از کم برتے۔

غزہ کے بحران کے ابتدائی چھ ہفتے کے دوران اخبار نیویارک ٹائمز ، واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز کی کوریج کے جائزے سے پتہ چلا کہ ان اخبارات نے اسرائیلی اموات اور امریکا میں یہودیوں سے تعصب کی خبروں کو نمایاں شایع کیا۔جب کہ فلسطینی اموات کی خبریں سرسری انداز میں محض خانہ پری کے لیے شایع ہوئیں۔

ان اخبارات نے اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات کی تشہیر کو بھی دبایا جن سے نسل پرستی اور نسل کشی کی بو آتی ہے۔ان میں اسرائیلی وزیرِ سلامتی بن گویر کا یہ بیان بھی شامل تھا کہ غزہ میں گندم کے ایک دانے کے بجائے سیکڑوں ٹن بموں کی رسد جاری رہنی چاہیے۔اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلل سموترخ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بیس لاکھ لوگوں کو بھوکا مارنا ایک سودمند پالیسی ہے بھلے دنیا اس پالیسی کی کتنی بھی مخالف ہو۔

دو ہفتے پہلے ہی وزیرِ ثقافت امشائی ایلیاہو نے کہا کہ فلسطینی اندر سے نازی ہیں۔غزہ میں کوئی بھوکا نہیں۔اگر ہو بھی تو یہ ہمارا نہیں باقی دنیا کا دردِ سر ہے۔امریکی میڈیا نے ان بیانات کو چیختی چنگھاڑتی سرخیاں بنانا پسند نہیں کیا کیونکہ یہ کسی فلسطینی یا عرب کے بیانات نہیں تھے۔

تازہ اطلاعات کے مطابق پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی آدھی تعداد غذا کی عدم دستیابی کے سبب زندگی و موت کے درمیان معلق ہے۔ بھوک سے مرنے والوں میں بچوں کا تناسب اسی فیصد ہے۔پانچ لاکھ افراد قحط کی لپیٹ میں ہیں اور باقی آبادی ناکافی غذائیت بھگت رہی ہے۔یعنی انسانی جسم کو روزانہ جتنی لازمی کیلوریز درکار ہیں وہ غزہ کے کسی بھی باشندے کو میسر نہیں۔

خوراک سے بھرے ہزاروں ٹرک غزہ کی سرحد پر کھڑے ہیں اور ان میں بھرا سامان مسلسل ضایع ہو رہا ہے۔جب کہ اب تک خوراک کے متلاشی ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی قاتل غزہ ہومینٹیرین فاؤنڈیشن کی ’’ شاندار ‘‘ کارکردگی کو امریکا ہر تھوڑے عرصے بعد سراہتے ہوئے سو سو ملین ڈالر کے چیک دے رہا ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • عالمی شہرت یافتہ ایرانی مصوری استاد محمود فرشچیان انتقال کر گئے
  • اسرائیلی حملے میں شہید فلسطینی فٹبالر کی یاد میں یوئیفا کا بیان تنقید کی زد میں
  • امریکا کا قفقاز میں ٹرمپ راہداری بنانے کا منصوبہ، ایران کی مخالفت
  • اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے بیس مبینہ جاسوس گرفتار، ایران کا سخت انتباہ
  • مایا خان کی وائرل ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی شدید تنقید
  • میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے امریکی حملے کے خدشات کو مسترد کر دیا
  • سکھر میں کچے کے ڈاکوئوں کو اسلحہ سپلائی کرنیوالے 4 ملزمان گرفتار
  • امریکی میڈیا نیتن یاہو سے بھی زیادہ اسرائیل نواز ہے
  • ٹرمپ کی میڈیا کمپنی نے اے آئی سرچ انجن متعارف کرا دیا
  • ملکی سلامتی کیلئے جانیں قربان کرنیوالے ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں،وزیر اعظم