موجودہ امریکہ سابق صدر جمی کارٹر کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
انہی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند عیسائی لیڈر عراقی جنگ کو بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں اور بار بار اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔ وہ اس کی مدد کے لیے اسے چندے بھی دیتے رہے ہیں اور فلسطینی علاقے کو نوآبادی بنانے کے لیے واشنگٹن میں لابنگ کرتے رہے ہیں۔ یہ دائیں بازو کا مذہبی دباؤ تھا کہ امریکہ نے اسرائیلی بستیاں اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں ہائی ویز کو قبول کر لیا۔ چند اسرائیلی لیڈروں نے یہودیوں کی آخری مصیبت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس امداد کو قبول کر لیا۔‘‘ (ص ۱۱۲)
’’گھر میں شہری حقوق کی اس فتح کے باوجود امریکہ نے مشرقِ وسطٰی اور دوسرے خطوں کی انتہائی ظالمانہ حکومتوں کو قبول کیے رکھا اور ان کی مدد بھی کرتا رہا۔ حالانکہ حکومتیں اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی تھیں۔‘‘ (ص ۱۱۵)
’’گزشتہ چار سو برسوں میں ان حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے ملک کی پالیسیوں میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے بیشتر شہریوں نے دہشت گردانہ حملوں کے خوف سے ان عدیم النظیر پالیسیوں کو قبول کر لیا ہے۔ تاہم امریکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ، جسے پہلے انسانی حقوق کے ممتاز ترین چیمپئن کی حیثیت سے تقریباً آفاقی طور پر سراہا جاتا تھا، اب جمہوری زندگی کے ان بنیادی اصولوں سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں کی تنقید کا سب سے بڑا ہدف بن چکا ہے۔
نائن الیون کے حملے کے بعد امریکی حکومت نے غیر ضروری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پورے امریکہ میں ۱۲۰۰ سے زیادہ بے گناہ افراد کو گرفتار کروا لیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی پہلے کسی دہشت گردی سے مربوط جرم میں ملوث نہیں ہوا تھا۔ ان کی شناخت راز میں رکھی گئی اور انہیں اپنے خلاف الزامات سننے یا قانونی مشاورت حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ گرفتار ہونے والے تقریباً سارے افراد عرب یا مسلمان تھے اور بیشتر کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ شہری آزادیوں کی ایسی پالیسیوں کو قانونی روپ دینے کے لیے ’’پیٹریاٹ ایکٹ‘‘ بہت جلدی میں منظور کیا گیا۔‘‘ (ص ۱۱۵)
’’افغانستان اور عراق میں جنگوں کے دوران بالغ مردوں کے علاوہ بہت سے کم عمر لڑکوں کو گرفتار کر کے گوانتاناموبے (کیوبا) میں واقع ایک امریکی قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس قید خانے میں ۴۰ ملکوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۵۲۰ افراد کو قید میں رکھا گیا ہے۔ انہیں اس قید خانے میں تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے جبکہ نہ تو ان پر باقاعدہ کوئی الزام عائد کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں قانونی مشاورت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ کئی امریکی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ ان قیدیوں پر جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے۔‘‘ (ص ۱۱۶)
’’عراقی میجر جنرل عید حامد مہوش نے اپنے بیٹوں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں بغداد میں امریکی افسروں کو رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی، اسے گرفتار کر کے اس پر تشدد کیا گیا اور اسے ایک سبز سلیپنگ بیگ میں بند کر دیا گیا جس میں دم گھٹنے سے وہ ۲۶ نومبر ۲۰۰۳ء کو مر گیا۔‘‘ (ص ۱۹۹)
’’اتنی ہی پریشان کن وہ رپورٹیں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت بعض دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو دہشت گردی کو روکنے کے لیے جارحانہ پالیسیاں اپنانے پر اکسا رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں جمہوری اصول اور قانون کی حکمرانی خطرے میں پڑ گئے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بڑھ گئی ہے۔ امریکی پشت پناہی سے جابرانہ اقدامات کرنے والی حکومتوں کی کاروائیاں پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت ہونے والی کاروائیوں سے بھی بڑھ گئی ہیں۔‘‘ ( ص ۱۲۰)
’’جو کچھ ہو رہا ہے امریکی حکام کو اس کا علم تھا۔ محکمہ خارجہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پہلے ہی بتا چکا ہے کہ سابقہ قیدیوں اور حراست میں رکھے جانے والے افراد نے بتایا کہ قیدیوں پر تشدد کے طریقوں میں شامل ہے: بجلی کے جھٹکے لگانا، ناخن کھینچنا، مارنا پیٹنا، چھت سے لٹکانا، ریڑھ کی ہڈی کو بہت زیادہ کھینچنا، کرسی پر بٹھا کر پیچھے جھکانا جس سے قیدی کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے سرک جاتے ہیں۔‘‘ (ص ۱۲۴)
’’اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 30,000 (تیس ہزار) ایٹم بم موجود ہیں جن میں سے بارہ ہزار ایٹم بم امریکہ کے پاس ہیں۔ روس کے پاس سولہ ہزار، چین کے پاس چار سو، فرانس کے پاس ساڑھے تین سو، اسرائیل کے پاس دو سو، برطانیہ کے پاس ایک سو پچاسی، اور ہندوستان اور پاکستان کے پاس چالیس چالیس ایٹم بم ہیں۔ اس امر کا یقین کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس اتنا نیوکلیئر ایندھن ہے جس سے نصف درجن ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔‘‘ (ص ۱۲۹)
’’گزشتہ پچاس برسوں کے دوران ایٹمی اسلحہ پر کنٹرول کے لیے جتنے معاہدوں پر مذاکرات کیے گئے ہیں امریکہ ان میں سے تقریباً تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کر چکا ہے، اور ایٹمی اسلحہ کے عالمگیر پھیلاؤ کا سب سے بڑا مجرم (Prime Culprit) بن چکا ہے۔ سابق وزیردفاع میکنامارا نے مئی، جون ۲۰۰۵ء کے فارن افیئرز میں اپنے خدشات کا یوں اظہار کیا تھا کہ میں امریکہ کی موجودہ ایٹمی اسلحہ پالیسی کو غیر اخلاقی، غیر قانونی، فوجی اعتبار سے غیر ضروری اور ہولناک حد تک خطرناک سمجھتا ہوں۔‘‘ (ص ۱۲۹)
’’ایک اور تاریخی و بین الاقوامی عہد کو توڑ دیا گیا ہے۔ اور وہ عہد یہ تھا کہ موجودہ ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائشیں نہ کی جائیں اور نئے ایٹمی ہتھیار نہ بنائے جائیں۔‘‘ (ص ۱۳۵)
’’اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے کسی کنٹرول میں اور زیرنگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پڑوسی ملکوں ایران، شام، مصر اور دوسرے عرب ملکوں کے لیڈر ایٹمی ہتھیاروں کی مالک برادری میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں۔‘‘ (ص ۱۳۷)
’’موجودہ امریکی پالیسی ان بین الاقوامی معاہدوں کے مؤثر ہونے کے لیے خطرہ بن رہی ہے جن کے لیے تقریباً تمام سابق صدور نے جانفشانی سے مذاکرات کیے تھے۔ عالمی استحکام کو درپیش اس سے بھی بڑا خطرہ پیش بندی کے لیے کی جانے والی جنگ کی پالیسی ہے جس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ یہ حالیہ فیصلہ نہ صرف امریکہ کی تاریخی پالیسیوں سے انحراف ہے بلکہ ان بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہے جن کے احترام کا ہم وعدہ کر چکے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کی خلاف ورزی کو قبول رہے ہیں حقوق کی ایٹم بم دیا گیا کے پاس چکا ہے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارت کو طیاروں کے موجودہ ذخیرے کی آزادانہ تصدیق کا چیلنج دے دیا
وزیر دفاع خواجہ آصف : فائل فوٹووزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی ایئر چیف کے دعووں کو غیر معقول اور غیر موزوں قرار دے کر دونوں ممالک کے طیاروں کے موجودہ ذخیرے کی آزادانہ تصدیق کا چیلنج دے دیا۔
اپنے بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت نے نہ کوئی پاکستانی طیارہ مار گرایا، نہ ہی تباہ کیا، پاکستان نے چھ بھارتی جنگی طیارے اور ایس فور ہنڈریڈ فضائی دفاعی نظام کو تباہ کیا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق صحافیوں کے استفسار پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بات کرنے سے معذرت کی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان نے فوری بین الاقوامی میڈیا کو تفصیلی تکنیکی بریفنگ دیں، غیر جانبدار مبصرین نے متعدد بھارتی طیاروں، بشمول رافیل کے نقصان کا اعتراف کیا، عالمی رہنما، بھارتی سیاست دان اور غیر ملکی انٹیلی جنس جائزوں میں اعترافات شامل تھے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کسی ایک بھی پاکستانی طیارے کو بھارت نے نہ مار گرایا اور نہ ہی تباہ کیا، سربراہ بھارتی ایئر فورس کے تاخیری دعوے جتنے غیر معقول اتنے ہی غیر موزوں وقت پر کیے گئے ہیں، تین ماہ تک اس نوعیت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا۔