مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 27 June, 2025 سب نیوز


اسلام آباد:سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا گیارہ رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا۔

عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بینچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بینچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ کیس کی آج ہونے والی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جاری تھی، تاہم سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ آپ سے میرا 2010 کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔

عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔

حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔

دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔

اس موقع پر کیس کی سماعت کو 10 منٹ کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بینچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسیزفائر کے بعد ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور اربوں ڈالر امداد ملنے کا امکان سیزفائر کے بعد ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور اربوں ڈالر امداد ملنے کا امکان وزیر اعظم شہباز شریف کا امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک رابطہ ،پاک امریکاتعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے مل کر کام جاری.

.. پی ٹی آئی کا سابق فاٹا میں ٹیکس کے نفاذ کی صورت میں بھرپور مزاحمت کا اعلان سپریم کورٹ، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر شیر افضل مروت کے علیمہ خان پر سنگین الزامات، فساد کی جڑ قرار دے دیا ٹرمپ اور نیتن یاہو کا غزہ جنگ 2 ہفتوں میں ختم کرنے پر اتفاق، برطانوی اخبار کا دعوی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مخصوص نشستیں کیس کیس کی سماعت سپریم کورٹ گیارہ رکنی

پڑھیں:

مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر

اسلام آباد:

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ  لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔

وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ  میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی ہے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد کیے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔

سلمان اکرم راجا نے مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قرار دے کر بحال کیا۔  الیکشن ایکٹ سیکشن 66 کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے 2 اصول ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پارٹی ٹکٹ فائل کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہو گا؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی ثبوت ججمنٹ میں ڈسکس ہوا ہے؟۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کتنے امیدواروں نے مینشن کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق 39 نے مینشن کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں 39 آپ کی اس 80 کی لسٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ یا ثبوت عدالت کے سامنے پہلے نہیں تھے۔ وکیل نے کہا کہ  میں نے وہ لسٹ اپنی سی ایم اے کے ساتھ فائل کی ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیکڑوں ڈاکومنٹس فائل کر سکتے ہیں، آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ  اگر کوئی شخص پارٹی ٹکٹ فائل کرنے میں ناکام ہو وہ آزاد تصور ہو گا۔

دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے 2013، 2018 اور 2024 کے عام انتخابات میں مخصوص نشستوں کے تناسب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے جتنی جنرل نشستیں لیں تقریباً اسی تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں،  لیکن حالیہ عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا میں 83 فیصد جنرل نشستیں لینے والی پارٹی کو صفر مخصوص نشستیں ملیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی سیاست دان کو آزاد الیکشن لڑنے سے کیسے روک سکتی ہے؟۔ فرض کریں عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن پارٹی کے بڑے لیڈرز ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کہے ہم نے آزاد الیکشن لڑنا ہے تو ہم کیسے انہیں روک سکتے ہیں؟۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پارٹی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی لیکن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے کا حوالہ دیا، وہاں تو تسلیم شدہ حقائق تھے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 1985 کے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نے کہا ہم عوام دوست جماعت ہیں۔ کیا آپ نے بھی ایسی کوئی اصطلاح متعارف کرائی، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہاں! ہم نے کپتان کا سپاہی کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لگتا ہے پی ٹی آئی کے اندر کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن 39 اراکین اسمبلی نے سیاسی وابستگی پی ٹی آئی ظاہر کی وہ زیادہ عقل مند تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیادہ عقل مند تھے یا پھر زیادہ دباؤ برداشت کرنے والے تھے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کیخلاف آپ نے مکمل قانونی جنگ لڑی یا راستے میں سب چھوڑ دی؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ادھوری نہیں چھوڑی، آپ الزام لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا،ہم نے سوچا اب الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔ ہمیں الزام نہ دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپیل آپ فائل نہ کریں تو الزام کسے دیں پھر؟۔

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستیں سے ملیں گی؟ آئینی بینچ مختصر فیصلہ کچھ دیر میں سنائے گا
  • مخصوص نشستیں نظرثانی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس سننے والا سپریم کورٹ کا بنچ ٹوٹ گیا
  • مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا  گیارہ رکنی آئینی بینچ ٹوٹ گیا
  • جسٹس صلاح الدین پنہورکابینچ کا حصہ بننے سے معذرت، مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا
  • سپریم کورٹ: مخصوص نشستوں سے متعلق کیس، 41 امیدواروں نے حلف نامے کیوں نہ دیے؟ جسٹس امین الدین خان
  • مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر
  • مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر