Islam Times:
2025-09-26@19:49:01 GMT

لاعلمی یا کچھ اور؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

لاعلمی یا کچھ اور؟

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کے عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔ پہلا: ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ دوسرا: ایران میں رجیم کو تبدیل کرنا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ تیسرا: ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ اب جناب کالم نویس خود غور فرمائیں کہ آپ کا کالم پیشوائیت کے حوالے سے لاعلمی پر مبنی تھا یا کوئی دانستہ کاوش؟ تحریر: علامہ سید حسن ظفر نقوی

لا علمی کہاں تک جا پہنچی ہے اس کا اندازہ مورخہ 25 جون 2025ء کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے میں وجاہت مسعود صاحب کے ایران سے متعلق لکھے گئے مضمون سے ہوا۔ موصوف نے خوبصورتی سے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ایران کی سرزمین پر برطانوی سامراج کیخلاف علم بغاوت بلند کرنیوالے بھی ایک مجتہد آیت اللہ شیرازی تھے جنہوں نے 1888ء میں سامراجی معاہدوں کے خلاف کامیاب تحریک چلائی تھی۔ جو ’’تحریک تحریم تمباکو‘‘ کے نام سے تاریخ میں موجود ہے اور اس وقت بھی ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے کھڑی تھی پھر دوسری تحریک 1940ء کے عشرے میں آیت اللہ شہید حسن مدرس نے برطانوی پٹھو رضا شاہ پہلوی کے خلاف چلائی تھی اور انہیں قتل کردیا گیا تھا۔ پھر ایک تحریک شمالی ایران یعنی مازندران اور گیلان میں روسی قبضے کے خلاف مرزا کوچک خان جنگلی نے چلائی تھی کیونکہ یہ تحریک جنگلی علاقوں میں تھی لہٰذا اسے نہضت جنگل یعنی تحریک جنگل کا نام دیا گیا۔ یہ بھی ایک عالم دین تھے اور روسیوں نے ان کا سر قلم کر دیا تھا۔ گیلان کے دارالحکومت رشت میں ان کا مزار اور گھر دونوں آج بھی روحانی طاقت کا مظہر ہیں۔

جناب، ڈاکٹر مصدق کی تحریک پوری پڑھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ کبھی شاہ کیخلاف کامیابی، چاہے وقتی ہی سہی، حاصل نہیں کرسکتا تھا اگر آیت اللہ کاشانی اس کیساتھ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کی ناکامی کے بعد مصدق کو صرف قید ہوئی جبکہ نواب مجتبٰی صفوی سمیت درجنوں علماء کو فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کیا گیا۔ 1963ء ءمیں جب شاہ ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے ذلت آمیز معاہدے کئے تو امام خمینیؒ کی تحریک وجود میں آئی اور سب سے پہلے قربانی دینے والا طبقہ علماء کا تھا۔ اس تحریک کے آغاز میں ہی سینکڑوں علماء اور دینی طلبا کا قتل عام کیا گیا، پھر ساری ایرانی قوم اپنے علماء کے پیچھے ہر شہر میں نکل آئی۔ تاہم شاہ کی افواج نے درندگی کے ساتھ چالیس سے پچاس ہزار لوگوں کا قتل عام کیا اور 1964ء کے اس قتل عام کے بعد امام خمینی کو ملک بدر کردیا گیا۔ امام خمینی ترکی سے ہوتے نجف پہنچے وہاں سے انکی تقاریر اور پیغامات ایران پہنچتے رہے اور یہ تحریک جڑیں پکڑتی رہی، اس دوران ساواکیوں (ساواک، شاہ کی خفیہ ایجنسی) نے نجف میں امام خمینی کے بڑے بیٹے آیت اللہ مصطفیٰ خمینی کو قتل کروا دیا۔ اسی دوران ڈاکٹر شریعتی کو لندن میں قتل کر دیا جاتا ہے۔

ادھر ایران میں کیونکہ بائیں بازو کی جڑیں عوام میں نہیں تھیں اس لئے تودہ پارٹی سمیت تمام بائیں بازو کے دھڑوں نے اسی امام خمینی کی تحریک کے پردے میں پناہ لی اور تحریک کے دھارے میں شامل ہوگئے، اس امید پر کہ ملاؤں سے تو نظام نہیں چلے گا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب پر ہمارا قبضہ ہوگا۔ امام خمینی انقلاب سے پہلے ہی بعد کا نظام بھی ترتیب دے چکے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں نظام چلانے والوں کا لشکر بنا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے بعد بہشتی اور مطہری جیسوں کا قتل بھی انقلاب کو نہ گرا سکا۔ آپ نے ان خیانتکاروں اور غداروں کی موت کا ذکر کیا لیکن آپ یہ بھول گئے کہ انہی غداروں کی وجہ سے اوائل انقلاب ہی میں ایران کا صدر محمد علی رجائی اور وزیراعظم جواد باہنر کو شہید کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے 72 ارکان شہید کئے جاتے ہیں لیکن انقلاب قائم رہتا ہے۔ انہی خیانت کاروں کی وجہ سے ایران پر جنگ مسلط کی جاتی ہے اور صدر بنی صدر اور وزیر خارجہ صادق قطب زادہ جیسے امریکی ایجنٹوں کے سبب آغازِ جنگ میں ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے لیکن ان دونوں خیانت کاروں کے فرار اور انجام کے بعد ایران کی جنگ میں کامیابیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ نے جن ترقی پسندوں کی موت پر اظہار افسوس کیا ہے وہ ترقی پسند نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ تھے۔

تودہ کے پارٹی سربراہ نورالدین کیانوری سمیت کسی بھی ایسے شخص کو پھانسی نہیں دی گئی جو نظام کا مخالف ضرور تھا لیکن کسی بیرونی طاقت کا ایجنٹ نہیں تھا، ان میں سے اکثر صرف نظر بند کئے گئے اور اکثریت آزاد رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں تودہ پارٹی کے بچے کچھے افراد نے اپنی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور آخر میں آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ ایران کو اس جنگ میں شکست ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نوشتہ دیوار بھی پڑھنے سے عاجز ہیں۔ ایسے میں جب ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل پر شکست کا سوگ طاری ہے اور ایران کے عوام اپنی رہبری اور فوج کی فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شکست کا اعلان خود ان کے ملکوں کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کر رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ جو اہداف لے کر ایران پر حملہ آور ہوئے تھے وہ تین تھے۔ پہلا: ایران کو جوہری پروگرام کو بند کروانا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ دوسرا: ایران میں رجیم کو تبدیل کرنا۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ تیسرا: ایران کی سپریم قیادت کا خاتمہ۔ کیا ایسا ہوا؟۔ جواب نہیں۔ اب جناب کالم نویس خود غور فرمائیں کہ آپ کا کالم پیشوائیت کے حوالے سے لاعلمی پر مبنی تھا یا کوئی دانستہ کاوش؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کیا ایسا ہوا جواب نہیں ا یت اللہ ایران کو ایران کی شکست کا ہے کہ ا ہے اور کے بعد

پڑھیں:

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب کہا کہ ایران کبھی بھی ایٹمی بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا، تو اس کے چند ہی گھنٹے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا، ''ہم انہیں نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔‘‘

وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ میں کہا،''ہم ان سے بات کر رہے ہیں۔

اور کیوں نہ کریں؟ ہم سب سے بات کرتے ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمارا کام مسائل کو حل کرنا ہے۔‘‘

قبل ازیں ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔

(جاری ہے)

مسعود پزشکیان نے ایران کے دیرینہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا، ''میں اس اسمبلی کے سامنے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں کہ ایران نے کبھی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ کبھی کرے گا۔

‘‘ انہوں نے تاہم یہ بھی کہا کہ ایرانی قوم بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ ’’وہ جارح طاقت کے سامنے کبھی نہیں جھکے گی۔‘‘ ایران کا امریکہ پر الزام

جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے پہلے، تہران اور واشنگٹن کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہوئے لیکن بڑے اختلافی مسائل برقرار رہے، خصوصاً ایران میں یورینیم کی افزودگی، جسے مغربی طاقتیں صفر تک کم کرنا چاہتی ہیں تاکہ ایٹمی ہتھیار سازی کے خطرے کو ختم کیا جا سکے۔

تہران کا الزام ہے کہ واشنگٹن نے "سفارتکاری سے غداری" کی اور جنگ کے بعد سے جوہری مذاکرات رکے ہوئے ہیں۔

ایران کے ایک اندرونی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا ''گزشتہ ہفتوں میں ثالثوں کے ذریعے کئی پیغامات واشنگٹن کو بھیجے گئے ہیں تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں، لیکن امریکہ نے جواب نہیں دیا۔‘‘

منگل کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، جو خارجہ پالیسی اور ایران کے جوہری پروگرام جیسے اہم ریاستی امور پر آخری فیصلہ کرتے ہیں، نے دھمکی کے تحت امریکہ سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیا۔

امریکہ، اس کے یورپی اتحادی اور اسرائیل ایران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

کچھ ہی گھنٹے باقی

برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو "اسنیپ بیک" کے نام سے جانے جانے والے عمل کا آغاز کیا، جس کے تحت 30 دنوں میں اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد ہو جائیں گی۔

یہ عمل 27 ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔

یورپی طاقتوں نے تہران پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2015 کے معاہدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے، جو ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔

یورپی ممالک نے پیشکش کی ہے کہ اگر ایران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو دوبارہ رسائی دیتا ہے، افزودہ یورینیم کے ذخیرے پر خدشات دور کرتا ہے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت میں شامل ہوتا ہے، تو پابندیاں چھ ماہ تک مؤخر کی جا سکتی ہیں تاکہ طویل المدتی معاہدے پر بات چیت کا موقع مل سکے۔

وٹکوف نے کہا،''ہم چاہتے ہیں کہ یا تو ایک مستقل حل نکل آئے اور اسنیپ بیک پر بات ہو جائے، اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسنیپ بیک ہی درست علاج ثابت ہو گا۔‘‘

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران کے پاس اب بھی موقع ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں کی بحالی کو روک سکے۔

انہوں نے ایکس پر لکھا، ''ابھی بھی معاہدہ ممکن ہے۔

چند ہی گھنٹے باقی ہیں۔ یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے طے شدہ جائز شرائط پر پورا اترے۔‘‘

یورپی سفارتکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ ایران، ای 3 (برطانیہ، فرانس، جرمنی) اور یورپی یونین نے بدھ کو ایک اور دور کے مذاکرات کیے۔

ہفتے کی ڈیڈلائن

اگر 27 ستمبر تک تہران اور ای 3 کسی توسیعی معاہدے تک نہ پہنچ سکے تو ایران پر اقوام متحدہ کی تمام پابندیاں دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔

ایران کی معیشت پہلے ہی 2018 میں ٹرمپ کے معاہدہ توڑنے کے بعد لگائی گئی سخت پابندیوں سے بری طرح متاثر ہے۔

’اسنیپ بیک‘ کے عمل کے تحت ہتھیاروں کی پابندی، یورینیم کی افزودگی اور ری پروسیسنگ پر پابندی، ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کی سرگرمیوں پر پابندی، عالمی سطح پر اثاثے منجمد کرنے اور ایرانی افراد و اداروں پر سفری پابندیاں شامل ہوں گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • غزہ ملین مارچ اور نظام کی تبدیلی کی تحریک شروع کی جائے گی، جماعت اسلامی کا اعلان
  • ایران کا جوہری مسئلہ دباو اور پابندیوں سے حل نہیں ہو گا، بیجنگ
  • شہادت جہاد کا ثمر اور ملی ارتقا کا ذریعہ ہے، آیت اللہ سید علی خامنہ ای
  •   پشاور ، حقوقِ طلبہ تحریک کا آغاز،حکومت کو 10اکتوبر کی ڈیڈلائن
  • شہادت جہاد کا ثمر اور ملی ارتقا کا ذریعہ ہے، حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای
  • ہم کہاں سرکار جائیں آپؐ کے ہوتے ہوئے۔۔۔!
  • یہ کتا نہیں تھا، بکری تھی!
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار
  • امریکہ اسرائیل پر دباؤ کا ویسا مظاہرہ نہیں کر رہا جیسا کرنا چاہئے، رانا ثناء
  • نیویارک، جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانیے کی گونج