حکومتِ غزہ نے اعلان کیا ہے کہ امدادی آٹے کے تھیلوں میں سے نشہ آور گولیاں برآمد ہونے کا انکشاف؛ قابض اسرائیلی رژیم اور امریکہ کیجانب سے امداد کی آڑ میں فلسطینی معاشرے کی منظم تخریب، نشہ عام کرنے اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی صیہونی پالیسی کو آگے بڑھانے کا واضح ثبوت ہے! اسلام ٹائمز۔ غزہ میں حکومتی دفتر برائے اطلاعاتِ عامہ نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے نام نہاد امداد کے ضمن میں دیئے جانے والے آٹے کے تھیلوں میں سے، جو اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ وابستہ نام نہاد "امدادی مراکز" کی جانب سے غزہ بھیجے گئے تھے، نشہ آور گولیاں "اکسی کوڈون (Oxycodone)" برآمد ہوئی ہیں۔ غزہ حکومت نے اس اقدام کو فلسطینی عوام کی صحت کے خلاف ایک بھیانک و دانستہ جرم قرار دیا ہے۔ غزہ حکومت کے بیان کے مطابق، اسرائیل و امریکہ کی جانب سے غزہ میں گذشتہ 1 ماہ سے امدادی مراکز قائم کئے گئے ہیں، جو بظاہر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تقسیم کرنے کا دعوی کرتے ہیں لیکن مقامی فلسطینیوں کے لئے یہ نام نہاد امدادی مراکز "مصائد الموت" (موت کے پھندے) کے نام سے معروف ہو چکے ہیں، کیونکہ یہاں موجود اسرائیلی فوجی روزانہ کی بنیاد، پر ان مراکز میں امداد کے حصول کے لئے آنے والے بھوکے فلسطینی شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں نہتے اور بھوکے پیاسے فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں۔

اس بیان کے مطابق، ان مراکز نے کم از کم 4 مختلف مواقع پر آٹے کے ایسے تھیلے شہریوں کو فراہم کئے ہیں کہ جن میں نشہ آور گولیاں بھی شامل تھیں۔ فلسطینی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ان گولیوں کو بعض صورتوں میں پیس کر آٹے میں ملا دیا گیا ہو کہ جو ایک ایسا امر ہے کہ جو اس حملے کی سطح کو بڑھا کر "پوری عوام کی صحت پر براہ راست حملے" کے مترادف بنا دیتا ہے۔ اس بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ یہ غیر انسانی اقدام دراصل فلسطینی معاشرے کے اجتماعی تانے بانے کو تباہ کر ڈالنے، غزہ میں منشیات کو فروغ دینے اور فلسطینی باشندوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو ختم کر ڈالنے کے مقصد سے انجام دیا جا رہا ہے جس کی مکمل ذمہ داری قابض اسرائیلی حکام کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ غزہ کے سرکاری دفتر برائے اطلاعات عامہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، عالمی فوجداری عدالت اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے بھی فی الفور مداخلت کی اپیل کی اور تاکید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان "مصائد الموت" (موت کے پھندے)  نامی مراکز کی سرگرمیاں فورا بند کروائی جائیں اور امداد صرف اور صرف اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ تنظیموں، خاص طور پر انروا (UNRWA) کے توسط سے فراہم کی جائے۔ اپنے بیان کے آخر میں غزہ کی حکومت نے یہ اعلان بھی کیا کہ فلسطینی عوام کی جان و صحت اولین قومی ترجیح ہے اور وہ ان مجرمانہ اقدامات کے مرتکب عناصر، خواہ وہ اسرائیلی ہوں یا ان کے اندرونی و بیرونی معاونین، سب کو بے نقاب کرتے ہوئے سخت سے سخت سزا دلوانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا نے غزہ کے بارے میں اپنے 20نکاتی پلان کو دنیا کے سامنے قانونی جواز بنا کر پیشکیا جائے ۔۔ اس منصونے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس منصوبے فلسطینی ریاست کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اس منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی فوج غزہ میں کسی نہ کسی صورت موجود رہے اور ٹونی بیلر نگران ہوں گے جو اسرائیل کے حمایت یافتہ ہیں ، اس قراقرداد کی عرب ممالک کھل کر مخالفت نہیں کر سکتے ا اس کی وجہ یہ ہے وی خود حماس جیسی فلسطین کی آزادی کے کام کر نے والے لوگوں کے عملی طور پر مخالف ہیں اور وہ امریکا ڈرتے ہیں ۔
ٹرمپ پلان امریکا کان امریکا کا اور اسرائیل کے اتحاد ما مظہر ہے اور اس پلان اما مقصد اسرائیل کو غزہ پر مکمل کنٹرول کر انا ہے ۔اس لیے اس پلان کی روس اور چین بھی مخالت نہیں کر یں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے غزہ میں بین الاقوامی فورس کی حکومت کے لیے ایک قرارداد سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو پیش کی ہے۔ اس قرارداد کے مطابق اس بین الاقوامی فورس کی حکومت کی مدت 2 سال معین کی گئی ہے۔

سحرنیوز/دنیا: ایکسیوس نیوز ویب سائٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو ایک قرارداد کا مسودہ بھیجا ہے جس میں اس نے غزہ میں کم از کم 2 سال کے مشن کے ساتھ ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کی تجویز ہے۔
ایکسیوس کی رپورٹ میں اس قرارداد کو “حساس لیکن غیر خفیہ” قرار دیا گیا ہے اور قرارداد میں بین الاقوامی فورس میں شریک امریکہ اور دیگر ممالک کو غزہ پر حکومت کرنے اور سنہ 2027 کے آخر تک سیکورٹی فراہم کرنے کے وسیع اختیارات دیئے گئے ہیں۔ قرارداد کے مطابق اس مدت کے بعد مشن میں توسیع کا امکان ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا ا ±ن کا منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ ’مشرق وسطیٰ میں دائمی امن‘ لا سکتا ہے۔

یہ مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے مگر ان کا 20 نکاتی مجوزہ منصوبہ بلاشہ ایک اہم سفارتی قدم ضرور ہے، جس کا اعلان پیر کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں نتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔اس منصوبے میں کافی ابہام بھی ہے جسے کوئی بھی فریق اس پورے عمل کو سبوتاڑ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے فریق کو ٹھہرا سکتا ہے۔
اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہو گی۔ٹرمپ نے نتن یاہو پر یہ بات واضح کرتے ہوئے پیر کو انھیں بتایا کہ اگر حماس اس مجوزہ منصوبے پر راضی نہیں ہوتی تو انھیں (اسرائیل) ’(حماس کو ختم کرنے کے لیے) جو کچھ کرنا پڑے گا اس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔‘اگرچہ ٹرمپ نے اسے ایک معاہدے کے طور پر پیش کیا ہے لیکن حقیقت میں یہ مزید مذاکرات کے لیے ایک ڈھانچہ ہے- یا جیسا کہ انھوں نے ایک موقع پر کہا کہ ’اصولوں‘ کا ضابطہ کار ہے۔ یہ اس قسم کے تفصیلی منصوبے سے بہت دور ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے پر اتفاق کے لیے درکار ہو گا۔
یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کا مقصد مرحلہ وار جنگ بندی اور معاہدے کے تحت جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ ایک ’آل اِن ون‘ امن معاہدہ چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں مخصوص تفصیلات، رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی شناخت اور جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کے لیے مخصوص شرائط جیسے بہت سے دیگر امور کے علاوہ اسرائیلی انخلا کی تفصیلات کا نقشہ تیار کرنے کے لیے کافی کام کی ضرورت ہے۔

2۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے پر کام نہیں ہو رہا اور بظاہر مستقبل میں بھی نہیں ہو گا۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والی اعلیٰ سطح کی امریکی شخصیات، جن میں نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور صدر کے داماد اور خصوصی ایلچی جیرڈ کشنر شامل ہیں، کوئی پیش رفت حاصل نہ کر سکے۔
یہ صورت حال پہلے مرحلے سے مختلف ہے، جسے اگرچہ دو سال کی تکلیف دہ بےعملی کے بعد نافذ کیا گیا، مگر نسبتاََ بلارکاوٹ نافذ کر لیا گیا۔
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے مرحلے نے فریقین کا کم از کم ایک اہم مقصد پورا کیا، یعنی قیدیوں کی رہائی اور نسل کشی روکنا اور اس کے نفاذ کے لیے امریکہ کا شدید دباو ¿ تھا۔
شدید باہمی اختلافات کے باوجود فلسطینی گروپ اور بہت سی عرب حکومتیں، خاص طور پر مصر، اس منصوبے کے دوسرے مرحلے سے جڑے تین مسائل پر متفق ہیں۔
پہلا مسئلہ یہ کہ یہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں کے دو جغرافیائی حصّوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کو پیش رفت، پالیسیوں اور قیادت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے علیحدہ کرتا ہے۔یہ علیحدگی اسرائیل کے اس طرزِ عمل کی تائید کرتی ہے، جو فلسطینی سیاست کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش ہے۔
فلسطینی توقع کرتے ہیں کہ دونوں علاقے ایک ہی انتظامیہ کے تحت آئیں یا کم از کم باہم منسلک رہیں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو غیر ملکی سرپرستی میں دے رہا ہے۔ یہ براہ راست فلسطینی آزادی اور خود ارادیت کی خواہش کے منافی ہے۔
3۔یہ فلسطینی جدوجہد کو اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی بجائے ایک اور غیر ملکی فوج یا فوجوں کے زیرِ اختیار چھوڑ رہی ہے، جس کا کوئی واضح اختتام نہیں۔ اس کے علاوہ مصر محتاط معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سرحد پر غیر ملکی فوج موجود ہو اور اس لیے وہ نفاذ سے پہلے اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے کے دوسرے مرحلے نے، جسے ٹرمپ کی اسرائیلی کنیسٹ کی تقریب میں دیے گئے متنازع خطاب نے واضح کیا، غزہ کے بحران کی سیاسی فطرت کو نظرانداز کیا اور اسے صرف انسانی اور اقتصادی بحران کے طور پر پیش کیا۔
یہ بہت زیادہ اہم ہوتا کہ منصوبہ بحران کو اس سیاسی تنازعے کے حصّے کے طور پر سامنے لاتا، جس کا حل 1967 کے بعد کے اسرائیلی قبضے کے خاتمے میں مضمر ہے اور اس طرح فلسطینیوں کو آزادی، خودارادیت اور خود مختاری دینے کا راستہ ہموار ہوتا۔اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ غزہ میں وہی ماڈل نافذ کرے جو اس نے مغربی کنارے میں تیار کیا، البتہ یہ شرط لگا کر کہ فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہ ہو۔
اس ماڈل کا مقصد اسرائیلی قبضہ کرنے والی فورسز اور پی اے کے مابین ذمہ داریوں کو تقسیم کرنا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل صرف خود، یکطرفہ اور جبراً اپنی سرحدوں، سرزمین اور سلامتی کا کنٹرول رکھتا ہے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ پہلے مرحلے کے بعد غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجی نصف سے زیادہ زمین پر موجود ہیں، جو ایک نئی ’زرد لکیر‘ بناتا ہے۔
اسی دوران، مغربی کنارے میں اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو تعلیم، صحت، قانون و نظم، میونسپل خدمات وغیرہ کی ذمہ داری دے رہا ہے۔
وہ فریق جائز نہیں ہوگا اور صرف اسرائیلی غیرقانونی فوجی موجودگی اور قبضے کو مکمل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
ان دو ہولناک برسوں سے حاصل ہونے والے سبق یہ ہیں کہ فلسطین کے سیاسی حقوق نظر انداز کرنے سے وہ ختم نہیں ہو جاتے۔
فلسطینیوں کی زمین اور مقدّس مقامات سے باہم وابستگی اور اسرائیل کو بین­ الاقوامی قانون سے مستثنیٰ سمجھنے کا رویہ معمول نہیں بن سکتا۔
اسرائیل کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے اور عالمی سطح پر بھی۔
فلسطینی اتھارٹی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو کمزور کرنا، نہ کہ مضبوط بنانا، جیسا کہ اسرائیل کر رہا ہے، صرف انتہاپسندی کو بڑھا سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔
اسرائیل کو اپنی مرضی پر چھوڑنے کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ اسرائیلی معاشرے میں بہت تیزی سے وہ تغیرات رونما ہو رہے ہیں جو دو ریاستی حل کی کوئی جھلک نہیں چھوڑ رہے، بلکہ ایک ریاستی نسلی امتیاز (اپارتھائیڈ) کا تیزی سے ابھرتا ہوا منظرنامہ اور مسلسل سفاکی و تشدد کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
غسان الخطب برزت یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعہ جات کے لیکچرر ہیں اور انہوں نے فلسطینی اتھارٹی میں متعدد عہدے سنبھالے ہیں۔ انہوں نے یروشلم میڈیا اینڈ کمیونیکیشنز سینٹر کی بنیاد رکھی اور اس کے ڈائریکٹر رہے۔اس پوری صورتحا ل میں کیا پاکستان کو امریکا کی قراقر داد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے۔

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • فلسطینی بچوں پر اعتبار نہیں ہو سکتا
  • ونڈ اسکرین تنازع پی آئی اے کی نجکاری کے پرائس کم کروانے کیلئے سازش بھی ہوسکتی ہے: ترجمان قومی ایئرلائن
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بمباری،متعدد فلسطینی شہید
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے بند نہ ہوئے‘ شہدا کی تعداد 79 ہزار سے متجاوز
  • فلسطین کا ترکی کے اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کا خیرمقدم
  • امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو امدادی فنڈز روکنے کی اجازت دیدی
  • سلامتی کونسل میں پاکستان کو امریکی قر اداد کی حمایت کر نے کی ضرورت ہے؟
  • اسرائیلی جارحیت میں نئی شدت: غزہ میں سرنگوں کی فوری تباہی کا حکم
  • اسرائیل نے امریکی عوام میں اعتماد بحال کرنے کیلئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر ڈالے
  • فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام، ترکیہ نے نیتن یاہو سمیت اسرائیلی حکام کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے