data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سوات: پاکستان کے معروف سابق کپتان اور اسٹار آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی نے دریائے سوات میں حالیہ افسوسناک واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کی بے حسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ   دریائے سوات میں ڈوبنے والے معصوم لوگ آخری لمحے تک بے بسی کی تصویر بنے مدد کے منتظر رہے، ان کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی کہ شاید کوئی انہیں بچا لے گا مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ جن کی یہ ذمہ داری ہے، ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔

ٹوئٹ دیکھنے کے لیے کلک کریں.

شاہد آفریدی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال میں جب انسانی جان خطرے میں ہو، ریاستی مشینری اور ریسکیو اداروں کی فوری کارروائی نہ صرف ان کا قانونی فریضہ ہے بلکہ انسانی اور اخلاقی تقاضا بھی ہے، حکمرانوں کو ترجیحات بدلنا ہوں گی، جانیں بچانا اولین فرض ہے۔

انہوں نے حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ دریا کے قریب خطرناک مقامات پر وارننگ سسٹمز، حفاظتی جال اور تربیت یافتہ ریسکیو ٹیموں کو تعینات کیا جائے تاکہ آئندہ ایسے دل دہلا دینے والے واقعات سے بچا جا سکے۔

دریائے سوات میں ڈوبنے والے افراد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متاثرین آخری لمحوں تک بچاؤ کی اپیل کرتے رہے لیکن امدادی کارروائیاں بروقت نہ ہو سکیں ان مناظر نے پورے ملک میں عوامی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا ہے۔

خیال رہےکہ  شاہد آفریدی جو سوات سے تعلق رکھتے ہیں اس سانحے پر مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے کیا گیا یہ بیان ایک عام شہری کے درد کو اجاگر کرتا ہے جو انتظامی نااہلی کے باعث خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شاہد آفریدی

پڑھیں:

ہم ہجرت نہیں کر رہے، ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں

اسلام ٹائمز: وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان کے اخبار اہرنوت نے اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار لیور بین شاول کے لکھے ہوئے ایک مضمون میں اسرائیلی صیہونی حکومت کے مستقبل کی تاریک اور خوفناک تصویر پیش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اگلے دو سالوں میں مکمل طور پر تباہی کے راستے طے کر لے گا۔ ان کے بقول، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض سیکورٹی یا سیاسی بحران نہیں ہے، بلکہ ایک صیہونی ریاست کی بقا کے لئے حقیقی خطرہ ہے، جو صہیونی منصوبے کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ بین شاول اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

خاموش فرار: تباہی کی علامت
تجزیہ کار مقبوضہ علاقوں کے اندر روزمرہ کے مناظر کو ظاہر کرتا ہے: کہ 
- یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے ٹکٹ تیزی سے فروخت ہو رہے ہیں۔
- سفارتخانے امیگریشن کی درخواستوں سے بھر گئے ہیں۔
- خاندان خاموشی سے اپنے اثاثے بیچ رہے ہیں۔
- اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔
- فلسطینی مزاحمت، نہ صرف فوجی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور سیاسی سطحوں پر بھی، "ناقابل تسخیر ریاست" کے افسانے کو جھٹلانے اور دنیا کے سامنے "اسرائیل" کو کمزور ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جانے والوں کا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
- ہم ہجرت نہیں کر رہے… ہم ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔
- وہ تلخ لہجے میں کہتا ہے کہ یہاں ایک بے اختیار فوج اور حیران و سرگرداں حکومت ہے۔ 

بین شاول پوچھتا ہے کہ ایسا کون سا ملک ہے جس کے دارالحکومت اور قصبے روزانہ بمباری کی زد میں ہیں اور ہم کوئی مناسب جواب نہیں دے سکتے؟، ایسی کون سی فوج ہے جو ہزاروں فضائی حملوں سے غزہ کو اپنے گھٹنوں کے بل نہیں لا سکتی؟۔ ان کی رائے میں صیہونی حکومت بے بس اور بے مقصد ہے اور وزراء کچھ حاصل کیے بغیر شور مچانے اور دھمکیاں دینے پر خوش ہیں۔

حماس نے ہمارے وہم کے بت توڑ دیئے ہیں:
تجزیہ کار کے خیال میں حماس اسرائیل کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے کی کمزوری اور خوف کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مغربی کنارے اور مقبوضہ علاقوں کے اندر غم و غصے کے شعلے بھڑکا رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج ہمارے پاس بغیر کسی منصوبے کے، بغیر کسی سمت کے، اور بغیر کسی اخلاقی جواز کے حکومت چل رہی ہے، ایک ایسی حکومت جو بچوں کو گرفتار کرتی ہے، شہریوں کو مارتی ہے، اور ساتھ ہی دنیا سے ان کاموں کی تعریف ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا۔ کرنے کی توقع بھی رکھتی ہے۔

محاصرہ شدہ مورچہ بند آبادیاں: ایک تاریک مستقبل کی نشانی
بین شاول کے مطابق اگلے دو سالوں میں اسرائیل کو دو میں سے ایک منظرنامے کا سامنا کرنا پڑے گا: یا ایک بند جزیرہ اور ایک مسلح یہودی قلعہ بننا جس کی بقا کا انحصار صرف اور صرف امریکی حمایت پر ہے۔ یا دوسروں کی زمینوں پر صیہونی قبضے کا مکمل خاتمہ اور یہ زمینیں ان کے اصل مالکان کو واپس کرنا۔

وہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے اختتام کرتا ہے کہ ہر نوآبادیاتی منصوبہ جو قتل و غارت اور جھوٹ پر بنایا گیا تھا منہدم ہو گیا، ہر وہ حکومت جو جبر پر کھڑی تھی، زوال پذیر ہو گئی، گھڑی چل پڑی ہے اور جب 'اسرائیل' گرے گا، اور وہ گر کر رہیگا، دنیا اس لمحے کو یاد رکھے گی، جب ایک ایٹمی طاقت نے اپنی انسانیت کھو دی اور اپنا سب کچھ ہی کھو دیا۔

یہ مضمون صہیونی معاشرے میں گہری نفسیاتی اور سیاسی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک ایسی تقسیم جو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی جانب سے ہم آہنگی ظاہر کرنے کی کوششوں کے باوجود، حکومت کا مین اسٹریم میڈیا بھی اب صہیونی منصوبوں کے زوال کے قریب آنے کے بارے میں کھل کر بات کر رہا ہے۔  

متعلقہ مضامین

  • ہم ہجرت نہیں کر رہے، ڈوبتے ہوئے جہاز سے چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں
  • شاہد آفریدی سکسر کرکٹ کے آئیکون پلیئر بن گئے
  • صائم ایوب نے شاہد آفریدی کا ریکارڈ توڑ دیا، سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان
  • صمود فلوٹیلا سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ
  • لاہور،سڑک کے کنارے بیٹھے مزدور کسی مسیحا کے منتظر ہیں
  • وژن پاکستان 2030 سیلاب متاثرہ نوجوانوں کے لیے امید کی کرن ہے، شاہد آفریدی
  • پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کا حامی ہوں، ہاتھ نہ ملا کر نفرت وہاں سے شروع ہوئی، شاہد آفریدی
  • سوات اورگردونواح میں 4.6 شدت کازلزلہ
  • سربراہ جے یوآئی مولانا فضل الرحمان کا سعودی مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبداللہ الشیخ کے انتقال پر اظہار افسوس
  • حافظ نعیم الرحمن کا سعودی مفتی اعظم کی وفات پر اظہار افسوس