عدالتی فیصلے سے اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی: رانا ثناء
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللّٰہ نے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔
اپنے بیان میں رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ فیصلے کے نتیجے میں اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور ن ليگ بھی اپنے طور پر سادہ اکثریت کے قریب پہنچ جائے گی۔
رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ تحریکِ انصاف کو اپنے ہی فیصلوں کا نقصان ہوا ہے، جس جماعت نے خود الیکشن نہیں لڑا اس جماعت کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔
مخصوص نشستوں پر عدالتی فیصلہ مایوس کن اور نا انصافی ہے: بیرسٹر گوہربیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج آئين کی غلط تشریح ہوئی ہے ، وقت بتائے گا کہ یہ فیصلہ غلط ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 7 کے علاوہ دیگر ججز نے بھی نظرثانی کے موقف کو درست تسلیم کیا ہے ، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے، جو جماعت ایوان میں نہ ہو اس کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سنا دیا، 7 ججز کی اکثریت کے ساتھ نظرثانی درخواستیں منظور کرلی گٸیں۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام سول نظرِ ثانی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں، 12جولائی 2024ء کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا گیا۔
2 ججوں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے پہلے دن ہی ان درخواستوں کو مسترد کیا تھا، جسٹس صلاح الدین پنھور نے آج بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ : فائل فوٹوسپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 55 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں ججوں کی ٹرانسفر اور سینیارٹی کو چیلنج کیا تھا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کو ہائیکورٹ کے ایک جج کو دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے، یہ اختیار اپنی نوعیت میں آزاد ہے، تاہم کچھ حفاظتی اقدامات اور ضمانتیں بھی شامل ہیں۔
سویلین کے کورٹ مارشل کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیلوں کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا، تفصیلی اکثریتی فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدر مملکت کے یہ اختیارات آئین کے کسی اور آرٹیکل پر منحصر نہیں ہیں، بنیادی شرط یہ ہے جج کو ہائی کورٹ منتقل کرنے سے جج کی رضامندی لینا ضروری ہے، صدر مملکت چیف جسٹس پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے مشاورت کے پابند ہیں، ہنگامی حالات میں ذیلی آرٹیکل (3) کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد عارضی بڑھائی جا سکے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس کسی دوسری ہائی کورٹ کے جج کو مقررہ مدت کے لیے بلا سکتا ہے، یہ عمل بھی اسی صورت میں ممکن ہے جب بلائے جانے والے جج کی رضامندی حاصل ہو، صدر مملکت کی جانب سے منظوری چیف جسٹس پاکستان اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد دی جائے۔