وفاقی حکومت غیر سرکاری شعبے کے ملازمین کی کم ازکم اجرت میں اضافہ نہ کرسکی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ آجر حکومت کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں ہیں، یوں حکومت غریب ملازمین کی کم ازکم اجرت میں اضافہ نہیں کرسکتی۔ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اپنے ایک اجلاس میں وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ ملک بھر میں کم ازکم اجرت 50 ہزار روپے مقررکی جائے۔
وزارت خزانہ سے منسلک سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آیندہ مالیاتی سال کے بجٹ کے لیے اپنی سفارشات مکمل کر لیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ای او بی آئی کی پنشن 23 ہزار روپے ماہانہ مقررکی جائے۔ اسی طرح ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی ماہانہ پنشن 7 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی جائے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔ ایک اور سفارش میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زرعی آمدنی پر 10 فیصد انکم ٹیکس لگایا جائے اور تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے تک انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔
یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ 200 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے پر ڈیٹ سروس سرچارج نہ لگایا جائے۔ قائمہ کمیٹی نے ایک اور اہم سفارش کی ہے کہ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن قوانین کے تحت شریکِ حیات کے انتقال کے بعد بیوہ اور یتیم بچی کو جو تاحیات آدھی پنشن ملتی تھی، اس کی مدت 10 سال کردی گئی ہے۔ سینیٹ کی اس کمیٹی سے درخواست کی گئی تھی کہ پنشن کے قوانین میں یہ ترمیم غیر انسانی ہے۔
اس ترمیم کی بناء پر ہزاروں بیوائیں اور یتیم بچیاں اس آمدنی سے محروم ہوجائیں گی۔ سینیٹ میں پنشن کمیٹی کے کچھ اراکین کا خیال تھا کہ پنشن کے قوانین میں شامل ہونے والی یہ شق ختم کر دی جائے گی مگر کمیٹی کی ان سفارشات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیٹی نے اس معاملہ کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جوکہ مایوس کن ہے، مگر مجموعی طور پر سینیٹ کی کمیٹی نے جامع سفارشات تیارکی ہیں مگر حکومت نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ بیشتر سفارشات کو قبول نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے عظیم اتفاق رائے کے نتیجے میں یہ بجٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوجائے گا مگرکمیٹی کی یہ سفارشات ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کریں گی۔
وفاق کے زیر انتظام اسلام آباد میں کم از کم اجرت 37 ہزار روپے اور سندھ میں بھی کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ہے جب کہ پنجاب میں کم از کم اجرت 40 ہزار روپے اور خیبر پختون خوا میں کم از کم اجرت 36 ہزار روپے مقرر ہے۔ بلوچستان میں یہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اسلام آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی عملی طور پر یہی صورتحال ہے۔ حکومت کے پاس کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے ایک پورا نظام موجود ہے۔ ہر شہر کی انتظامیہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کرائے۔
ڈویژن کا کمشنر اور ضلع کا ڈپٹی کمشنر براہِ راست اس کا ذمے دار ہے۔ ہر صوبہ میں محکمہ محنت موجود ہے۔ محکمہ محنت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ دکان سے لے کر بڑے کارخانے تک میں کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کرائے۔ محکمہ محنت کے انسپکٹر ہر بازار سے لے کر تمام صنعتی اداروں میں فیکٹریوں کا معائنہ کرنے کے پابند ہیں، یہ انسپکٹر لیبر سے متعلق تمام قوانین پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں ۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ انسپکٹر لیبر قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جرمانہ عائد کرسکتے ہیں۔
لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر محکمہ محنت کئی سخت اقدامات بھی کرسکتا ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کے اعلانات کے باوجود اب لیبر ڈپارٹمنٹ بھی ’’چمک‘‘ کی بناء پر اپنے اصل مقاصد سے ہٹ گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے انکشاف ہوا ہے کہ صوبہ سندھ کی 80 فیصد صنعتیں یا ادارے کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہیں کرتے۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس امر پر مایوسی کا اظہارکیا گیا کہ محکمہ محنت کم ازکم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ نثار کھوڑو کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سندھ سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (SESSI) کو ہدایت کی گئی کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کی گئی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کا محکمہ محنت اور اس کے ذیلی ادارے لیبر قوانین پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں۔
یہی صورتحال پنجاب اور خیبر پختون خوا صوبوں کی ہے۔ ان صوبوں میں بھی غریب مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں جن اداروں نے پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ کی خدمات حاصل کی ہیں ان کمپنیوں کے گارڈز کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ اسی طرح وفاق کی وزارتوں اور خود مختار اداروں میں ہزاروں افراد ڈیلی ویجز پرکام کررہے ہیں۔ بعض اداروں میں تو چپڑاسیوں کے علاوہ کلرکوں تک کو بھی ڈیلی ویجز پر ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ یہ غریب افراد افسرانِ بالا کی مہربانی سے روزانہ ملازمت پر آتے ہیں، اگر افسر ناراض ہوجائے تو پھر بغیر کسی نوٹس کے ملازمت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس طرح شدید مہنگائی کے اس دور میں اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کے تحت نجی شعبہ کے ملازمین کی ماہانہ پنشن 10 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
یہ 10 ہزار روپے اتنے کم ہیں کہ ایک ریٹائرڈ شخص یا غریب زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ ای او بی آئی کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔ ای او بی آئی کا دائرہ کار بہت زیادہ پھیلا ہوا ہونا چاہیے۔ محض تنخواہ لینے والے ملازمین ہی نہیں بلکہ روزانہ اجرت حاصل کرنے والے افراد کو بھی اس کے دائرے میں شامل ہونا چاہیے، ای او بی آئی کے نظام میں کئی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر پرائیوٹ اسکولوں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ جب ریٹائرمنٹ کے قریب اپنی پنشن لینے جاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے آجر نے ریکارڈ جمع نہیں کرایا یا اس آجر نے اپنے حصے کی رقم جمع نہیں کرائی۔
اصولی طور پر تو ای او بی آئی کے متعلقہ افسر کو اس ادارے پر جس نے اپنے ملازم کا ریکارڈ یا رقم جمع نہیں کرائی جرمانہ عائد کرنا چاہیے لیکن بجائے اس ادارے پر جرمانہ عائد کرنے کے ان خواتین اساتذہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ادارے سے ریکارڈ لے کر آئیں ۔ وفاقی محتسب کے دفتر میں ای او بی آئی کے خلاف اس نوعیت کی درجنوں عرض داشتیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔ حکومت کو ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ ای او بی آئی کے قانون کے مطابق ہر آجر کو اپنے تمام ملازمین کی تفصیلات ای او بی آئی کو فراہم کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ ای او بی آئی کی کنٹری بیوشن ہر سال جمع کروانی چاہیے۔ جو آجر اس قانون پر عمل نہ کرے، اس کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔
سینیٹ کی کمیٹی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے کی جو سفارشات کی ہیں وہ موجودہ معاشی بدحالی کے دور میں انتہائی اہم ہیں۔ حکومت کو ہر صورت سینیٹ کی اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے۔ سینیٹ کی خزانہ کی قائمہ کمیٹی نے کسی حد تک اپنا فرض پورا کیا ہے، یہ اراکین قابلِ ستائش ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد سرکاری ملازمین کی او بی آئی کے قائمہ کمیٹی لیبر قوانین ہزار روپے کمیٹی نے سینیٹ کی کی گئی کے لیے گیا ہے میں یہ
پڑھیں:
ملک بھر میں بجلی کے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب مکمل کرکے جلد رپورٹ پیش کی جائے؛ وزیراعظم
ویب ڈیسک : وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے شعبے میں نقصان کا باعث بننے والی جینکوز کی نیلامی اور ملک بھر میں اسمارٹ الیکٹرک میٹر کی تنصیب جلد مکمل کرنے کی ہدایت دے دی، کہنا ہے کہ ملک بھر میں بجلی کے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب مکمل کرکے جلد رپورٹ پیش کی جائے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت بجلی شعبے کی جاری اصلاحات پر جائزہ اجلاس ہوا ، جس میں بجلی کے شعبے میں جاری اصلاحات اور اس سے ہونے والے فائدے سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
لاہور میں 262 ٹریفک حادثات ؛340 افراد زخمی
وزیراعظم نے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے شعبے کی اصلاحات سے عوام کو ریلیف اور صنعتوں کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ شہباز شریف نے ہدایت کی کہ بجلی شعبے میں نقصان کرنے والی جینکوز کی نیلامی کے دوسرے اور تیسرے مرحلوں کو بھی جلد مکمل کیا جائے اور نیلامی کے عمل کو دیگر نجکاری کے پروگرامز کی طرح میڈیا پر براہ راست نشر کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ ملک بھر میں بجلی کے اسمارٹ میٹرز کی تنصیب مکمل کرکے جلد رپورٹ پیش کی جائے۔
یکم محرم الحرام کو عام تعطیل کا اعلان
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے، ملک بھر میں الیکٹرک وہیکل چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کے عمل کو تیز کیا جائے، بجلی کی ترسیل اور ٹرانسمیشن سسٹم میں بہتری کیلئے مجوزہ منصوبوں پر کام جلد شروع کیا جائے۔
شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے ٹیوب ویلز کی سولرآئزیشن کا عمل مکمل ہو چکا جس سے بلوچستان کے زرعی شعبے کی پیداور میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے حالیہ موسم سرما میں بجلی صارفین کو نرخوں میں سہولت فراہم کی، قابل تجدید توانائی کے ماحول دوست اور کم لاگت منصوبوں کو جلد مکمل کرکے عوام کو مزید سہولت دینے کیلئے اقدامات اولین ترجیح ہیں۔
برطانیہ کی ہائی کمشنر جین میریٹ کی زرداری ہاؤس آمد، بلاول اور آصفہ بھٹو سے ملاقات
اجلاس کو بجلی شعبے کی پیدوار، ترسیل اور تقسیم کے حوالے سے جاری اصلاحات اور منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر فرسودہ اور نقصان میں چلنے والے جینکوز کی نیلامی کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا جس سے قومی خزانے کو 9.05 بلین روپے کی آمدن ہوئی جبکہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کو مکمل کرنے کیلئے اقدمات تیزی سے جاری ہیں۔
شرکا کو بتایا گیا کہ شفافیت کے عنصر کو یقینی بنانے کیلئے نیلامی کی کاروائی براہ راست نشر کی جاتی ہے، 36 آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کے نرخوں کے حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں مجموعی طور ملکی خزانے کو 3.69 ٹریلین روپے کی بچت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس نے فردو پر اسرائیلی اٹامک انرجی کمیشن کی رپورٹ شئیر کر دی
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ملکی صنعتوں کو ٹرانسمیشن لائن پر لا کر انہیں بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے جس سے صنعتی پیدوار، برآمدات اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، بجلی ٹرانسمیشن کمپنی NTDCL کو تحلیل کرکے انرجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی اور نیشنل گرڈ کمپنی تشکیل دی گئی ہیں اور انکو انکی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک بھر میں الیکٹرک وہیکلز کے فروغ کیلئے چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کا عمل بھی تیزی جاری ہے، الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز کے قیام کی درخواستوں کو وصول کرنے کیلئے آن لائن پورٹل فعال ہے جس کے ذریعے 120 درخواستیں وصول کی جا چکیں جس میں سے 48 درخواستوں کو عبوری رجسٹریشن کی دستاویزات تفویض کی جاچکیں، اسی طرح پہلے سے موجود چارجنگ اسٹیشنز کی ریگیولرائیزیشن کا عمل بھی مکمل ہو چکا.
شہرِ قائد میں مسلسل زلزلوں کی وجوہات، زلزلہ پیما مرکز نے تفصیلات جاری کر دیں
بریفنگ میں بتایا گیا کہ بجلی شعبے کی بہتری کیلئے پاور پلاننگ اور مانیٹرنگ کمپنی PPMC کا قیام عمل میں لایا جاچکا. ملک کی بیشتر تقسیم کار کمپنیوں کے انتظامی بقرڈز کی تشکیل نو کی جاچکی جو کہ اب مکمل طور پر فعال ہیں.
وزیرِ اعظم کو مٹیاری، مورو، رحیم یار خان، غازی بروتھہ، فیصل آباد ٹرانسمیشن لائنز کے حوالے سے بھی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کی فنانسنگ میں مقامی و بین الاقوامی اداروں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
اجلاس کو آئندہ چھ برس میں 2.4 ٹریلین کے گرشی قرضے کے مکمل خاتمے کیلئے بھی لائحہ سے آگاہ کیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ بجلی کی بچت کیلئے انرجی ایفیشنٹ پنکھوں کے فروغ کے حوالے سے بینکوں سے آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کا لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے تاکہ متوسط طبقے کے صارفین بجلی بچا کر بلوں میں کمی سے مستفید ہو سکیں۔
شرکا کو بریفنگ دی گئی کہ بجلی کی بچت کیلئے انرجی ایفیشنٹ عمارتوں کی تعمیر کے حوالے سے بھی روڈ میپ تیار ہے اور صوبائی حکومتوں سے بھی اس پر عملدرآمد پر مشاورت مکمل ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزراء سردار اویس خان لغاری، احد خان چیمہ، علی پرویز ملک، مشیر وزیرِ اعظم محمد علی، وزیرِ مملکت بلال اظہر کیانی، نیشنل کوارڈینیٹر پاور ٹاسک فورس لیفٹیننٹ جنرل ظفر اقبال، وزیرِ اعظم کے کوارڈینیٹر مشرف زیدی اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔