آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے گیس 50 فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دیدی
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کیلئے حکومت نے گیس 50 فیصد مہنگی کرنے کی منظوری دیدی WhatsAppFacebookTwitter 0 28 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بظاہر ایک اقدام کے طور پر گیس کی قیمت میں 50 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے یکم جولائی سے تمام صارفین کے لیے گیس کے مقررہ چارجز میں اضافے کی منظوری دے دی۔
غیر گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں 29 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد اضافی 72 ارب روپے جمع کرنا ہے۔
جمعہ کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ای سی سی کے اجلاس میں 856 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی بھی منظوری دی گئی۔
تاہم کمیٹی چینی کی درآمد پر فیصلہ نہ کر سکی اور اس معاملے کو قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کے وزیر کی سربراہی میں ایک سیاسی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
گیس کی قیمتوں میں اضافہ
مالی سال 26-2025 کے لیے گیس کی نئی قیمتوں کی ساخت کے حوالے سے سمری پیٹرولیم ڈویژن نے پیش کی تھی۔
وزارت نے محفوظ گھریلو صارفین کے لیے 56 فیصد اور مقررہ چارجز میں 37 فیصد اضافے کی منظوری مانگی تھی۔
تاہم، ای سی سی نے گھریلو صارفین کے لیے مقررہ چارجز میں 50 فیصد اضافے کی منظوری دی اور کچھ بوجھ بڑے صارفین، بجلی کے شعبے اور صنعت پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
بجلی کے شعبے کے لیے گیس کی قیمت میں اضافے سے بجلی کے اوسط نرخ پر فی یونٹ 0.
محفوظ صارفین کے لیے مقررہ چارجز 50 فیصد بڑھا کر 400 روپے سے 600 روپے کر دیے گئے۔
اسی طرح، غیر محفوظ گھریلو صارفین کے لیے مقررہ چارجز بھی 50 فیصد بڑھا کر ایک ہزار سے ایک ہزار 500 روپے کر دیے گئے۔
ای سی سی نے محفوظ اور غیر محفوظ گھریلو صارفین کے لیے ایک سلیب فائدہ بھی ختم کر دیا، اب صارفین سے ہر زمرے کی پہلی شرح کے مطابق چارجز وصول کیے جائیں گے۔
بلک صارفین کے لیے گیس کے نرخ 9.5 فیصد بڑھا کر 2 ہزار 900 روپے سے 3 ہزار 175 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) کر دیے گئے۔
بجلی کے شعبے کے لیے گیس کی قیمتیں 29 فیصد بڑھا کر ایک ہزار 50 سے ایک ہزار 350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یوکر دی گئیں، حالانکہ پیٹرولیم ڈویژن نے 25 فیصد اضافے کی تجویز دی تھی۔
اسی طرح، صنعتی (پروسیس) صارفین کے لیے نرخ 9.3 فیصد بڑھا کر 2 ہزار 150 روپے سے 2 ہزار 350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کیے گئے۔
وزارت خزانہ کے بیان میں کہا گیا کہ اوگرا قانون کے تحت، حکومت کو قیمتوں میں تبدیلی کی اطلاع اوگرا کے تعین کے 40 دن کے اندر دینا لازم ہے، تاکہ لاگت کی ریکوری اور ریگولیٹری تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ سبمیشن آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ ساختی اہداف سے بھی ہم آہنگ ہے، جن میں کیپٹو پاور ٹیرف کا معقول بنانا اور کراس سبسڈی کے بجائے کم آمدنی والے صارفین کے لیے براہ راست ٹارگٹ معاونت شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ای سی سی نے گھریلو صارفین کو تحفظ دینے کے لیے صرف مقررہ چارجز میں رد و بدل کیا ہے، تاکہ اثاثہ جات کی لاگت کی ریکوری ممکن ہو۔
کمیٹی نے بلک صارفین، قدرتی گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس اور صنعت کے لیے گیس کی قیمتوں میں اوسطاً 10 فیصد اضافے کی اجازت دی۔
اس اقدام سے مالی سال 26-2025 کے لیے اوگرا کی جانب سے مقرر کردہ 888 ارب 60 کروڑ روپے کی آمدنی کی ضرورت پوری ہو جائے گی، جس میں ایس این جی پی ایل کے لیے 534 ارب 46 کروڑ روپے اور ایس ایس جی سی ایل کے لیے 354 ارب 20 کروڑ روپے شامل ہیں۔
یکم فروری سے نافذ موجودہ گیس قیمتوں کی بنیاد پر، مالی سال 2026 کے اختتام پر دونوں سوئی کمپنیوں کی متوقع آمدنی 847 ارب 71 کروڑ روپے تھی، ایس این جی پی ایل کے لیے 493 ارب 54 کروڑ روپے اور ایس ایس جی سی ایل کے لیے 354 ارب 18 کروڑ روپے، یہ اعداد و شمار 41 ارب روپے کے خسارہ کو ظاہر کرتے ہیں۔
ای سی سی کی طرف سے منظور کی گئی گیس کی قیمتوں میں رد و بدل کا مقصد اسی 41 ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنا ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن نے خبردار کیا کہ حکومت پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ کراس سبسڈی کے خاتمے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے براہ راست، بجٹ سے امداد فراہم کرنے کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہے۔
چینی کی درآمد
ای سی سی نے مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کو مستحکم کرنے کے لیے چینی کی درآمد کے مسئلے پر بھی غور کیا، اور اس حوالے سے مزید غور و خوض کے لیے ایک 10 رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی۔
یہ کمیٹی غذائی تحفظ کے وزیر کی سربراہی میں کام کرے گی، اور اس میں وزیر تجارت، معاون خصوصی برائے خارجہ امور، سیکریٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر شامل ہوں گے، جو اپنی سفارشات ای سی سی کو پیش کریں گے۔
ای سی سی نے ترسیلات زر کی ترغیبی اسکیموں میں مجوزہ تبدیلیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ کو ہدایت دی کہ وہ 31 جولائی تک منصوبہ پیش کریں۔
اجلاس میں وزارت خزانہ کی جانب سے چھوٹے کسانوں اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے لیے رسک کور اسکیم کے اجرا کی تجویز پر اصولی منظوری بھی دی گئی۔
ای سی سی نے نوٹ کیا کہ یہ اسکیم ممکنہ طور پر 7 لاکھ 50 ہزار نئے زرعی قرض دہندگان کو رسمی مالیاتی نظام میں لائے گی، اور 3 سال کے عرصے میں 300 ارب روپے کے اضافی قرضوں کا باعث بنے گی۔
اجلاس میں مجموعی طور پر 856 ارب روپے کی 14 ضمنی گرانٹس کی منظوری دی گئی۔
ان میں اہم ترین گرانٹ 832 ارب روپے وزارت خزانہ کو قرض کی واپسی کے لیے دی گئی، 15 ارب 84 کروڑ روپے وزارت دفاع کو ملازمین کی تنخواہوں، واجبات کی ادائیگی اور بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپوں میں شہید ہونے والوں کے لیے وزیراعظم کے پیکیج کے تحت واجبات کی ادائیگی کے لیے دیے گئے، جب کہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کو سپارکو کے لیے 5 ارب 50 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرابو کے پاس بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، ایران کا اسرائیل پر طنزیہ وار ’غزہ میں جنگ بندی آئندہ ہفتے ممکن ہے‘؛ ٹرمپ کا دعویٰ پلاٹ، گاڑی کی خریداری کیلئے ایف بی آر سے اہلیت سرٹیفکیٹ لازمی قرار دینے کا فیصلہ نظر ثانی درخواستیں منظور ،تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ،آئینی بینچ نے فیصلہ سنا دیا وفاقی بجٹ 2025-26کی جمہوری طریقے سے منظوری خوش آئند ہے ،عاطف اکرام شیخ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، بجٹ کی منظوری کے بعد 1600 پوائنٹس کا اضافہ بھارت خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سر پرست ہے، فیلڈ مارشل سید عاصم منیرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف کے کی منظوری کرنے کی کو پورا
پڑھیں:
حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر
حکومت نے ملک کی پہلی قومی صنعتی پالیسی (این آئی پی) وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کر دی ہے، جس میں صنعتی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی اور مینوفیکچرنگ شعبے کی بحالی کے لیے اصلاحات کی تجاویز دی گئی ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ نے وزارتِ صنعت و پیداوار کو ہدایت کی ہے کہ نئی پالیسی میں شامل مراعات کے لیے پہلے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے منظوری حاصل کی جائے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم اور آئی ایم ایف نمائندوں کے درمیان اس ماہ کے آخر میں ملاقات متوقع ہے، جس میں مختلف شعبوں کے لیے تجویز کردہ مراعات کے سالانہ مالیاتی بوجھ پر بات چیت ہوگی۔
پالیسی کا ہدف 2030 تک 60 ارب ڈالر کی برآمدات، 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور سالانہ 8 فیصد مینوفیکچرنگ گروتھ حاصل کرنا ہے۔ اس کا مقصد صنعتی مسابقت، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں توسیع کے لیے ایک جامع روڈ میپ فراہم کرنا ہے۔
اہم رکاوٹیں
نیشنل انڈسٹریل پالیسی میں صنعتی ترقی میں رکاوٹ بننے والی مختلف ساختی اور پالیسی سطح کی مشکلات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں میکرو اکنامک عدم استحکام، پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال، مہنگی صنعتی زمین، ضرورت سے زیادہ ضابطہ بندی، غیر معتبر اور مہنگی بجلی کی فراہمی، طویل المدتی قرضوں تک محدود رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔
پالیسی کے مطابق، مقامی صنعتوں کو بلند شرحِ سود اور سرمایہ جاتی منڈیوں تک محدود رسائی کا سامنا ہے، سرمایہ کاروں کے حقوق کے کمزور تحفظ اور دیوالیہ پن کے ناقص نظام نے بینکوں کو قرضوں کی تنظیمِ نو کے لیے ناکافی اختیارات دے رکھے ہیں۔
اسی طرح، غیر مساوی ٹیکسیشن بھی صنعتی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، مینوفیکچرنگ شعبے پر بھاری ٹیکس بوجھ ہے، جب کہ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، تھوک و خوردہ تجارت جیسے شعبے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس سے صنعتی منصوبوں کا منافع متاثر ہوتا ہے۔
مینوفیکچرنگ اداروں کو زرمبادلہ کی قلت کا بھی سامنا ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے کے لیے ڈالرز تک رسائی میں اکثر تاخیر ہوتی ہے، بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع واپس بھیجنے میں دشواری پیش آتی ہے، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) متاثر ہوتی ہے۔
پالیسی میں معیارات پر کمزور عمل درآمد کو برآمدات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مصنوعات کے معیار اور سرٹیفیکیشن نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ خواتین صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر نظر انداز کی جا رہی ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ خواتین صنعتی دائرے کے حاشیے پر ہیں اور ان میں احساسِ شمولیت کی کمی ہے، اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے اور زیادہ خواتین صنعت کاروں کو آگے لایا جانا چاہیے۔
مالی و ساختی اصلاحات
پالیسی میں ایک شفاف اور قابلِ پیش گوئی ٹیکس نظام تجویز کیا گیا ہے، جو آئی ایم ایف اصلاحات کے مطابق ہو، اس میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور تمام شعبوں سے ان کے جی ڈی پی میں شراکت کے مطابق ٹیکس وصولی کی سفارش کی گئی ہے۔
پالیسی میں کارپوریٹ انکم ٹیکس (سی آئی ٹی) کی موجودہ 29 فیصد شرح کا بھی جائزہ لینے اور اسے علاقائی اوسط (26 فیصد) کے برابر لانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ برآمدی مسابقت بہتر ہو۔ سپر ٹیکس کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ صنعتوں پر بوجھ کم کیا جا سکے۔
مشکلات کا شکار صنعتوں کی بحالی کے لیے پالیسی میں نیشنل انڈسٹریل ری وائیول کمیشن (این آئی آر سی) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو کمپنیوں کی بحالی اور ریگولیٹری تعاون کی نگرانی کرے گا۔
اسی طرح، دانشورانہ املاک کے حقوق (آئی پی آر) کو مضبوط بنانے کے لیے پیٹنٹ کوآپریشن ٹریٹی میں شمولیت اور انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او) کی صلاحیت میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ جعل سازی اور غیر قانونی نقل کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مزید برآں، پالیسی میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کی جانب سے وصول کیے جانے والے زیادہ بندرگاہی چارجز میں کمی کی سفارش کی گئی ہے تاکہ برآمدی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔
حکام کے مطابق پالیسی کی منظوری کے بعد یہ صنعتی تبدیلی کا فریم ورک بنے گی، جس کے ذریعے بہتر طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔
تاہم، پالیسی کے نفاذ کا انحصار آئی ایم ایف کی منظوری پر ہوگا، کیوں کہ پاکستان اپنی موجودہ معاشی استحکام کے پروگرام کے تحت مالیاتی وعدوں کا پابند ہے۔