مخصوص نشستوں کے فیصلے میں آئین کو پامال کیا گیا، رؤف حسن
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن کا کہنا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کیا گیا ہے، تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، مشکلات کم نہیں ہوئیں بلکہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، جب حکومت یا ریاست کا ایک ہی مقصد ہو کہ آپ نے کسی جماعت کو ختم کرنا ہے تو ریاست کے پاس بڑے انسٹرومنٹس ہوتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حالیہ فیصلے میں آئین، قانون اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروانے کے لیے اسلام آباد کے لارجر بینچ کا آرڈر موجود ہے، اس کے باوجود حکومت اجازت نہیں دے رہی۔
ماہر بین الاقوامی قوانین احمر بلال صوفی نے کہا کہ پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ سمپلیمنٹل ایوارڈ ہے، یعنی اس کو آپ کہہ لیں کہ انٹیرم آرڈر ہے، جب یہ میٹر پینڈنگ تھا اور پاکستان اس معاملے کو پرماننٹ کورٹ آف آربیٹریشن میں لے کر گیا ہوا تھا، کچھ سالوں سے اور ساتھ ساتھ نیوٹرل ایکسپرٹ کے سامنے بھی معاملہ پینڈنگ تھا۔ جب معطل کرنے کا نوٹس انڈیا نے دیا اور اعلان کیا تو اس کے بعد کورٹ نے ازخود یہ چیز محسوس کی کہ اس اعلان کا لیگل اثر پینڈنگ پروسیڈنگز پر کیا ہے اس کا معائنہ کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کورٹ نے ایک پروسیجرل آرڈر نہیں 15 جاری کیا جس میں اپنے اوپر یہ ٹاسک لیا کہ دونوں ملکوں سے پوچھے کہ وہ اس نوٹس پر کیا اپنا موقف رکھتے ہیں، پاکستان نے کافی تفصیلی دلائل دیے،کورٹ نے اپنے ایوارڈ میں حوالہ دیا ہے کہ انڈیا نے بالکل خاموشی رکھی،کوئی رسپانس نہیں آیا، ان کی جانب سے کوئی پیش ہوا نہ جواب داخل کیا۔
ایکسپریس کے بیوروچیف پشاور شاہد حمید نے کہا کہ سوات کے افسوسناک واقعہ پر کے پی حکومت نے چار افسر معطل کیے، ڈپٹی کمشنر کو ہٹایا گیا۔ چیف سیکرٹری نے وقوعہ کا دورہ کیا، تمام معاملات کو دیکھا اور ہدایات جاری کیں۔ اب دیکھنا ہوگاکہ صوبائی حکومت، وزیر اعلیٰ کے پی کیا کارروائی کرتے ہیں ، خیبر پختونخوا میں ٹورسٹ پولیس موجود ہے، ریسکیو1122کا ادارہ ہے دیگر حکام موجود ہیں لیکن اس وقت جائے وقوعہ پر کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ
پڑھیں:
ججز ایک دوسرے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے‘عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت)عدالت عظمیٰ نے سابق ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کمیٹی ممبران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دے دی ہے اور اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ججز ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کارروائی نہیں کرسکتے، ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ آئین کے تحت کوئی بھی جج اپنے ہم منصب جج کے خلاف آرٹیکل 204 کے تحت کارروائی نہیں کر سکتا اور ایسے معاملات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہے۔عدالت نے کہا کہ ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور اگر ان کے خلاف بدانتظامی یا مس کنڈکٹ کا الزام ہو تو اس کی انکوائری اور کارروائی صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے۔فیصلے کے مطابق کسی ریگولر بینچ کو ایسا اختیار حاصل نہیں، ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری 2025ء کے احکامات اب مؤثر نہیں رہے کیونکہ پارلیمنٹ کی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ایسے مقدمات خود بخود آئینی بینچز کو منتقل ہو گئے تھے اور ریگولر بینچ ان کی سماعت کا اختیار کھو بیٹھا تھا۔واضح رہے کہ معاملہ اس وقت پیدا ہوا جب کسٹمز ایکٹ 1969 کی شق 221-A(2) کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ریگولر بینچ نے مقدمات کو جزوی زیر سماعت قرار دے کر دوبارہ اپنے سامنے لگانے کی ہدایت کی تاہم فائلوں کی فکسنگ نہ ہونے پر ریگولر بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل) نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کیا اور توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔نذر عباس نے اس نوٹس کے خلاف اپیل دائر کی جسے عدالت عظمیٰ نے سنتے ہوئے قرار دیا کہ ججز کے مابین اس طرح کی کارروائی انصاف کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ریگولر بینچ نے آئینی شقوں کے برعکس کارروائی جاری رکھی اور کمیٹی ممبران کے خلاف توہینِ عدالت کا عمل شروع کیا جو غیر پائیدار اور غیر مؤثر تھا۔عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایسے اقدامات سے عدلیہ کے ادارتی وقار کو نقصان پہنچتا ہے اور ججز کے درمیان ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے، اس لیے عدالتی فیصلے کے مطابق کمیٹی ممبران کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی غیر مؤثر اور کالعدم قرار پائی اور اس حوالے سے جاری ہونے والے تمام احکامات ختم ہوگئے۔