سی پی سی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے ’’ فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و ضوابط‘‘ پر نظر ثانی
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
بیجنگ: سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے پولیٹیکل بیورو نے ” سینٹرل کمیٹی کے فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و ضوابط” پر نظر ثانی کرنے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا۔ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پھنگ نے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں نشاندہی کی گئی کہ سی پی سی سینٹرل کمیٹی کے تحت فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کا قیام ، سی پی سی سینٹرل کمیٹی کی اہم اور بڑے فرائض پر متحد مرکزی قیادت کو بہتر بنانے اور اہم کاموں پر عملدرآمد کو فروغ دینے کے لئے ایک اہم ادارہ جاتی انتظام ہے۔ ” سینٹرل کمیٹی کے فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کےقوائد و ضوابط ” کا اجراء، اس ادارے کے قیام، فرائض اور آپریشن کو مزید معیاری بنانے اور بڑے کاموں پر اعلیٰ سطحی ڈیزائن، مربوط کوآرڈینیشن، مجموعی فروغ اور نگرانی اور نفاذ کے افعال اور کرداروں کو بروئے کار لانے کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: غور و خوض اور کوا رڈینیشن کے ادارے سی پی سی سینٹرل کمیٹی سینٹرل کمیٹی کے فیصلہ سازی ادارے کے
پڑھیں:
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ میں ناظم امتحانات کیخلاف قواعد تعیناتی
کراچی سندھ کے تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیر اعلیٰ سے صوبائی وزارت بورڈز و جامعات کو منتقل ہوتے ہی پہلی خلاف ضابطہ تقرری کردی گئی ہے۔
میرٹ اور قواعد کو بالائے طاق رکھ کر لاڑکانہ بورڈ کے انسپکٹر آف انسٹی ٹیوشن احمد خان چھٹو کا کراچی کے انٹرمیڈیٹ بورڈ میں تبادلہ کر دیا گیا۔
احمد خان چھٹو کو کراچی انٹر بورڈ کی اہم ترین پوسٹ پر ناظم امتحانات مقرر کردیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر بورڈز و جامعات اسمٰعیل راہو کے اس اقدام سے انٹر بورڈ کے ملازمین میں بےچینی پھیل گئی ہے، ادھر کراچی کے بورڈز میں اندرون سندھ سے مزید تبادلوں و تقرریوں کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پاس جب تک تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی رہی، انہوں نے سب سے پہلے سرچ کمیٹی کے ذریعے سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز میں میرٹ پر چیئرمین مقرر کیے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے میرٹ پر ناظم امتحانات، سیکریٹری اور آڈٹ افسران کے تقرر کے لیے باقاعدہ قواعد تیار کیے ہی تھے کہ ان سے کنٹرولنگ اتھارٹی لے لی گئی اور پھر بورڈز میں خلاف ضابطہ تقرریوں کا آغاز ہوگیا۔