آپ ڈینگی، ہیپاٹائٹس سی، چیچک اور ایڈز وائرس کو مانتے ہیں، تو پھر۔۔۔
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
عالمی وبا کووڈ کے بعد بہت سی کہانیاں زبان زد عام ہوئیں۔ کچھ کے مطابق کووڈ ایک سازش تھی، جس کے تحت بے شمار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کچھ کے نزدیک کووڈ وائرس اور فلو میں کوئی خاص فرق نہیں۔ کچھ نے کووڈ ویکسین کو ان تمام بیماریوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جو کووڈ کے بعد دیکھنے میں آئیں، آ رہی ہیں اور جن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ان میں سر فہرست ہارٹ اٹیک اور کینسر ہیں۔
ہم آپ کو ایک تحقیق سنانا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے کچھ بدنام زمانہ وائرسسز کے بارے میں بات کرلیں۔
دنیا میں سب سے قدیم اور سب سے خطرناک Rabies وائرس ہے جسے ہم سب پاگل کتے کے کاٹنے سے ہونے والی ہلاکت کے نام سے جانتے ہیں ۔ کتے کے کاٹنے کے بعد ریبیز وائرس اگر جسم میں داخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کر دے تو پھر کوئی علاج ممکن نہیں۔ علامات ظاہر ہونے سے پہلے پہلے بچاؤ کے ٹیکے لگوائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹروں کی سیاست!
ایڈز کا نام اسی کی دہائی میں سننے کو ملا جب یہ بیماری ہومو سیکشوئل مردوں کے حوالے سے سامنے آئی اور سب نے توبہ توبہ کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اس زمانے میں جس کے جسم میں بھی وائرس گیا، اس کی قوت مدافعت کو ختم کرتے ہوئے جان لے کر ہی ٹلا۔ آج ہم اس وائرس کو HIV کے نام سے جانتے ہیں۔
تاریخ میں رقم ہے کہ اس وائرس کا آغاز تقریباً ایک صدی پہلے کمیرون کے جنگلوں میں ہوا۔ بے شمار لوگ اس کا نشانہ بنے لیکن علاج تقریباً 70 برس کے بعد وجود میں آیا اور آج ایڈز وائرس اس طرح جاں لیوا نہیں رہا۔
لیکن جان لیجیے کہ جس کو بھی ایڈز ہو وہ دواؤں سے کنٹرول تو ہو جاتا ہے لیکن اس کے جسم سے یہ Retrovirus ختم نہیں ہوتا۔
ہیپاٹائٹس سی وائرس کا نام بھی اجنبی نہیں۔ ایک بار جسم میں داخل ہو جائے تو جگر کا بیڑا غرق کرتے ہوئے کالے یرقان میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کا علاج بھی دریافت ہو چکا ہے۔
ڈینگی بخار کا نام سے تو وطن عزیز میں بچہ بچہ واقف ہے۔ مچھروں کی مدد سے پھیلنے والا یہ وائرس خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد گھٹاتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور ہر برس بڑے طمطراق سے مچھروں پر سواری کرتے ہوئے لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔
پولیو وائرس اسپائنل کارڈ نروز کو نشانہ بناتے ہوئے تباہ کرتا ہے، نتیجتاً ذہن اور جسم کے درمیان رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ٹانگ کام کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اس سے بچنے کی ویکسین بنائی جا چکی ہے مگر اسے بھائی لوگوں نے متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پولیو ویکسین ورکرز کا جو حال کیا گیا ہے وہ سر پیٹنے کے لیے کافی ہے۔ پولیو وائرس کا نشانہ بننے والے بے شمار لوگ ہمارے بیچ موجود ہیں۔
چیچک کے وائرس کی کہانی ہم سب جانتے ہیں کہ کس قدر محنت اور کوشش سے اسے ختم کیا گیا لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ یہ پھر سے زندہ ہونے کی کوشش میں ہے۔ اس وائرس کا شکار بننے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔
کانگو وائرس کا نام ہم نے بچپن میں سنا جب پنڈی کے سرجن ڈاکٹر متین ایک مریض کا آپریشن کرنے کے بعد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ کانگو وائرس خون کو اس قدر پتلا کر دیتا ہے کہ جسم کے اندر شریانیں پھٹ جاتی ہیں اور خون بہنے لگتا ہے۔
مزید پڑھیے: بچے کے دل کی دھڑکن ابھی باقی ہے !
ہیپاٹائٹس بی وائرس اور فلو وائرس کا نام بھی اجنبی نہیں۔ دونوں کی ہلاکت انگیزی کا گو زیادہ چرچا نہیں ہوا مگر سائنس کی دنیا میں سب جانتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔
آج کل برڈ فلو وائرس کے پھیلاؤ کا چرچا ہے۔
روٹا وائرس بچوں میں اسہال کی بیماری کے حوالے سے جاں لیوا ہے۔
اس کے علاوہ ایبولا وائرس، ماربرگ واہرس اور ہیٹا وائرس بھی دنیا کےان وائرسسز میں شامل ہیں جنہیں خطرناک مانا جاتا ہے۔
اب آئیے کووڈ کی طرف جس کا آغاز سنہ 2019 میں ہمارے سامنے ہوا، دنیا میں اس وبا سے مرنے والوں کو ہم نے دفن ہوتے دیکھا، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب بھی اس کے وجود سے انکار پر لوگ مصر ہیں۔ اس کے اثرات کو ویکسین کے کھاتے میں ڈال کر وہ شتر مرغ بننا چاہتے ہیں جو اپنا سر ریت میں چھپا کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔
ایک بات اور جان لیجیے کہ دنیا میں ابھی تک صرف اور صرف چیچک کے وائرس کو ختم کیا گیا ہے، باقی سب وائرسسز اسی طرح موجود ہیں اور بار بار پلٹ کر حملہ کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں اور آج کی اداکارائیں !
اب ہمارا سوال سن لیجیے، اگر آپ ڈینگی وائرس، ریبز وائرس، ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس، ایڈز وائرس اور چیچک وائرس کے وجود اور نقصان سے انکار نہیں کرتے تو پھر کووڈ کی ہلاکت انگیزی کو کیوں جھٹلا رہے ہیں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایڈز ڈینگی کووڈ 19 ہیپاٹائٹس وائرس کرتے ہوئے جانتے ہیں دنیا میں وائرس کا کے بعد کا نام
پڑھیں:
زمین کے ستائے ہوئے لوگ
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
کیر ولین نے کہا ہے ” کوئی بھی اس کہانی کا انجام نہیں جانتا یہ کہانی جو آپ کی زندگی کی کہانی ہے لیکن اس کا انجام کیا ہے اس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیسے شب و روز گزار رہے ہیں ” ۔ فرانز فینن بیسو ی صدی کا ایک ایسا نفسیا تی معالج،
فلاسفر اورسر گر م سیاسی کارکن تھا جس کی ذات سے ایک بڑی تعدا د میں سیاسی لیڈروں اور انقلابی تحریکوں نے استفادہ کرتے ہوئے
اپنے علاقوں اور ملکوں میں انقلاب کی آبیا ری کی ہے اس کی کتاب ”زمین کے ستا ئے ہوئے ” تمام دنیا کے انقلابیوں کے لیے بائبل کا
درجہ رکھتی ہے ۔یہ کتاب 18 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔صرف انگریزی زبان میں اس کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ اس کتاب کا دیبا چہ مشہور فلسفی ژاں پال سارتر نے لکھا ہے ۔فینن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ہم مقامی آبادی کو ہر شہر میں دو حصوں میں
تقسیم کیا ہوا دیکھتے ہیں۔ اول ! ایک ایسا علاقہ جو امیر کامیاب اور بارسو خ لوگوں کی رہائش گاہ ہوتی ہے ۔جہاں خود غیر ملکی حاکم بھی
رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ دوم ! غرباء مجبور اور محکوم مقامی لوگوں پر مشتمل خستہ حال آباد ی۔ ان حالات میں معاشی بنیادوں پر انسانوں کی
طبقاتی تقسیم ازخود نسلی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔ فینن کا خیا ل ہے کہ ظالم اپنے جبر کو قابل قبول بنانے کے لیے اکثر مذہب کا سہارا لیتا ہے۔
خدا کے نام پر نسلی امتیا ز کو قدرت کا قانون کہہ کر وہ اپنی خو د ساختہ فوقیت کو قانونی رنگ پہنا لیتاہے اور غریب عوام کو یہ چکمہ دینے میں
کامیاب ہوجاتا ہے کہ خدا دنیا وی آسائشوں کو پسند نہیں کرتا اور اس کی رضایہ ہی ہے کہ جنت میں غریبوں کا مستقل ٹھکانہ ہو۔لیکن
انقلابی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی تصوراتی جنت کے بجائے حقیقت کا سامنا کر نا چاہتے ہیں ۔وہ
احمقوں کی جنت میں رہنے کے بجائے زمین کے دکھ اورسکھ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فینن ہمیں بتا تا ہے کہ نو آبادیاتی طاقتیں ایسی زبان
استعمال کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ جانور، درندوں اور غیر مہذب افراد کی طرح جانے پہنچانے جاتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کے
لباس ، روایات اور مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مقامی آبادکی تضحیک کی جائے اور انہیں غیر انسانی
ثابت کیاجائے ۔نوآبادیاتی طاقتیں ایسا رو پ دھار لیتی ہیں جیسے وہ مقامی لوگوں کو مذہب یا جمہوریت کے نام پر ان کی سیاسی اور
روحانی اصلاح کا بیٹر ا اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کا یہ رویہ مقامی لوگوں کے لیے نا راضگی اور جھنجھلا ہٹ کا سبب بنتاہے اورپھر یہ ہی
ناراضگی بتدریج نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آزادی کی جدو جہد میں شریک ہوتے ہیں تو یہ ہی نفرت بدلے کی آگ
میںبہہ نکلتی ہے اور پھر کئی دہائیوں اور صدیوں سے جمع غصے کا لا وا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھا رلیتا ہے اور اس آگ میں زبان ، کلچر ،
مذہب غرض یہ کہ طاقت کے نام پر تھو پی گئی ہر روایت بھسم ہوجاتی ہے۔ اس طرح عوام ان زیادتیوں کا حساب چکتا کردیتے ہیں۔فینن
کا خیال ہے کہ مقامی لوگوں کی یہ بغاوت بتدریج انقلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور سیاسی شعور کے ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اپنے
علاقے اور عوام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیا ر ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک خو ش آئند مستقبل کے لیے اپنے آج کو دائو پر لگا دیتے
ہیںکیونکہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے عدل و انصاف پر مبنی سماج کاقیام چاہتے ہیں ۔مقامی بستیوں کے مجبور و محکوم لوگ جن کی
ہڈیوں میںغصے کا لاوا دہک رہا ہوتا ہے، سب سے پہلے اپنے ہی لوگوں پر اپنے غصے اور برتری کی دھا ک بٹھانا چاہتے ہیں۔یہ وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مشغو ل ہوتے ہیں۔
فینن اس جھنجھلا ہٹ اور غصے کو سمجھنے میں قاری کی مدد کرتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیںکہ کس طرح یہ نفرت جذباتی اور سماجی طور پر
داخلی رخ اختیا ر کرلیتی ہے اور بالا خر جب یہ نفرت ظالم کے خلا ف تشدد کی شکل اختیا ر کرتی ہے تو مظلوم اپنے منفی جذبات کے زیر اثر لا
شعوری طورپر اس جلاد کا روپ دھا رلیتا ہے جو کسی وقت ظالم کا حقیقی روپ تھا ۔مقامی باشندے دبے اور پسے ہوئے انسان ہوتے ہیں
جن کا ایک ہی سپنا ہوتاہے کہ کسی طوروہ ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان میں بھی وہ ہی
حالات پیدا ہو چکے ہیں جس کا ذکر فینن نے اپنی کتا ب میں کیا ہے ؟ فرق صرف اتنا سا ہے کہ ہمار ے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم
خود ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر ملکی نوآباد یاتی طاقت۔ کیا آج ہر عام پاکستانی کی ہڈیوں میں غصے کا لاوا نہیں پک رہا ہے؟ کیا آج ہر عام
پاکستانی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصا فیوں اور ظلم کی وجہ سے نفرت کی آگ میں نہیں سلگ رہا ہے؟ کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ کئی دہائیوں
سے جمع غصے کا لاوا ایک بھیانک تشدد کا روپ دھار چکا ہے ؟کیا عام لوگ چھوٹے چوروں اورلٹیروں کے خلاف اپنی عدالت لگا کر انہیں
سزائیں نہیں دے رہے ہیں ؟کیا 25کروڑ عوام اپنے ساتھ ہونے والی تمام ناانصافیوں کا حساب چکتا کرنے کا نہیں سو چ رہے ہیں؟
کیا وہ طاقت کے زور پر تھوپی گئی ہربوسید ہ روایت کو بھسم کرنے کا ارادہ نہیں کررہے ہیں؟ کیاپاکستان میں بہت جلد ایک نیا سورج نہیں
اگنے والا ہے ؟کیا نئے پاکستان کا جنم نہیں ہونے والا ہے؟ معصوم انسانوں کا معاشی استحصال کر نے والوں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھانے
والوں ان کی زندگیو ں میں زہر گھولنے والوں ان کے آنگنوں میں ذلت بھر نے والوں انہیں جنت کے نام پر بہلانے پھسلانے والوں
مذہب کی آڑ میں انہیں تقسیم کرنے والوں انہیں بے وقوف بنا کر اپنا الوسیدھا کرنے والوں معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کیاتم امید
رکھتے ہو کہ جب معصوم لوگوں کی محصو ر آوازیں آزاد ہونگیں تو وہ تمہاری شان میں قصیدے کہیں گی ؟جب صدیوں سے سِیے ہوئے
ہونٹ کھلیں گے تو وہ کیا تمہاری تعریف کر یں گے؟ جب ان کے سر جنہیں تم نے زمین تک جھکا رکھا تھا اٹھیں گے تو ان کی آنکھوں میں
تحسین و آفرین کی شمعیں جلیں گی؟ جب عام لوگ اپنی جھکی ہوئی کمروں کو سیدھا کرکے کھڑے ہونگے اور تمہاری طرف دیکھیں گے تو تم
ان کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے شعلوں کو خود دیکھ لوگے تو پھر یاد رکھنا تمہیں پناہ کی کوئی جگہ نصیب نہیں ہوگی ۔ اور نہ ہی تمہیں معافی مل
سکے گی۔ یہ بات بھی اچھی طرح سے یاد رکھنا کہ اب وہ دن دور نہیں ہے۔
٭٭٭