Express News:
2025-09-18@12:38:33 GMT

بلوچستان کے تین ملین بچے تعلیم سے محروم: ذمے دار کون؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں تین ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں بلکہ ایک مکمل نسل کی تعلیمی محرومی کا اعلان ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 15 ہزار 165 اسکول ہیں جن میں سے 80.

1 فیصد پرائمری اسکول ہیں۔ پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کے بارے میں تیارکی جانے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں 85 فیصد اسکول غیر فعال ہیں۔ حکومتِ بلوچستان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے کچھ اسکولوں کو فعال کردیا گیا ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 542 اسکول مزید بند ہوگئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں سال بند ہونے والے اسکولوں کی تعداد 3152 تھی۔ صوبہ میں سب سے زیادہ 254 اسکول پشین میں بند ہیں۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ بگٹی میں سب سے کم 13 اسکول غیر فعال ہیں۔ خضدار میں 251، قلات میں 179، قلعہ سیف اﷲ میں 179، بارخان میں 174 ، اور ان میں 161 اور دارالحکومت کوئٹہ میں 152 اسکول بند ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ صوبہ میں 16 ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔

اب حکومت نے اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی طرح پورے بلوچستان میں 135 انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کالجز ہیں، جب کہ پورے بلوچستان میں صرف 9 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس وقت بلوچستان کا مالیاتی بجٹ 1020 بلین ہے جس میں سے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے 640 بلین روپے رکھے گئے ہیں اور اسکولوں کے لیے 19.8 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں خواندگی کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 42 فیصد کے قریب ہے۔ مردوں میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد اور خواتین میں 32.80 فیصد بتایا گیا ہے۔ خواندگی کی یہ شرح تینوں صوبوں، پاکستان کے زیرِ انتظامی کشمیر اورگلگت بلتستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بلوچستان کے ماہرینِ تعلیم کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت نے خواندگی کی شرح کے اعداد و شمار میں کوئی ملاوٹ کی ہے۔

حقیقی طور پر بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے بڑے پیمانہ پر بچے اسکول نہ جانے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا وبا، بے روزگاری کے علاوہ تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کا طریقہ کار ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کے مقابلے میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد خاطر خواہ حد تک کم ہے جس کی بناء پر پرائمری اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لیے سیکنڈری اسکول میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ۔

اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول پاس کرنے والے 70 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں رپورٹنگ کرنے والے کچھ صحافیوں کی یہ رائے ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں نے ایسے افراد کو استاد کی حیثیت سے منتخب کر کے ملازمتیں دیں جو تدریس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان افراد کو سیاسی وجوہات کی بناء پر ملازمتیں دی گئیں۔ یوں بہت سے اسکول اساتذہ میسر نہ آنے کی بناء پر بند ہوگئے۔

 بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی قائم ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں قائم ہونے والی اس حکومت میں بلوچستان میں پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی اور میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اسی طرح تعلیمی بورڈ بھی قائم کیا گیا، مگر اس حکومت کو 9 ماہ بعد رخصت کردیا گیا۔ 2013 میں ڈاکٹر مالک کی قیادت میں نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دور میں بلوچستان میں مادری زبان میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھا کر 24 فیصد کردیا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے امور کے ماہرین کا بیانیہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں منتخب نہ ہونا ہی بنیادی المیہ ہے۔

یہی وہ بنیادی المیہ ہے جو بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ گھوسٹ ووٹوں سے بنیں، عوام کی نمایندگی کرنے والے چہرے غائب ہوگئے اور ان کی جگہ کٹھ پتلی حکمران لائے گئے۔ جب حکمران عوام کے اصل نمایندے نہیں ہوتے تو ان کی ترجیحات بھی عوام نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، بلوچستان میں جمہوریت پنپ نہ سکی بلکہ عوامی ادارے بھی دن بہ دن کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان اداروں کا زوال سب سے زیادہ شعبہ تعلیم پر پڑا۔ وہ تعلیمی نظام جو کسی بھی قوم کے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، بلوچستان میں بوسیدہ، ناکارہ اور فرسودہ بنا دیا گیا۔

آج بلوچستان میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، ان کے لیے نہ تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں، نہ بنیادی سہولیات اور نہ ہی ایک محفوظ تعلیمی ماحول۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں عوام کو جوابدہ نہیں ہیں۔ انھیں عوام کے مستقبل سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر ہوتی ہے، اور یہی سوچ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ بلوچستان کے بچوں کا مستقبل آج اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب تک حقیقی معنوں میں عوامی حکومت قائم نہیں ہوتی، جب تک ووٹ کی حرمت بحال نہیں کی جاتی اور جب تک حکمران عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے تب تک نہ تعلیم سنور سکتی ہے، نہ صحت، نہ روزگار اور نہ ہی بلوچستان کی تقدیر۔ بلوچستان کو جمہوریت، شفاف الیکشن اور عوامی نمایندوں کی حکومت کی اشد ضرورت ہے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال، مگر ترقی کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ خطہ ہے، آج ایک ایسے موڑ پرکھڑا ہے جہاں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ ناقابلِ تردید ہو چکا ہے۔ یہ فاصلہ صرف جغرافیائی یا ترقیاتی نہیں، بلکہ جذباتی، سیاسی اور اعتماد کا ہے۔ کچھ بلوچوں کی ریاست سے دوری محض کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل ہے، جس کی جڑیں سیاسی ناانصافی، معاشی استحصال جیسے عوامل میں پیوست ہیں۔ بارہا وعدے کیے گئے، کئی پیکیج دینے کے اعلانات ہوئے، مگر زمینی حقائق جوں کے توں رہے۔

اس بداعتمادی نے محرومیوں کو جنم دیا۔ تعلیمی ادارے ویران، اسپتال خالی، سڑکیں کچی اور نوجوانوں کے لیے نہ روزگار ہے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی واضح راستہ۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسائل پر بات کرنے والے افراد بھی لاپتہ ہیں، تو وہ اپنی آواز دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی خاموشی محرومی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ریاست کی پالیسیوں میں بلوچستان کے عوام کی رائے نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ان کا نفاذ بلوچستان جیسے علاقوں پر ہوتا ہے۔ یہی دوری، یہی احساسِ بیگانگی اور یہی سیاسی نظر اندازی آج بلوچ عوام کو پرے دھکیل رہی ہے۔

بد اعتمادی اب فقط ایک سیاسی اصطلاح نہیں رہی، بلکہ ایک زندہ سچائی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت کو بلوچستان کی صورتحال پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ان فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیے جائیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول بلوچستان کے بلوچستان کی بچے اسکول کرنے والے سے زیادہ عوام کے گیا ہے کہ ایک

پڑھیں:

جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج

پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔

اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔

آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔

بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔

جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔

ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔

چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔

اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔

جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • حکومت بلوچستان کے پاس گندم کا ذخیرہ ختم، بحران کا خدشہ
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • اسپین نے اسرائیل سے 825 ملین ڈالر کا اسلحہ معاہدہ منسوخ کردیا
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی