بلوچستان کے تین ملین بچے تعلیم سے محروم: ذمے دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
بلوچستان، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، بدقسمتی سے تعلیمی میدان میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں تین ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں بلکہ ایک مکمل نسل کی تعلیمی محرومی کا اعلان ہے۔ بلوچستان میں اس وقت 15 ہزار 165 اسکول ہیں جن میں سے 80.
ایک اور رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں 542 اسکول مزید بند ہوگئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں سال بند ہونے والے اسکولوں کی تعداد 3152 تھی۔ صوبہ میں سب سے زیادہ 254 اسکول پشین میں بند ہیں۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ بگٹی میں سب سے کم 13 اسکول غیر فعال ہیں۔ خضدار میں 251، قلات میں 179، قلعہ سیف اﷲ میں 179، بارخان میں 174 ، اور ان میں 161 اور دارالحکومت کوئٹہ میں 152 اسکول بند ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم نے کہا کہ صوبہ میں 16 ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔
اب حکومت نے اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اسی طرح پورے بلوچستان میں 135 انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کالجز ہیں، جب کہ پورے بلوچستان میں صرف 9 یونیورسٹیاں ہیں۔ اس وقت بلوچستان کا مالیاتی بجٹ 1020 بلین ہے جس میں سے غیر ترقیاتی بجٹ کے لیے 640 بلین روپے رکھے گئے ہیں اور اسکولوں کے لیے 19.8 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں خواندگی کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 42 فیصد کے قریب ہے۔ مردوں میں خواندگی کا تناسب 50 فیصد اور خواتین میں 32.80 فیصد بتایا گیا ہے۔ خواندگی کی یہ شرح تینوں صوبوں، پاکستان کے زیرِ انتظامی کشمیر اورگلگت بلتستان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بلوچستان کے ماہرینِ تعلیم کی یہ متفقہ رائے ہے کہ حکومت نے خواندگی کی شرح کے اعداد و شمار میں کوئی ملاوٹ کی ہے۔
حقیقی طور پر بلوچستان میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے ایک افسر نے بڑے پیمانہ پر بچے اسکول نہ جانے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا وبا، بے روزگاری کے علاوہ تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کا طریقہ کار ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کے مقابلے میں مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد خاطر خواہ حد تک کم ہے جس کی بناء پر پرائمری اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کے لیے سیکنڈری اسکول میں داخلہ حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے پانچویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ۔
اعداد و شمار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول پاس کرنے والے 70 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں رپورٹنگ کرنے والے کچھ صحافیوں کی یہ رائے ہے کہ برسر اقتدار حکومتوں نے ایسے افراد کو استاد کی حیثیت سے منتخب کر کے ملازمتیں دیں جو تدریس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ ان افراد کو سیاسی وجوہات کی بناء پر ملازمتیں دی گئیں۔ یوں بہت سے اسکول اساتذہ میسر نہ آنے کی بناء پر بند ہوگئے۔
بلوچستان کی پہلی جمہوری حکومت 70ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی قائم ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی قیادت میں قائم ہونے والی اس حکومت میں بلوچستان میں پہلی یونیورسٹی قائم کی گئی اور میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اسی طرح تعلیمی بورڈ بھی قائم کیا گیا، مگر اس حکومت کو 9 ماہ بعد رخصت کردیا گیا۔ 2013 میں ڈاکٹر مالک کی قیادت میں نیشنل پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دور میں بلوچستان میں مادری زبان میں تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ تعلیم کا بجٹ بڑھا کر 24 فیصد کردیا گیا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ بلوچستان کے امور کے ماہرین کا بیانیہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں منتخب نہ ہونا ہی بنیادی المیہ ہے۔
یہی وہ بنیادی المیہ ہے جو بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔ یہاں حکومتیں عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ گھوسٹ ووٹوں سے بنیں، عوام کی نمایندگی کرنے والے چہرے غائب ہوگئے اور ان کی جگہ کٹھ پتلی حکمران لائے گئے۔ جب حکمران عوام کے اصل نمایندے نہیں ہوتے تو ان کی ترجیحات بھی عوام نہیں ہوتے۔ نتیجتاً، بلوچستان میں جمہوریت پنپ نہ سکی بلکہ عوامی ادارے بھی دن بہ دن کمزور ہوتے چلے گئے۔ ان اداروں کا زوال سب سے زیادہ شعبہ تعلیم پر پڑا۔ وہ تعلیمی نظام جو کسی بھی قوم کے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، بلوچستان میں بوسیدہ، ناکارہ اور فرسودہ بنا دیا گیا۔
آج بلوچستان میں لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، ان کے لیے نہ تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں، نہ بنیادی سہولیات اور نہ ہی ایک محفوظ تعلیمی ماحول۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں عوام کو جوابدہ نہیں ہیں۔ انھیں عوام کے مستقبل سے زیادہ اپنی کرسی کی فکر ہوتی ہے، اور یہی سوچ تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ بلوچستان کے بچوں کا مستقبل آج اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جب تک حقیقی معنوں میں عوامی حکومت قائم نہیں ہوتی، جب تک ووٹ کی حرمت بحال نہیں کی جاتی اور جب تک حکمران عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے تب تک نہ تعلیم سنور سکتی ہے، نہ صحت، نہ روزگار اور نہ ہی بلوچستان کی تقدیر۔ بلوچستان کو جمہوریت، شفاف الیکشن اور عوامی نمایندوں کی حکومت کی اشد ضرورت ہے، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالا مال، مگر ترقی کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ خطہ ہے، آج ایک ایسے موڑ پرکھڑا ہے جہاں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ ناقابلِ تردید ہو چکا ہے۔ یہ فاصلہ صرف جغرافیائی یا ترقیاتی نہیں، بلکہ جذباتی، سیاسی اور اعتماد کا ہے۔ کچھ بلوچوں کی ریاست سے دوری محض کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک تاریخی تسلسل ہے، جس کی جڑیں سیاسی ناانصافی، معاشی استحصال جیسے عوامل میں پیوست ہیں۔ بارہا وعدے کیے گئے، کئی پیکیج دینے کے اعلانات ہوئے، مگر زمینی حقائق جوں کے توں رہے۔
اس بداعتمادی نے محرومیوں کو جنم دیا۔ تعلیمی ادارے ویران، اسپتال خالی، سڑکیں کچی اور نوجوانوں کے لیے نہ روزگار ہے اور نہ ہی مستقبل کا کوئی واضح راستہ۔ عوام جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے مسائل پر بات کرنے والے افراد بھی لاپتہ ہیں، تو وہ اپنی آواز دبانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی خاموشی محرومی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ ریاست کی پالیسیوں میں بلوچستان کے عوام کی رائے نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور ان کا نفاذ بلوچستان جیسے علاقوں پر ہوتا ہے۔ یہی دوری، یہی احساسِ بیگانگی اور یہی سیاسی نظر اندازی آج بلوچ عوام کو پرے دھکیل رہی ہے۔
بد اعتمادی اب فقط ایک سیاسی اصطلاح نہیں رہی، بلکہ ایک زندہ سچائی ہے۔ بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت کو بلوچستان کی صورتحال پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وافر مقدار میں فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ان فنڈز کے شفاف استعمال کو یقینی بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نوجوانوں کو اعتماد میں لینے کے لیے حقیقی اسٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیے جائیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کہ بلوچستان میں پرائمری اسکول بلوچستان کے بلوچستان کی بچے اسکول کرنے والے سے زیادہ عوام کے گیا ہے کہ ایک
پڑھیں:
ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
پرانے زمانے میں ایک ملک ہواکرتا تھا اس کا نام اپنی پیداوار کے باعث ’’الوستان‘‘ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ اس میں دنیا کے بہت بڑے بڑے ’’الو‘‘ پیدا ہوتے تھے جو الو ہونے کے ساتھ الو کے فرزند بھی ہوتے تھے لیکن انھوں نے اس کا نام ’’یونان‘‘ رکھا تھا ،اس کی سب سے بڑی فصل یا پیداوار یا پراڈکٹ الو ہوا کرتے تھے جو خواہ مخواہ بات بے بات کے فلسفوں کی چیونٹیاں ، بٹیر اورمرغے لڑایا کرتے تھے ، ان الوؤں کے الوپن کااندازہ اس سے لگائیں کہ ان میں سے جو سب سے بڑا تھا سقراط نام کا۔ اس کے سامنے حکومت نے تین شرطیں رکھیں ،نمبر ایک، وطن چھوڑدو، نمبردو اپنے منہ کا زپ بندکرلو۔ نمبرتین۔ زہرکا پیالہ نوش جان کرو۔
اب اگر کوئی پاکستانی دانادانشور ہوتا، تو پہلی شرط مان کر کسی مرغن چرغن ملک میں جا بیٹھتا اورحکومت کے وظیفے پر گل چھرے اڑاتا ، ہمارے حضرت پروفیسر ڈاکٹر علامہ کی طرح یاالطاف بھائی کی طرح اور یا باباجی ڈیموں والی سرکار کی طرح۔ یا منہ بند کرکے کسی لگژری بنگلے میں محو استراحت ہوجاتا ۔ لیکن الو تھا ، اس لیے زہرکا پیالہ ہی پی گیا۔مستے نمونہ ازخروارے یا ایک چاول سے دیگ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باقی الو بھی ایسے ہی سن آف اوول ہی ہوں گے ۔
اسی سقراط بقراط کی طرح ایک اورتھا۔’’دمیقراط‘‘ ڈیموکریٹس۔ اس نے خواہ مخواہ ساری عمر لگا کرایک تو ’’ایٹم‘‘ کانظریہ دیا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے یعنی اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ اوردوسرا ڈیموکریسی اورمعرب ہو کر اس کے نام کی رعایت سے جمہوریت بنا جس لفظ کی ابتداء ہی ڈیم سے ہوتی ہے اس کے ساتھ صرف فول لگایا جا سکتا ہے ۔اس کے دونوں تحفوں کاحشرنشر ہم دیکھ چکے اس نے جس ذرے کو ایٹم یعنی ناقابل تقسیم کہا تھااسے یاروں نے ایسا تقسیم کردیا کہ اس کے پیٹ سے دو بچے نکالے ایسے دو بچے کہ ایک نے ہیروشیما کو گل وگلزار کردیا اوردوسرے نے ناگاساکی کو باغ وبہار کردیا…اوراس کا دوسرا تحفہ ڈیماکریسی۔
زباں پہ بارخدایا یہ کس کانام آیا
اس تحفے کا بعد میں لوگوں نے خلاصہ یوں کیا کہ عوام پر…عوام کی حکومت ۔ عوام کے ذریعے ان تین باتوں کو ہرطرح سے آگے پیچھے کیجیے ۔مطلب وہی نکلے گا لیکن اس میں یہ بات چھپائی گئی ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام پر عوام کے ذریعے۔ میں اصل جزواعظم عوام نہیں بلکہ حکومت ہے اورجب یہ منحوس نام کہیں آجاتا ہے وہاں چارپائی کی سی حالت ہوجاتی ہے اوریہ فقرہ ہے بھی چارپائی کی طرح ، چارپائی میں آپ’’سر‘‘ اورپیر کسی بھی طرف کیجیے ، سینٹر چارپائی کے بیچ میں آئے گا ۔
اس فقرے میں بھی حکومت چاہے کسی طرف سے ہوکسی بھی شکل وصورت میں ہو۔حکومت حکومت ہوتی ہے اورمحکوم محکوم ہوتے ہیں اس نام ہی میں ساری اہلیت ہے ،کیوں کہ حکومت میں جو بھی لوگ آجاتے ہیں وہ ’’ہم‘‘سے ’’میں‘‘ ہوجاتے ہیں اورسارے فساد کی جڑ یہ ’’میں‘‘ ہے جس کاموجد اوربانی مبانی ’’ابلیس‘‘ تھا اورجب سے اس دنیا میں ’’ہم‘‘ کے مقابل ’’میں‘‘ آیاہے تب سے خرابیاں شروع ہوئی ہیں۔
خیر اب یہاں سے ایک اورسلسلہ شروع ہوتا ہے اس الو ئے یونان دمیقراط کے ایٹم کاجوحشر نشر لوگوں نے کیا وہ اپنی جگہ ۔۔اس دوسرے تحفے جمہوریت کاجو تیاپانچہ کردیاگیا ہے وہ بڑی دلچسپ کہانی ہے ، اس کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ خود دمیقراط اگر آجائے تو وہ بھی اسے پہچان نہیں پائے گا بلکہ شاید خود یہ جمہوریت بھی اگر آئینے کے سامنے کھڑی ہوجائے توحیران ہوکر پوچھے گی، آپ کون؟
اورپھر ماشاء اللہ دورجدید کے یونان پاکستان میں تو اس کو اتنے گھنگھرو اورگہنے پہنائے گئے کہ چیونٹی سے ہاتھی بن گئی ۔
ایک انگریزی کاناول نگار ہے ایچ جی ویلزنام ہے شاید۔ اس نے بڑے عجیب وغریب ناول لکھے ہیں وہ مشہورناول (نادیدہ آدمی) بھی اس کاہے جس پر ہرزبان میں فلمیں بھی بنی ہیں اوربھی بہت ہیں ان میں ، ایک ناول ایسا بھی ہے جس میں ایک ضبطی سائنس دان اورسرجن ایک الگ جزیرے میں جانوروں پر تجربے کررہا ہے، سرجن کے ذریعے وہ ایک جانور کے اعضاء دوسرے میں پیوند کرتا ہے۔ آخر وہ ایک ایسا جانور بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس میں کئی جانوروں کے اعضاء پیوند کیے ہیں ، شیر ، گیدڑ، بھیڑ، بھیڑیا ، ہاتھی ، گھوڑے کتے سب کے اعضاء اس میں فٹ کیے گئے ہیں ، یوں ایک عجیب الخلقت چیز بنا کر وہ بڑا خوش ہوتا ہے لیکن یہ خوشی اسے راس نہیں کیوں کہ جانور اسے پیوند شکم کردیتا ہے ۔
دیکھیے تو پاکستانی جمہوریت بھی اسی جانورجیسی بن گئی ہے ، اس میں قبائلی وحشی سرداروں کے بھی گن ہیں ، مطلق العنانی بادشاہوں کی بھی صفات ہیں ، آمریت کی نشانیاں بھی ہیں، دینی ریاست کی بھی خوبیاں ہیں، لادینیت سے بھی بھرپو رہے ، بیلٹ بھی ہے بلٹ بھی ، ڈاکو لٹیروں کاچال چلن بھی ہے ، گینگسٹروں کے کردار بھی ہیں ، ٹریجیڈی اورساتھ ہی کامیڈی بھی ہے ، اوراب تو بانی کی مہربانی سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی ہوگیا ہے ، مطلب یہ کہ پنساری کی دکان یا جنرل اسٹورہے ، سب کچھ یہاں مل جاتا ہے اگر ڈھونڈئیے تو ، سوائے جمہوریت کے یا عوام کی خوشنودی کے ۔
غیرازیں نکتہ کہ حافظ زتو ناخوشنود است
درسراپائے وجودت پنرے نسیت کہ نسیت
ترجمہ: سوائے اس کے کہ حافظ تم سے خوشنود نہیں باقی دنیا میں ایسی کوئی صفت نہیں جوتم میں نہ ہو۔
اس جمہوریت کو ویسے تو کئی نام دیے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بہترنام سیلکٹڈ یا کنٹرولڈ جمہوریت ہوگا کیوں کہ اس میں صرف وہی محدود اشرافیہ حصہ لے سکتی ہے جو ابتدائے آفرینش سے پندرہ فی صد ہوکر پچاسی فی صد پر سوارچلی آرہی ہے ۔
(جاری ہے)