40روز کی بچی کو زندہ نکال لیا گیا،سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلی سطح تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی تین دن میں رپورٹ پیش کرے گی
ڈائریکٹر ایس بی سی اے، ڈپٹی ڈائریکٹر، بلڈنگ انسپکٹر معطل ، صدر مملکت ، وزیراعظم ، محسن نقوی ، بلاول بھٹو اور گورنرسندھ کا گہرے رنج و غم کا اظہار

کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں کثیر المنزلہ رہائشی عمارت گرنے سے 10افراد جاں بحق اور خواتین سمیت متعدد زخمی ہوگئے، مزید افراد کے ملبے میں دبے ہونے کا خدشہ ہے، ملبے سے 40روز کی بچی کو بھی زندہ نکال لیا گیا، امدادی کارروائیاں جاری ہیںجبکہ ، کراچی کے جناح ہسپتال اور سول ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، وزیراعلی سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی،سندھ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلی سطح کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی جو تین دن میں رپورٹ پیش کرے گی۔۔واقعے کے فوری بعد ریسکیو ادارے، پولیس اور رینجرز کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ملبہ ہٹانے کے لیے ہیوی مشینری کو طلب کیا گیا تھا تاہم ترجمان ریسکیو نے کہاکہ گلیاں تنگ ہونے سے ہیوی مشینری نہیں جاسکتی۔ترجمان ریسکیو کے مطابق عمارت میں6خاندان رہائش پذیرتھے جبکہ متاثرہ عمارت سے متصل عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے اور متصل عمارت کی سیڑھیاں بھی گر گئیں ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق عمارت میں کئی خاندان مقیم تھے اور گرنے سے قبل عمارت کی حالت خستہ تھی۔ انتظامیہ نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ امدادی کاموں میں خلل نہ ڈالیں۔حکام نے بتایاکہ رہائشی عمارت کے گرنے سے 10افرادکی لاشوں اور12 افراد کو زخمی حالت میں نکالا گیا جن میں 3 خواتین شامل ہیں، زخمیوں کو ٹراما سنٹر سول ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں طبی انتظامیہ نے بتایا کہ دو زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ ریسکیو حکام کے مطابق زخمیوں میں 50 سال کی فاطمہ، 35 سال کی چندا، 35 سال کی سنیتا، 25 سال کا راشد اور 45 سال کا یوسف بھی شامل ہیں۔حکام کے مطابق جاں بحق افراد میں 55 سال کی حوربائی، 35 سال کا وسیم اور 28سال کا پریم شامل ہیں۔ریسکیو ترجمان نے بتایا کہ عمارت کے ملبے تلے 25 سے 30 افراد دبے ہو سکتے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔گرنے والی عمارت سے ملحق 2 اور 7 منزلہ عمارتوں کو بھی خالی کروالیا گیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ متعدد افراد رہائشی عمارت کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، تنگ گلیوں کے باعث ہیوی مشینری کے پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ڈی جی ایس بی سی اے اسحاق کھوڑو نے کہاکہ یہ عمارت خستہ حال تھی اور1979سے بھی پرانی تھی۔ واقعے کی رپورٹ بنائی جارہی ہے۔ دیکھ رہے ہیں خستہ حال پانچ سو چھبیس عمارتوں میں یہ شامل تھی یا نہیں۔لیاری میں پانچ منزلہ رہائشی عمارت گرنے کے افسوسناک واقعے کے بعد سندھ حکومت نے تحقیقات کے لیے اعلی سطحی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی کو تین روز میں انکوائری مکمل کرنے اور ذمہ دار افسران کی نشاندہی کر کے رپورٹ وزیرِ بلدیات کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر ایس بی سی اے، ڈپٹی ڈائریکٹر اور بلڈنگ انسپکٹر کو معطل کردیا۔وزیربلدیات نے تمام متعلقہ محکموں کو امدادی کام تیز کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے عمارت گرنے کے واقعے کا فوری نوٹس لے لیا۔ وزیراعلی نے واقعے پر گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔وزیراعلی سندھ نے ریسکیو اداروں کو ہدایت جاری کی کہ ملبے تلے دبے افراد کو جلد از جلد نکالا جائے اور زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کی جائے۔مراد علی شاہ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے کراچی بھر میں خستہ حال اور بوسیدہ عمارتوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔دوسری جانب گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریسکیو اداروں کو فوری امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ گورنر سندھ نے کہا کہ ملبے تلے دبے افراد کو بحفاظت نکالنا اولین ترجیح ہے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد و ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں۔لیاری میں پیش آنے والے حادثے پر صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ محسن نقوی اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی ہے۔ صدر مملکت نے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے فوری اور شفاف تحقیقات کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دکھ کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ حکومت متاثرہ خاندانوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کا اظہار کرتے ہوئے رہائشی عمارت سندھ حکومت صدر مملکت ملبے تلے کی ہدایت شامل ہیں کے مطابق نے واقعے سال کا سال کی کے لیے

پڑھیں:

دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی

کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟

میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔

کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔

پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔

مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔

لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔

یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔

کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔

یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

متعلقہ مضامین

  • خصوصی افراد کو ڈرائیونگ کی تربیت اور لائسنس دینے کا فیصلہ
  • سندھ بلڈنگ، سرجانی ٹاؤن ڈائریکٹر عامر کمال جعفری اور مافیا گٹھ جوڑ
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس لیک ہونے سے دھماکا‘6 افراد ہلاک
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس دھماکے سے 6 افراد ہلاک
  • اپردیر :رکن صوبائی اسمبلی کی گاڑی کھائی میں گرگئی، دوساتھیوں سمیت زخمی
  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس دھماکے سے 6 افراد جاں بحق
  • سندھ بلڈنگ، صدر ٹاؤن میں تعمیراتی مافیا سرگرم، رہائشی پلاٹوں پر قبضہ
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • کراچی، فائرنگ کے واقعات میں خاتون سمیت 2 افراد زخمی
  • کراچی: لیاری ایکسپریس وے پر نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے ایک شخص جاں بحق