برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک2 ہزا 62 کشمیری شہید ہوئے
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ان شہادتوں کے نتیجے میں 166خواتین بیوہ اور 413 بچے یتیم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران حریت رہنمائوں، نوجوانوں، صحافیوں، علمائے کرام اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت 41 ہزار 242 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے 8 جولائی 2016ء میں معروف نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کے ماورائے عدالت قتل کے بعد سے اب تک 2 ہزار 62 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ ان میں سے 337 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں یا دوران حراست شہید کیا گیا۔ برہان وانی کے نویں یوم شہادت کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ان شہادتوں کے نتیجے میں 166خواتین بیوہ اور 413 بچے یتیم ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران حریت رہنمائوں، نوجوانوں، صحافیوں، علمائے کرام اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت 41 ہزار 242 کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی فوجیوں، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے پرامن مظاہرین پر گولیوں، پیلٹ اور آنسو گیس کے گولوں سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کم سے کم 30 ہزار 112 کشمیری زخمی ہوئے۔ بھارتی فوجیوں نے برہان وانی کو 2016ء میں آج ہی کے دن ضلع اسلام آباد کے علاقے کوکر ناگ میں دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔ ان کے ماورائے عدالت قتل پر مقبوضہ علاقے میں کئی ماہ تک ایک زبردست عوامی احتجاجی تحریک چلی تھی جس دوران بھارتی فوجیوں نے فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے 150 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا تھا۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے مقبوضہ علاقے میں طاقت کے وحشیانہ استعمال، مواصلاتی بلیک آئوٹ اور بھارتی قابض فوج کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر حاصل استثنیٰ پر تشویش ظاہر کی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارتی فوجیوں کشمیریوں کو شہید کیا
پڑھیں:
کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔
حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔
دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔
اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔
انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔
تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔
انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔
فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔
Post Views: 5