پی ٹی آئی رہنما کو ہرجانہ کیس میں 10 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
پشاور:
عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کو ہرجانہ کیس میں 10 لاکھ روپے ادا کرنے کا حکم سنا دیا۔
سیشن کورٹ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کی جانب سے پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی کے خلاف ہرجانہ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے 11صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔
عدالت نے اسفندیار ولی خان کا ہرجانے دعویٰ منظور کر لیا اور پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی کو ایک ملین (10 لاکھ روپے) ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
درخواست گزار کے مطابق شوکت یوسفزئی نے 26/07/2019 کو پریس کانفرنس کے دوران اسفندیار ولی پر الزامات لگائے۔ شوکت یوسفزئی نے اسفندیار ولی پر الزام لگایا کہ انہوں نے پختونوں کے سروں کا سودا کیا۔ جس پر اسفندیارولی نے شوکت یوسفزئی کے خلاف ایک ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا۔
واضح رہے کہ شوکت یوسفزئی اس وقت صوبائی وزیر اطلاعات تھے، ان کی ہر خبر نیوز چینل اور اخباروں میں پبلش ہوتی تھی۔
دعوے کی سماعت کے دوران شوکت یوسفزئی نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں پی ٹی آئی کے رہنما اعظم خان ہوتی کے بیان کا حوالہ دیا تھا۔ شوکت یوسفزئی کے مطابق انہوں نے کبھی ڈائریکٹ الزامات نہیں لگائے بلکہ اعظم خان ہوتی کا موقف بیان کیا۔
اسفندیار ولی خان کے وکلا کے مطابق بیان سے ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسفندیار ولی خان ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔
عدالت نے ہرجانہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کو 10 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان اسفندیار ولی خان ادا کرنے کا حکم شوکت یوسفزئی ہرجانہ کیس لاکھ روپے پی ٹی آئی عدالت نے
پڑھیں:
روس میں خاتون نے 3 لاکھ 41 ہزار روپے کے بدلے اپنی ’روح بیچ‘ ڈالی
حال ہی میں ایک روسی خاتون نے 100,000 روبلز (3 لاکھ 41 ہزار روپے) کے عوض ایک شہری کو اپنی روح بیچنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ واقعہ سوشل میڈیا اور کچھ غیر روایتی خبروں میں کافی گردش کر رہا ہے۔ دراصل یہ معاہدہ ایک شخص نے ٹیلی گرام پر اشتہار کے طور پر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو کوئی اپنی روح مجھے بیچے گا وہ اتنی رقم پائے گا۔
اس پر خاتون نے معاہدے کا پرنٹ آؤٹ نکال کر اس پر اپنے خون سے دستخط کیے اور معاہدہ پکا کیا جس کی تصویر بھی خاتون نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رقم ملنے پر اس کا استعمال خاتون نے کھلونے والی لببو گُڑیائیں خریدنے اور ایک کنسرٹ ٹکٹ حاصل کرنے میں کیا۔
کچھ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ سب “سوشل ایکسپیرمنٹ” یا مذاق کے طور پر شروع ہوا تھا نہ کہ حقیقی روحوں کی نقل و حمل کا قانونی/روحانی معاملہ۔
دوسری جانب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ واقعہ کس حد تک تصدیق شدہ ہے۔ کیا معاہدہ قانونی حیثیت رکھتا ہے اور کیا یہ واقعہ صرف انٹرنیٹ پر وائرل کہانی ہے یا حقیقی کیس؟
“روح بیچنا” جیسے معاملات اکثر تشبیہی معنی رکھتے ہیں اور بعض لوگ اسے ایک توجہ حاصل کرنے کے طور پر لیتے ہیں۔