Express News:
2025-07-13@00:33:08 GMT

بجٹ اور عوامی مشکلات

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

ہر سال ماہ جون عوامی امنگوں کے برخلاف بھاری ہی پڑتا ہے چونکہ اس مہینے میں سال بھر کا بجٹ آتا ہے، ظاہر ہے ہمارے تجربے کار سیاستدان اسے پیش ہی اتنی مہارت سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے عوام کا سارا درد ان کے سینوں میں ہی بھرا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں، پھر بھی اس بدنصیب وطن کے رہنے والوں کے حالات ہی نہیں بدلتے جب کہ جس قوم کو اتنے درد مند حکمران ملے ہوں تو اس ملک کو تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنی چاہیے نہ کہ وہاں کے بچے علم تو دورکی بات تعلیم و تربیت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔

جس کے زیر اثر وہ اس مملکت کی ترقی خوشحالی کا باعث بنیں وہ تباہی اور بربادی کے دھانے پر کھڑے ہیں اور بڑے بے روزگاری کا شکار ہیں جس سے یہ غریب مڈل کلاس طبقہ ملک عزیز کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی بوجھ اور خود اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کے لیے نہ قابل قبول اثاثہ بن گیا ہے۔

افسوس صد افسوس حکمران طبقہ اور ان کے حواری قرض لے لے کر اپنی عیاشیوں میں اٹھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک عزیز میں پیدا ہونے والے بچے بھی قرض خواہ پیدا ہوتے ہیں جب کہ انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ قرض کس نے لیا، کس کے لیے لیا، کیوں لیا؟ اور اس قرضے کا اہم ترین اثر یہ ہے کہ سال بھر میں بجٹ تو آتا ہی ہے اب بقول حکمرانوں کہ آئی ایم ایف کی شدید خواہش پر منی بجٹ بھی آ رہے ہیں جس میں انگنت ٹیکسوں کی مد میں غریب مڈل کلاس عوام کو کنگال کردیا ہے۔

اس انتشاری بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ذہین بچوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا لینا چاہا تو اس اشرافیہ کو وہ بھی برداشت نہ ہوا، بجلی کی عدم دستیابی اور ناجائز بلوں کی بھرتی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سولر سسٹم لگانا چاہا تو وہ بھی ہضم نہ کرسکے، ان پر بھی شپ خون (ٹیکسوں) کا مار دیا۔

گیس کی بندش سے تنگ آکر سلنڈر لے لیے تو گیس کے نرخ آئے دن بدلتے رہتے ہیں، پانی کی بندش کی صورت میں ٹینکرز مافیا کے مطالبات اور بے روزگاری پر تو نوحہ کرنا ہی بے کار ہے، جب تم کچھ دے نہیں سکتے جو تمہارے فرائض میں شامل ہیں یعنی روزگار، تعلیم، پانی، بجلی، گیس اور دیگر جو ریاستی ذمے داریوں میں آتے ہیں تو پھر ہر طرح سے ان کو پریشان کرنا کہ یہ تمہاری جائز ناجائز ضروریات کے لیے تم کو بنا کچھ پوچھے ٹیکس اور دیگر بھتوں کی صورت میں رقم دیں اور آخر کار دل برداشتہ ہوکر ہمارا یہ مستقبل وطن عزیز چھوڑ کر اپنی صلاحیتوں کو اپنی مجبوریوں کے سبب دوسری اقوام کو دیں بجائے اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرنے کے۔

ظاہر ہے ان سب عوامی مشکلات نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے، سڑکوں پرجو ٹھیکے دینے کے لیے ان حکمرانوں نے بلاوجہ کے ترقیاتی کام شروع کرائے ہیں آخر ان کی کوئی مدت بھی تو ہو یا یہ قیامت تک کے لیے چلتے چلے جائیں گے اور ان کی مد میں بڑے پیمانے کی کرپشن ہوتی چلے جا رہی ہے جس کے زیر اثر خوبصورت شاہراہوں خصوصا یونیورسٹی روڈ کی جو درگت بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آئے دن غیر تجربے کار مزدور پانی کی پائپ لائن کو اپنا ہدف بناتے رہتے ہیں اور شہریوں کوکئی دن تک پانی کی قلت کی اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں تو یہ نسل کہاں جائے گی؟

جس کے لیے منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں بدل جاتا ہے اور جب ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہوکر غریب مڈل کلاس گھر پہنچتے ہیں، تو ان کے اہل خانہ ان کے ساتھ خوشی کے کچھ پل گزارنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے وہ گھر پہنچتے پہنچتے ذہنی اور جسمانی طور پر اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری تھکان ڈپریشن میں بدل جاتی ہے اور ان کی تندرستی اور گھر کا ماحول دونوں ہی رفتہ رفتہ تباہ ہوجاتے ہیں، اور یہاں بڑے بڑے وفد عوام کے ان پیسوں سے حج، عمرہ جیسی عظیم الشان مذہبی عبادات کی تکمیل یا بیرونی دوروں یا اپنی شاہ خرچیوں پر خرچ کیے جاتے ہیں نہ کہ ان کا کوئی فلاحی استعمال کیا جائے۔

 موجودہ بجٹ پر بڑے بڑے قصیدے پڑھوائے جا رہے ہیں کہ تنخواہوں پر گھروں کی خرید پر اور دیگر ضروریات زندگی پر ٹیکس میں کمی کی گئی جو حکومت وقت کا اچھوتا کارنامہ ہے، بالکل ہے، واقعی ہے، چونکہ حکمران وہ لوگ ہیں جن کے لیے کہا جائے کہ کان کو ادھر سے پکڑو یا ادھر سے کیا فرق پڑتا ہے کان تو دونوں صورتوں میں پکڑ میںہی ہے یعنی حکومت دکھاوے کے لیے ایک طرف کچھ غلطی سے چھوٹ دیتی ہے تو دوسری طرف سے وصول بھی تو کر لیتی ہے اور یہی سیاست کے نام پر نورا کشتی برسوں سے چل رہی ہے۔

ذرایع آمد و رفت کے لیے نت نئے منصوبے بھی سرگرم عمل ہیں کہ ہماری چلائی گرین بس میں بیٹھو، ورنہ پیدل مرو جس کے نتیجے میں غریبوں کی مقبول سواری چنگچی کو بند کرنے پر اشرافیہ تلی ہوئی ہے یہ کہہ کر کہ یہ خطرناک سواری ہے اور وہ جو ٹیکسوں کی بھرمار سے آپ نے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے، بندہ اپنے جینے کے ہرجانے کے طور پر نجانے اس ٹیکس کے نام پر کیا کیا دے رہا ہے تاکہ ان کی عیاشیوں کی خندق بند ہوسکے اور یہ بے کس اپنی نجات کی کچھ تدبیر سوچ سکے کہ ہم تو اس چکی میں پس رہے ہیں اور آدھی عمر تو گزر گئی۔

اب کسی طرح بچوں کو باہر بھیج کر ان کے لیے کچھ آسودگی کے انتظام کردیں، یہی ہمارے بس میں ہے اور ساری عمر کی جمع پونجی لگا کر عمر بھر کے لیے بے آسراء ہوجائیں لیکن کم ازکم بچے تو خوشحال ہوجائیں۔ چنگچی رکشہ پر بیشتر شہری سفر کر کے اپنے کام پر جاتے ہیں اور اس کی اجرت سے اپنا پیٹ نہیں ان کی نیت بھرتے ہیں۔ 

کراچی، جو پورے وطن کا پیٹ پالتا ہے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی چھوٹی چھوٹی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اس کے چلانے والے بھی اس کو چلا کر حلال رزق کے حصول کی رات دن جستجو کرتے ہیں، تاکہ زندگی کا پہیہ چلتا رہے لیکن غریب کی مشکلات بلکہ ان کی زندگی سے ہی اس طبقے کو سخت پریشانی لاحق ہے کہ یہ زندہ ہی کیوں ہیں؟ ان کے لیے ہر طرح کی مصائب مشکلات پیدا کرنے کے باوجود یہ ڈھیٹ ابھی تک سانس کیوں لے رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ اپنی سفید پوشی چھوڑ کر انکم سپورٹ اسکیموں پر آجائیں، تاکہ یہ قوم ہمیشہ مانگنے پر اکتفا کرے نہ کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے قابل نہ رہے۔

جب کہ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں جس سے یہود و نصاری کانپتے ہیں لیکن افسوس ہم اپنی خوبیوں سے واقف نہیں، ہم اپنے مذہب کی ایمانی قوت سے ناآشنا ہیں چونکہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور اسی با ت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہود و نصاری ہمارے حکمرانوں کو اقتدارکا لولی پاپ دے کر اپنی تمام اسلام دشمنی پر مبنی چالوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں جس کی واضح مثالیں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بتدریج ٹیکسوں میں اضافہ، بے روزگاری جس پر انکم سپورٹ جیسا مرہم رکھ کر قوم کو اپاہج محتاج بنا کر نوجوانوں کو چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری، انسانیت سوز حرکات کی طرف مجبور کرنا تاکہ ملک عزیز کا مستقبل اندھیروں کی طرف بھٹک جائے اور بجائے ترقی اور خوشحالی کے زوال پذیر ہوجائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہیں اور ا رہے ہیں کرنے کے اور اس ہیں جس ہیں کہ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ایسے عوامی نمائندوں کو جوتے مارنا چاہئیں جو ضلع میں کالج تک نہیں بنوا سکے‘گنڈاپور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ 8 ماہ میں لنک روڈ اور ناصر باغ روڈ مکمل ہوگا، 2025ء کا منصوبہ 2035ء تک لے کر نہیں جانا اور اسی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھوں گا جسے پورا کرسکوں۔ وزیراعلیٰ نے پشاور رنگ روڈ کے مِسنگ لنک ناصر باغ روڈ کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ صوبائی وزراء مینا خان، ارشد ایوب اور معاون خصوصی عاصم بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پشاور کو جتنی توجہ دینی چاہیے تھی اتنی نہیں دی گئی، اب ہمیں آگے کی سوچ رکھنی ہوگی۔ ہمیں مسائل ورثے میں ملے اور صوبے کے وسائل میں صرف 18 دن کی تنخواہ ملی، لیکن ہم اصولوں پر سیاست کرتے ہیں اور کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آگے دوڑ اور پیچھے چھوڑو والے کام نہیں کریں گے، 50 ارب روپے کا اے ڈی پی پلس دیں گے۔ پورے صوبے میں کوئی ایسی تحصیل نہیں چھوڑیں گے جہاں آر ایچ سیز نہ ہوں۔ ضلع بنانے کے ساتھ ساتھ وہاں سہولیات دینا ضروری ہیں، ضلع بنانے سے کام نہیں چلے گا، ترقی تحصیل و ضلع بنانے سے نہیں بلکہ سہولیات دینے سے ہوگی۔ وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ 15 سال سے ضلع و تحصیلوں پر سالانہ 30 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں۔ ضلع بنے ہوئے ہیں لیکن وہاں ڈی ایچ کیو اسپتال اور کالج ہی نہیں جبکہ دل کے امراض کے لیے پورے صوبے میں ایک ہی اسپتال ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں تین تین مہینے لوگ انتظار کر نے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے عوامی نمائندوں کو جوتے مارنا چاہیے جو ضلع میں کالج تک نہیں بنوا سکے، ہم پچھلے ادوار کا کام اپنے دور میں کرکے دکھائیں گے، سن 2013 میں جو منصوبے شروع ہوئے اس پر کام آج تک نہیں ہوا۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ انڈسٹریل اسٹیٹ سے نیا روڈ نکالیں گے جو اے ڈی پی میں شامل ہے، پورے پشاور کے لیے مکمل پیکیج ہے۔ ٹی ایم اے سے کام لینا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، ملاوٹ کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں جس کا جواب ہمیں اللہ کو دینا ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے گورنر کے ساتھ ملاقات کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی حلف برداری تقریب میں گیا تھا، میں جو کرتا ہوں چھپاتا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • علیزے شاہ کا شادی شدہ مرد فنکاروں پر طنزیہ وار
  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹوں کا واپس آنا ان کا بنیادی حق ہے وہ آئیں گے، سلمان اکرم راجہ
  • عوام دوست ریڑھی منصوبہ عوامی مشکلات کا سبب بننے لگا
  • مخصوص نشست وزیراعظم شہباز شریف نے آفر کی، ثمر بلور
  • وفاقی بجٹ : عوامی مشکلات میں مزید اضافہ
  • نتین یاہو نے صرف اپنی بقاء کیخاطر غزہ جنگ کو طول دیا، امریکی میڈیا
  • بھارت: والد نے بیٹی کو ٹینس اکیڈمی چلانے کے ’جرم‘ میں گولیوں سے چھلنی کردیا
  • ایسے عوامی نمائندوں کو جوتے مارنا چاہئیں جو ضلع میں کالج تک نہیں بنوا سکے‘گنڈاپور
  • ضلع میں کالج تک نہ بنوانے والے عوامی نمائندوں کو جوتے مارنے چاہئیں: گنڈا پور