ہر سال ماہ جون عوامی امنگوں کے برخلاف بھاری ہی پڑتا ہے چونکہ اس مہینے میں سال بھر کا بجٹ آتا ہے، ظاہر ہے ہمارے تجربے کار سیاستدان اسے پیش ہی اتنی مہارت سے کرتے ہیں کہ لگتا ہے عوام کا سارا درد ان کے سینوں میں ہی بھرا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں، پھر بھی اس بدنصیب وطن کے رہنے والوں کے حالات ہی نہیں بدلتے جب کہ جس قوم کو اتنے درد مند حکمران ملے ہوں تو اس ملک کو تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنی چاہیے نہ کہ وہاں کے بچے علم تو دورکی بات تعلیم و تربیت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
جس کے زیر اثر وہ اس مملکت کی ترقی خوشحالی کا باعث بنیں وہ تباہی اور بربادی کے دھانے پر کھڑے ہیں اور بڑے بے روزگاری کا شکار ہیں جس سے یہ غریب مڈل کلاس طبقہ ملک عزیز کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی بوجھ اور خود اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کے لیے نہ قابل قبول اثاثہ بن گیا ہے۔
افسوس صد افسوس حکمران طبقہ اور ان کے حواری قرض لے لے کر اپنی عیاشیوں میں اٹھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک عزیز میں پیدا ہونے والے بچے بھی قرض خواہ پیدا ہوتے ہیں جب کہ انھیں یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ قرض کس نے لیا، کس کے لیے لیا، کیوں لیا؟ اور اس قرضے کا اہم ترین اثر یہ ہے کہ سال بھر میں بجٹ تو آتا ہی ہے اب بقول حکمرانوں کہ آئی ایم ایف کی شدید خواہش پر منی بجٹ بھی آ رہے ہیں جس میں انگنت ٹیکسوں کی مد میں غریب مڈل کلاس عوام کو کنگال کردیا ہے۔
اس انتشاری بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے ذہین بچوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا لینا چاہا تو اس اشرافیہ کو وہ بھی برداشت نہ ہوا، بجلی کی عدم دستیابی اور ناجائز بلوں کی بھرتی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سولر سسٹم لگانا چاہا تو وہ بھی ہضم نہ کرسکے، ان پر بھی شپ خون (ٹیکسوں) کا مار دیا۔
گیس کی بندش سے تنگ آکر سلنڈر لے لیے تو گیس کے نرخ آئے دن بدلتے رہتے ہیں، پانی کی بندش کی صورت میں ٹینکرز مافیا کے مطالبات اور بے روزگاری پر تو نوحہ کرنا ہی بے کار ہے، جب تم کچھ دے نہیں سکتے جو تمہارے فرائض میں شامل ہیں یعنی روزگار، تعلیم، پانی، بجلی، گیس اور دیگر جو ریاستی ذمے داریوں میں آتے ہیں تو پھر ہر طرح سے ان کو پریشان کرنا کہ یہ تمہاری جائز ناجائز ضروریات کے لیے تم کو بنا کچھ پوچھے ٹیکس اور دیگر بھتوں کی صورت میں رقم دیں اور آخر کار دل برداشتہ ہوکر ہمارا یہ مستقبل وطن عزیز چھوڑ کر اپنی صلاحیتوں کو اپنی مجبوریوں کے سبب دوسری اقوام کو دیں بجائے اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا قرار واقعی کردار ادا کرنے کے۔
ظاہر ہے ان سب عوامی مشکلات نے ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے، سڑکوں پرجو ٹھیکے دینے کے لیے ان حکمرانوں نے بلاوجہ کے ترقیاتی کام شروع کرائے ہیں آخر ان کی کوئی مدت بھی تو ہو یا یہ قیامت تک کے لیے چلتے چلے جائیں گے اور ان کی مد میں بڑے پیمانے کی کرپشن ہوتی چلے جا رہی ہے جس کے زیر اثر خوبصورت شاہراہوں خصوصا یونیورسٹی روڈ کی جو درگت بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے آئے دن غیر تجربے کار مزدور پانی کی پائپ لائن کو اپنا ہدف بناتے رہتے ہیں اور شہریوں کوکئی دن تک پانی کی قلت کی اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں تو یہ نسل کہاں جائے گی؟
جس کے لیے منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں بدل جاتا ہے اور جب ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہوکر غریب مڈل کلاس گھر پہنچتے ہیں، تو ان کے اہل خانہ ان کے ساتھ خوشی کے کچھ پل گزارنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے وہ گھر پہنچتے پہنچتے ذہنی اور جسمانی طور پر اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری تھکان ڈپریشن میں بدل جاتی ہے اور ان کی تندرستی اور گھر کا ماحول دونوں ہی رفتہ رفتہ تباہ ہوجاتے ہیں، اور یہاں بڑے بڑے وفد عوام کے ان پیسوں سے حج، عمرہ جیسی عظیم الشان مذہبی عبادات کی تکمیل یا بیرونی دوروں یا اپنی شاہ خرچیوں پر خرچ کیے جاتے ہیں نہ کہ ان کا کوئی فلاحی استعمال کیا جائے۔
موجودہ بجٹ پر بڑے بڑے قصیدے پڑھوائے جا رہے ہیں کہ تنخواہوں پر گھروں کی خرید پر اور دیگر ضروریات زندگی پر ٹیکس میں کمی کی گئی جو حکومت وقت کا اچھوتا کارنامہ ہے، بالکل ہے، واقعی ہے، چونکہ حکمران وہ لوگ ہیں جن کے لیے کہا جائے کہ کان کو ادھر سے پکڑو یا ادھر سے کیا فرق پڑتا ہے کان تو دونوں صورتوں میں پکڑ میںہی ہے یعنی حکومت دکھاوے کے لیے ایک طرف کچھ غلطی سے چھوٹ دیتی ہے تو دوسری طرف سے وصول بھی تو کر لیتی ہے اور یہی سیاست کے نام پر نورا کشتی برسوں سے چل رہی ہے۔
ذرایع آمد و رفت کے لیے نت نئے منصوبے بھی سرگرم عمل ہیں کہ ہماری چلائی گرین بس میں بیٹھو، ورنہ پیدل مرو جس کے نتیجے میں غریبوں کی مقبول سواری چنگچی کو بند کرنے پر اشرافیہ تلی ہوئی ہے یہ کہہ کر کہ یہ خطرناک سواری ہے اور وہ جو ٹیکسوں کی بھرمار سے آپ نے شہریوں کا جینا محال کر رکھا ہے، بندہ اپنے جینے کے ہرجانے کے طور پر نجانے اس ٹیکس کے نام پر کیا کیا دے رہا ہے تاکہ ان کی عیاشیوں کی خندق بند ہوسکے اور یہ بے کس اپنی نجات کی کچھ تدبیر سوچ سکے کہ ہم تو اس چکی میں پس رہے ہیں اور آدھی عمر تو گزر گئی۔
اب کسی طرح بچوں کو باہر بھیج کر ان کے لیے کچھ آسودگی کے انتظام کردیں، یہی ہمارے بس میں ہے اور ساری عمر کی جمع پونجی لگا کر عمر بھر کے لیے بے آسراء ہوجائیں لیکن کم ازکم بچے تو خوشحال ہوجائیں۔ چنگچی رکشہ پر بیشتر شہری سفر کر کے اپنے کام پر جاتے ہیں اور اس کی اجرت سے اپنا پیٹ نہیں ان کی نیت بھرتے ہیں۔
کراچی، جو پورے وطن کا پیٹ پالتا ہے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی چھوٹی چھوٹی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اس کے چلانے والے بھی اس کو چلا کر حلال رزق کے حصول کی رات دن جستجو کرتے ہیں، تاکہ زندگی کا پہیہ چلتا رہے لیکن غریب کی مشکلات بلکہ ان کی زندگی سے ہی اس طبقے کو سخت پریشانی لاحق ہے کہ یہ زندہ ہی کیوں ہیں؟ ان کے لیے ہر طرح کی مصائب مشکلات پیدا کرنے کے باوجود یہ ڈھیٹ ابھی تک سانس کیوں لے رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ یہ اپنی سفید پوشی چھوڑ کر انکم سپورٹ اسکیموں پر آجائیں، تاکہ یہ قوم ہمیشہ مانگنے پر اکتفا کرے نہ کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کے قابل نہ رہے۔
جب کہ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں جس سے یہود و نصاری کانپتے ہیں لیکن افسوس ہم اپنی خوبیوں سے واقف نہیں، ہم اپنے مذہب کی ایمانی قوت سے ناآشنا ہیں چونکہ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور اسی با ت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہود و نصاری ہمارے حکمرانوں کو اقتدارکا لولی پاپ دے کر اپنی تمام اسلام دشمنی پر مبنی چالوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں جس کی واضح مثالیں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بتدریج ٹیکسوں میں اضافہ، بے روزگاری جس پر انکم سپورٹ جیسا مرہم رکھ کر قوم کو اپاہج محتاج بنا کر نوجوانوں کو چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری، انسانیت سوز حرکات کی طرف مجبور کرنا تاکہ ملک عزیز کا مستقبل اندھیروں کی طرف بھٹک جائے اور بجائے ترقی اور خوشحالی کے زوال پذیر ہوجائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں اور ا رہے ہیں کرنے کے اور اس ہیں جس ہیں کہ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
جمہوریت کو درپیش چیلنجز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔