تھائی لینڈ، کمبوڈیا جنگ ختم کرانے کا خواہشمند ہوں، پاک بھارت تنازع یاد آ گیا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ جنگ بندی کی بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا ذکر کیا کہ کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی جنگ میں بہت سے لوگ مر رہے ہیں اور یہ صورتحال انہیں پاکستان اور بھارت کے تنازع کی یاد دلاتی ہے جسے انہوں نے کامیابی سے رُکوایا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ واشنگٹن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان بھی جنگ بندی کی کوششیں شروع کر دیں جبکہ تھائی لینڈ کے وزیراعظم نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کررہے ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے دونوں ممالک کے راہنماؤں سے ٹیلیفون پر بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایک پیچیدہ صورتحال کو آسان بنانے کی کوشش کررہے ہیں، دونوں ممالک جنگ بندی اور امن کے خواہاں ہیں، فریقین سے مزید بات چیت کے بعد جنگ بندی، امن اور خوشحالی جلد سامنے آجائے گی، جب جنگ بندی شرائط پوری ہوں گی تو امریکا سے تجارت کے معاہدے پر بات کا موقع دیا جائے گا۔
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ جنگ بندی کی بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کا ذکر کیا کہ کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی جنگ میں بہت سے لوگ مر رہے ہیں اور یہ صورتحال انہیں پاکستان اور بھارت کے تنازع کی یاد دلاتی ہے جسے انہوں نے کامیابی سے رُکوایا تھا۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کا پاک بھارت سیز فائر پر یہ 26 واں بیان ہے۔
ادھر تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان 3 روز سے جاری سرحدی جھڑپوں میں دونوں ممالک کے 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیراعظم نے کہا کہ دوسرا فریق سنجیدہ نیت کا مظاہرہ کرے تو جنگ بندی پر تیار ہیں، کمبوڈیا کے سفیر نے بھی اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کمبوڈیا اور تھائی لینڈ پاکستان اور بھارت کے جنگ بندی کی کے درمیان انہوں نے
پڑھیں:
ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔ تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔