UrduPoint:
2025-11-05@02:57:26 GMT

مذہبی انتہا پسندی اور معاشرے پر اس کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

مذہبی انتہا پسندی اور معاشرے پر اس کے اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) جب ہم تاریخ میں مذہبی انتہا پسندی کے کردار کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے سامنے اُس کا یہ پہلو آتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی سیمائی پر یقیین رکھتی ہے اور دوسری تمام سیمائیوں کو رَد کر دیتی ہے۔ اپنی ہی سیمائی کے دائرے میں رہتے ہوئے تعصّب اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

جب دوسری سیمائیوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو علیحدگی کی حالت میں معاشرہ ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے۔

انتہا پسندی معاشرے کے اتحاد کے لیے ضروری سمجھتی ہے کہ اِس میں کوئی نئی فرقے پیدا نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں اُس کا اتحاد چیلنج ہوتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم قدیم تاریخوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ مثلاً جب ایران کی ساسانی سلطنت میں زرتشت مذہب ریاست نے اختیار کر لیا تھا تو اُس نے مَزدَق اور مانی کی فرقے وارانہ تحریکوں کو سختی سے کُچل دیا۔

(جاری ہے)

تاکہ ایرانی معاشرے میں مذہبی انتشار پیدا نہ ہو۔

مذہبی انتہا پسندی کو نہ صرف اُس کی سچائی کے لیے بلکہ اُس کے اتحاد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً 313 عیسوی میں جب قُسطنطین نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تو مسیح کے پیروکاروں نے ریاست کی مدد سے پیگن مذہب کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ اُن کے مَندروں کو مُسمار کیا، اُن کے بُتوں کو توڑا۔

اُن کے مذہبی راہنماؤں کو یا تو قتل کیا یا اُنھیں جِلاوطن ہونے پر مجبور کیا۔ پیگن مذہب کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مسیحیت میں جو نئے فرقے پیدا ہوئے تھے، اُن کا بھی خاتمہ ہوا۔

گیارہویں سے تیرہویں صدی عیسوی تک یورپ صلیبی جنگوں میں مصروف رہا جن میں مذہب کے نام پر لوگوں کو مسلمانوں سے لڑوایا گیا تاکہ مسیحی مذہب کی برتری کو قائم کیا جا سکے۔

مسیحی مذہب کے مشہور عالم سینٹ اَگسِٹن کا کہنا تھا کہ اگر مسیحی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں پر فتح حاصل کرتے ہیں تو انہیں ان کا قتلِ عام کر دینا چاہیے، یہاں تک کہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ بڑے ہو کر یہ مسیحیت کے خلاف ہو جائیں گے۔

اگرچہ کیتھولِک مذہب نے اتحاد کو برقرار رکھنے کی بہت کوشش کی، نئے مذہبی فرقوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے گئے۔

لیکن یہ اتحاد اُس وقت ٹوٹا جب لُوتھر نے 1517 عیسوی میں پوپ کے خلاف آواز اُٹھائی جس کے نتیجے میں یورپ کا مسیحی اتحاد ٹوٹا اور یہ کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم ہو گیا۔ اب مسیحیت میں ایک کے بجائے دو سچائیاں تھیں، جن کے ماننے والے ایک دوسرے سے مُتصادم ہوئے۔

کیتھولِک مذہب کے ماننے والے مُلکوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی حدود سے دوسرے مذاہب اور فرقوں کو نکال کر ایک ہی عقیدے کو نافذ کریں۔

چنانچہ 1482ء میں اسپین نے جو کیتھولِک فرقے کا سربراہ ہو گیا تھا، اُس نے اندلس سے یہودیوں اور مسلمانوں کو نکال کر پورے اسپین میں مسیحی عقیدے کو نافذ کیا۔ اس کے علاوہ اُس نے پروٹسٹنٹ ملکوں سے جنگیں بھی کیں۔ جن کی وجہ سے یہ معاشی بحران میں مُبتلا ہوا اور بالاآخر یورپ کا پسماندہ مُلک بن گیا۔

کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان تصادُم کی وجہ سے یورپ میں نہ تو مذہبی اتحاد رہا اور نہ اَمن و اَمان۔

1618ء سے 1648ء تک جرمنی اور دوسرے یورپی مُلک 30 سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے۔ جس کے نتیجے میں یورپ میں کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ ریاستیں قائم ہوئیں۔

مذہبی تبدیلی کی وجہ سے عام لوگوں کو مصیبتیں اُٹھانا پڑیں۔ مثلاﹰ پروٹسٹنٹ مُلکوں میں کیتھولِک عقیدے کے ماننے والوں کو مذہی آزادی نہیں تھی۔ یہی صورتحال کیتھولِک ریاستوں میں پروٹسٹنٹ اقلیتوں کی تھی۔

فرانس جس میں کیتھولِک ماننے والوں کی اکثریت تھی، وہاں یہ کوشش کی گئی کہ پروٹسٹنٹ فرقے والوں سے رواداری کا سلوک کیا جائے لیکن جب کوئی بھی فرقہ صرف اپنی سچائی پر یقین رکھتا ہے تو وہ دوسرے فرقوں کے لیے رواداری کو تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ یہ رواداری اُس کے عقیدے کو کمزور کرتی ہے اور اُس کے ماننے والوں کو شک و شُبے میں مُبتلا کرتی ہے۔ اس لیے مذہی اقلیتوں کے ساتھ تعصّب کا برتاؤ کیا گیا۔

فرانس میں جہاں پروٹسٹنٹوں کے لیے ایک قانون کے ذریعے اُنھیں مذہبی آزادی دی گئی تھی، اُسے لوئی چہار دہم نے ختم کر دیا۔ جس کی وجہ سے پروٹسٹنٹوں کی ایک بڑی تعداد فرانس چھوڑ کر دوسرے مُلکوں میں چلی گئی۔ جس کی وجہ سے فرانس کی صنعت و حرفت کو نقصان بھی پہنچا۔

مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے یورپ ایک طویل عرصے تک سیاسی انتشار میں رہا جس نے اُس کی ترقی کے راستوں کو روکے رکھا۔

یہ ذہنیت آہستہ آہستہ اُس وقت ختم ہوئی جب یورپ میں قومی ریاست کی تشکیل ہوئی جس کی بنیاد مذہب پر نہیں تھی، اور قوم میں ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والوں کی شمولیت تھی۔ قوم کے نظریے میں ایک ہی سچائی کے تصور کو توڑا اور اَب اتحاد قوم کے نام پر ہوا اور قومی ریاست کا کوئی مذہب نہیں رہا۔ یہ ایک طویل سفر تھا جو یورپ نے اختیار کیا، اور جب مذہبی تعصّبات ختم ہوئے تو اُس کے معاشرے نے علوم و فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مذہبی انتہا پسندی ماننے والوں کی وجہ سے کے ماننے کے خلاف مذہب کے کے لیے

پڑھیں:

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

سیاسی حلقوں میں ایک مرتبہ پھر سے آئینی ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے مطابق مجوزہ آئینی ترمیم میں درج تجاویز کے مطابق آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلے کا اختیار، این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے معاملات وفاق کو واپس دینا اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر ڈیڈلاک ختم کرنا ہے۔

’وی نیوز‘ نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے کون سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق سربراہ حسن رضا پاشا نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ سے متعلق مجوزہ حکومتی اقدامات پر اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا اور کہاکہ اطلاعات کے مطابق حکومت ایگزیکٹو مجسٹریٹس کا نظام دوبارہ متعارف کرانے جا رہی ہے جو ماضی میں ختم کیے جا چکے تھے۔

انہوں نے کہاکہ 1973 کے آئین کے تحت عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ رکھا گیا تھا تاکہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار حیثیت میں کام کر سکے، لیکن اب اگر حکومت ان حدود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تصور ہوگا۔

حسن رضا پاشا نے کہاکہ اگر کسی نئے قانون کے تحت حکومت کو عدالتی ٹرائل یا جوڈیشل امور میں براہِ راست مداخلت کا اختیار دیا گیا تو یہ نہ صرف عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ اس سے عدالتی نظام پر عوامی اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی تقرری، تبادلوں اور تعیناتیوں کے حوالے سے آئین میں پہلے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے مطابق وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہی کسی جج کا تبادلہ یا تقرری ممکن ہے۔

’اگر حکومت اس میں ترمیم کرکے جج کی مرضی یا رضامندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو یہ آئینی اور قانونی لحاظ سے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ججز کے تبادلوں کے چند معاملات، جیسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو لاہور ہائیکورٹ میں بھیجنے اور دیگر صوبوں سے ججز کی تعیناتی کے فیصلے پہلے ہی بار اور عدلیہ کے درمیان بحث کا باعث بنے ہیں، ایسے میں کسی بھی ترمیم سے مزید تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔

حسن رضا پاشا نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ ججز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ دیگر سرکاری محکموں کی طرح ایک معمول کی انتظامی کارروائی ہو سکتی ہے، لیکن عدلیہ کے حساس کردار کے پیش نظر اس میں شفافیت، میرٹ اور جج کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ کسی جج کو محض ناپسندیدگی یا ذاتی اختلاف کی بنیاد پر ہٹانا یا تبدیل کرنا عدالتی آزادی کے منافی ہوگا۔

انہوں نے مطالبہ کیاکہ حکومت کو ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے تاکہ ججز کی تعیناتی یا تبادلوں کے عمل میں کسی قسم کی جانبداری یا سیاسی اثر و رسوخ شامل نہ ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیاکہ اگر ججوں کی رضامندی کا اصول ختم کر دیا گیا تو عدلیہ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ عدلیہ کو سیاست یا انتقامی عمل سے دور رکھا جائے، کیونکہ یہ ادارہ ریاست کا ستون ہے اور اس کی غیرجانبداری ہی جمہوریت اور انصاف کے نظام کی بنیاد ہے۔

سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کی بیان کردہ مجوزہ آئینی ترمیم میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں کے تبادلوں کا اختیار اور آرٹیکل 243 میں ترمیم جیسی تجاویز شامل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ یہ تجاویز بظاہر اصلاحات کا لبادہ رکھتی ہیں مگر ان کے اثرات عدلیہ کی آزادی اور آئینی توازن پر انتہائی خطرناک ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اس نظام کی واپسی ہے جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود خلط ملط ہو جاتی تھیں۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار کسی غیر عدالتی اتھارٹی کو دینا ناقابلِ قبول ہے۔ ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

عمران شفیق نے کہاکہ آئینی عدالت دراصل سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی ایک غیر ضروری توسیع ہے، جو عدلیہ کے اندر تقسیم اور دباؤ پیدا کرے گی۔ ایسی عدالت عدلیہ کے چند ارکان کو خصوصی مراعات دے کر باقی ججوں سے الگ حیثیت دینے کے مترادف ہے، جو ایک طرح کی ادارہ جاتی رشوت اور داخلی تقسیم ہے۔

مزید پڑھیں: 27ویں ترمیم: فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی بنانے کے لیے آرٹیکل 243 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہاکہ آئین میں کسی بھی ترمیم کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا ہونا چاہیے، ان کی حدود کمزور کرنا نہیں، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہ آئینی ہو سکتا ہے، نہ جمہوری۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم پیپلز پارٹی حسن رضا پاشا حکومت پاکستان مشاورتی عمل وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ہندو انتہا پسند: اسلامی تاریخ سے وابستہ ’دہلی‘ کا نام بدلنے کی تیاری
  • 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
  • غزہ میں آگ کی روانی
  • مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
  • آزاد ‘ محفوظ صحافت انصاف ‘ جمہوریت کی ضامن: سینیٹر عبدالکریم 
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • اصول پسندی کے پیکر، شفیق غوری کی رحلت
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا