بیجنگ : حیاتی تنوع انسانی فلاح و بہبود سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور انسانی بقا اور ترقی کی ایک اہم بنیاد ہے۔ چین حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنونشن پر دستخط اور توثیق کرنے والے اولین فریقوں میں سے ایک ہے ، اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کوششوں میں نتیجہ خیز کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے زمینی حیاتیاتی نظام کی 90 فیصد اقسام اور قومی کلیدی تحفظ کے تحت جنگلی حیات کی 74 فیصد آبادی کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان میں، شہری علاقوں میں ماحولیاتی تحفظ ایک اہم حصہ ہے.

حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور لوگوں کی ماحولیاتی بہبود کو بہتر بنانے کے علاوہ، یہ اقدام ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں لوگوں کے شعور کو بڑھانےمیں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے.ویٹ لینڈز کنونشن کے فریقوں کی 15 ویں کانفرنس میں ، چین کے مزید نو شہروں کو’’ انٹرنیشنل ویٹ لینڈ شہروں‘‘کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس طرح اب چین میں ایسے شہروں کی کل تعداد 22 ہو گئی ہے جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔’’انٹرنیشنل ویٹ لینڈ سٹی‘‘ ویٹ لینڈز کے ماحولیاتی تحفظ میں شہروں کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے چین کی شہری تعمیر میں ماحولیاتی تحفظ کو سراہنے کی عکاسی کرتا ہے۔چین کے ویٹ لینڈ شہروں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ مثال کے طور پر، شی زانگ خوداختیار علاقے کے لہاسا میں لالو ویٹ لینڈ نیشنل نیچر ریزرو دنیا کی سب سے بلند اور سب سے بڑی شہری قدرتی ویٹ لینڈ ہے، صوبہ زے جیانگ کے ہانگ چو میں شی شی نیشنل ویٹ لینڈ پارک نے میں انسان، پانی میں مچھلی اور شہر میں پانی” کا شاعرانہ منظرنامہ تخلیق کیا ہے ، اور صوبہ فوجیئن کے فوچو نے ساحلی زمینوں کو پرندوں کی جنت میں تبدیل کرنے اور مقامی ثقافتی خصوصیات کو برقرار رکھنے کے درمیان بہترین توازن قائم کیا ہے۔عام طور پر ویٹ لینڈ کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ شہروں سے دور ہوتے ہیں جہاں پرندوں کی بہتات ہوتی ہے ۔تاہم ، ویٹ لینڈ شہروں نے ویٹ لینڈ کے ماحولیاتی نظام کو شہری ماحول کے ساتھ یکجا کر دیا ہے، جس سے نہ صرف حیوانات و نباتات کو متنوع مسکن میسر آئے ہیں بلکہ شہریوں کو بھی فطرت کے قریب تر رہنے اور تفریح کرنے کا ماحول ملا ہے. دوسری جانب، یہ ویٹ لینڈ شہر ، شہری منصوبہ بندی و انتظام کے لیے بھی کچھ مختلف نقطہ ہائے نظر فراہم کرتے ہیں، جہاں ماحولیاتی تنوع اور شہری کمیونٹی کی منظم و خوبصورت ضروریات کے درمیان توازن تلاش کیا گیا ہے۔ شہری منصوبہ بندی میں نظم و ضبط شہری جمالیات اور افعالی ہم آہنگی کا بنیادی عنصر ہے، جو نہ صرف جگہ کی منظم ترتیب میں ظاہر ہوتا ہے، بلکہ معاشرتی انتظام کے نظامی نوعیت کی بھی عکاسی کرتا ہے.ان میں بیجنگ اور واشنگٹن ڈی سی کے محور پر مبنی منصوبہ بندی مثالیں ہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ باقاعدگی کے اصرار نے بھی کچھ مسائل کو جنم دیا ہے۔ حال ہی میں، امریکہ میں ایک’’غیر منظم‘‘ لان نے گرما گرم بحث کو جنم دیا ہے. نیو یارک میں ایک چینی نے روایتی لان میں مختلف اقسام کے پودے اگائے،جس سے شہد کی مکھیاں اور تتلیاں بھی وہاں آئیں اور ایک چھوٹا ماحول دوست باغ بن گیا۔انہوں نے سوچابھی نہیں تھا کہ اس باغ کے لئے 2،000 ڈالر کا جرمانہ نوٹس ملے گا۔کچھ مغربی ممالک میں، ایک صاف ستھرے اور منظم لان کو اقتصادی حیثیت اور سماجی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ گھروں کی ظاہری شکل کے معیارات میں سے ایک ہے، یہاں تک کہ یہ جائیداد کی قیمت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ایک “غیرمنظم” لان کے حوالے سے ہمسایے شکایات کر سکتے ہیں ، یہاں تک کہ ہزاروں ڈالر تک جرمانے بھی لاگو ہو سکتے ہیں ۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ نظم و ضبط کی پاسداری ضروری ہے۔ جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ ” منظم” لان کو برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ دیکھ بھال کی لاگت آتی ہے، پانی کا ضیاع ہوتا ہے اور ماحولیاتی تنوع کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ درحقیقت،منظم لان اور شہر میں ویٹ لینڈ، دونوں انسانیت اور فطرت کے درمیان تعلقات کے عکاس ہیں۔ لان میں کھلنے والے ہر گل قاصدی کو توڑنےاور مقررہ اونچائی سے لمبے ہر گھاس کو کاٹنے سے فطرت پر مکمل کنٹرول کا اعلان کرنا ہو، یا کنکریٹ کے جنگل میں جنگلی حیات کے لیے کچھ رہائش گاہ محفوظ رکھ کر قدرت سے ہاتھ ملانا ہو ،یہ ایک انتخاب ہے۔لیکن ،اصل میں یہ ایک واحد انتخاب والا سوال نہیں ہونا چاہئے۔انسانوں نے شہروں میں آباد ہو کر فطرت کے درندوں کے خطرے سے بچنے کی کوشش کی، انہوں نے تہذیبی نظم و ضبط قائم کیا تاکہ جنگل کی بے ترتیبی سے بچا جا سکے۔ لیکن آخرکار، انسان پھر بھی فطرت کا ہی حصہ ہے۔امریکی نیچر لسٹ رائٹر مائیکل پولن کا خیال ہے کہ فطرت اور انسانی ثقافت کو متضاد قرار دینا ایک بے بنیاد انتخاب ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کے’’مئی میں گھاس نہ کاٹنے‘‘ کے اقدام سے لے کر نیدرلینڈز کے’’اینٹیں اور جنگلی پن‘‘ کے منصوبے تک، یہ سب انسانی تہذیبی نظم و ضبط اور فطری تحفظ کے درمیان توازن کی تلاش کی عملی مثالیں ہیں۔جاپان کے’’ہر چیز میں روح‘‘ کے تصور سے لے کر چین کے‘‘فطرت اور انسان کے اتحاد’’ تک، پھر‘‘کرہ ارض پر زندگیوں کے ہم نصیب معاشرے ’’ سے پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں‘‘ کے ترقیاتی تصور تک، یہ سب انسان اور فطرت کے باہمی تعلق پر انسانی غور و فکر اور جوابات ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو احساس ہو جائے کہ فطرت اور انسان ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں، ماحولیاتی تنوع اور انسانی فلاح و بہبود کا تعلق کوئی زیرو سم گیم نہیں ہے، تو ثقافتی تنوع کی بقا بھی مزید امکانات کو جنم دے گی۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ماحولیاتی تحفظ حیاتیاتی تنوع ویٹ لینڈ شہر کے درمیان اور انسان فطرت کے کے لیے چین کے

پڑھیں:

مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ گئی

ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے تک پہنچ گئی، سرگودھا میں ایک ہفتے کے دوران چینی کے نرخ 23 روپے بڑھ گئے۔ سرکاری دستاویز میں گزشتہ ایک ہفتے میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت میں 12 پیسے کی کمی ہوئی تھی اور گذشتہ ہفتے تک ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 188 روپے 81 پیسے تھی۔ادارہ شماریات کے دستاویز کے مطابق ایک سال قبل ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 132 روپے47 پیسے تھی، اور اس وقت ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 188 روپے 69 پیسے پر آگئی ہے۔تاہم،ملک کے مختلف شہروں میں چینی 210 روپے فی کلو تک فروخت کی جارہی ہے اور ملک میں چینی کی زیادہ سے زیادہ فی کلو قیمت 210 روپے تک پہنچ گئی ہے جب کہ پشاور کے شہری سب سے زیادہ مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سرگودھا میں چینی کی فی کلو قیمت میں 23 روپے تک کا اضافہ ہوا جس سے قیمت 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جب کہ کراچی اورحیدر آباد میں چینی کی فی کلو قیمت 5 روپے تک بڑھ گئی جس سے حیدرآباد میں چینی فی کلو 195 روپے اور کراچی میں 200 روپے میں فروخت ہورہی ہے۔اسی طرح، جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں چینی کی زیادہ سے زیادہ فی کلو قیمت 200 روپے تک ہے۔

دوسری جانب، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چینی کی مقررہ قیمتوں سے زائد پر فروخت کی بڑھتی شکایات پر محکمہ پرائس کنٹرول اینڈ کموڈیٹیز مینجمنٹ نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو مراسلہ جاری کیا تھا جس میں چینی کی زائد قیمتوں پر فروخت کا اعتراف کیا گیا ہے۔مراسلہ کے مطابق رپورٹس میں سامنے آیا کہ چینی کی اضافی قیمتوں پر فروخت جاری ہے، چینی کی زائد قینتوں کی وصولی عوام پر مالی بوجھ بڑھا رہی ہے۔مزید کہا گیا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کو فوری کارروائیوں کا پابند کریں اور اضافی قیمتیں وصول کرنے والے دکانداروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت اسلام آباد میں سموگ کے تدارک و ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اہم اجلاس
  • نیوزی لینڈ کے ٹم سیفرٹ ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر ہوگئے
  •   کینیا میں لینڈ سلائیڈنگ سے 26 افراد ہلاک
  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج
  • کوہسار زون میں لینڈ مافیا سرکاری زمین پر قبضے میں مصروف
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • کوئٹہ کے نوجوان ہائیکر ماحولیاتی تحفظ کے سفیر
  • مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک پہنچ گئی
  • نیوزی لینڈ کے سابق کپتان کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان
  • کین ولیمسن کا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان