ان خودکشیوں کا ذمے دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
ملک بھر میں خودکشیاں اب معمول سے بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور آئے روز میڈیا پر پنجاب، سندھ اور خصوصاً دونوں بڑے صوبوں کے پس ماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں مرد و خواتین کی خودکشیوں کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں جن کی مختلف وجوہات تو ہیں مگر مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور مالی مشکلات کے باعث خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک میں خودکشیوں میں مہنگی بجلی فراہم کرنے والے اداروں اور ملک کے پولیس اور عدالتی معاملات و سماجی و حکومتی ناانصافیوں کا بھی دخل ہے مگر یہ ادارے اپنا کردار تسلیم نہیں کرتے نہ اپنے نظام کی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہیں جس سے مجبور افراد مختلف طریقوں سے اپنی جانیں گنوا کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس انتہائی اقدام سے ان کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔
گزشتہ دنوں کراچی کی ملیر جیل سے بڑی تعداد میں قیدی فرار ہو گئے تھے ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک 25 سالہ قیدی بھی شامل تھا جس نے اس عارضی رہائی کے دوران خودکشی کر لی اور اس کا خود کشی سے قبل کا رضاکارانہ وڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں قیدی کا موقف تھا کہ ’’ مجھے رہائی دی جائے کیونکہ میں بے گناہ اور ناحق قید ہوں‘‘ مگر اس کی کس نے سننی تھی، کیونکہ اس پر تو جیل سے فرار کا ایک مزید مقدمہ بنتا تھا، اس لیے اپنی بے گناہی کا اس نے وڈیو بیان دیا اور موت کو گلے لگا لیا کہ خودکشی کے بعد اس پر جتنے مزید مقدمے درج ہونے ہیں ہوجائیں اس نے تو خودکشی کرکے جان چھڑا لی ۔
ہمارے ملکی قوانین میں اقدام خودکشی جرم ہے ، خودکشی جرم نہیں رہتی کیونکہ خودکشی کرنے والا دنیا میں رہتا ہی نہیں جب کہ اقدام خودکشی کا جرم کرنے والا بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے مگر قانون کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ بچ جانے والے سے پوچھے کہ اس نے مرنے کی کوشش کیوں کی؟ اس انتہائی اقدام کی وجوہات کیا تھیں؟ اقدام خودکشی کرنے والے کی بدنصیبی کہ وہ زندہ بچ گیا ہے لیکن اب وہ قانون کے مطابق مجرم ہے اور اس نے جرم کی سزا بھگتنی ہے۔
ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جس میں بجلی کا بل جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے والے نے خود کشی کرلی، کئی مقدمے کے ڈر سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین یا عملہ کہہ دیتا ہے کہ قانون کے ڈر سیکسی کی خودکشی کے ہم ذمے دار نہیں۔ واقعی محکمہ تو ذمے دار نہیں ہوتا مگر ملازمین کے رویے اور اخلاقیات کو کون چیک کرتا ہے۔
ملک کی جیلوں میں کئی بے گناہ بھی قید ہوں اور ہزاروں ایسے ہوں گے جن کے جرم معمولی نوعیت کے ہیں لیکن وہ برسوں سے جیل میں پڑے ہیں۔ ہمارا نظام عدل بھی اس حوالے سے خاموش رہتا ہے۔
اس ملک میں ناانصافیوں، جھوٹے مقدمات اور تحقیقات، سرکاری اداروں میں ہونے والی ناانصافیوں، نجی اداروں کے ملازمین پر مظالم، وقت پر تنخواہ نہ ملنا، غیر قانونی برطرفیوں اور معاشرتی برائیوں کی وجہ سے بھی خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں عام لوگ ہی نہیں بڑے نامور لوگ، اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں۔
گزشتہ دور میں نیب کی چیرہ دستیوں، بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور تحقیقات کے نام پر تذلیل کے باعث ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر و دیگر افسران بھی خودکشیاں کرچکے ہیں جب کہ حالیہ تین سال سے نیب کے باعث کوئی خودکشی نہیں ہوئی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ماضی میں نیب کے اقدامات غیر قانونی تھے۔
مہنگائی اور بے روزگاری نے گھریلو جھگڑوں، طلاقوں اور قتل کی وارداتیں بڑھائی ہیں اور گھریلو خواتین کی روز کے جھگڑوں، معاشرتی مسائل، شوہروں کے مظالم اور اولاد کی نافرمانیاں بھی خودکشیوں کی اہم وجہ ہیں۔ خواتین کو شوہروں کا تشدد بھی سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد کی محبت بھی بھول جاتی ہیں۔ گھروں میں بچوں کے لیے خوراک نہ ہونا، میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل خواتین نے خودکشیوں میں تلاش کر لیا ہے۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق خواتین ہی نہیں، مردوں نے بھی اپنے بچوں سمیت مختلف ذرایع سے اجتماعی خود کشیاں کی ہیں جس پر سماجی رہنماؤں کے افسوس کے بیانات آئے مگر حکومتوں نے کبھی کوئی بیان جاری کیا نہ لواحقین کی داد رسی کی۔ قدرتی آفات میں فوت ہونے والوں کی تو حکومت مالی امداد کر دیتی ہے مگر خودکشیوں کی کبھی حکومت نے وجوہات جاننے پر توجہ دی نہ خودکشی کرنے والوں کے لواحقین کے لیے کبھی سرکاری امداد کا اعلان ہوا۔
اسلامی حکومتوں میں سربراہ عام لوگ تو کیا کسی لاوارث کی موت کا بھی حکومت کو ذمے دار سمجھتے تھے مگر اب ہر ماہ خودکشیوں کے بڑے واقعات ہو رہے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی جب کہ خودکشیوں کے ذمے دار مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے والے یہی حکمران ہیں۔
خودکشی کے رجحان کو روکنے کے لیے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ معمولی نوعیت کے جرائم جن میں چند ہفتوں کی قید اور جرمانہ شامل ہوتا ہے ‘کئی قیدی ایسے ہوتے ہیں جو جرمانہ نہیں دے سکتے اور جیل میں پڑے رہتے ہیں ‘اس کے علاوہ کئی قیدی ایسے ہیں جن کے کیس ہی نہیں چل رہے اور وہ بھی برسوں سے جیل میں موجود ہیں‘ ایسے لوگوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی میکنزم ہونا چاہیے۔
جن پر چند ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے‘ اگر کوئی بندہ یہ جرمانہ ادا نہیں کر سکتا اور انتہائی غریب ہے تو اسی وقت اس کا جرمانہ بیت المال سے ادا کر کے اسے رہا کر دیا جائے‘اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو جیل پر بوجھ نہیں ہو تا دوسرا ممکن ہے وہ بندہ معاشرے میں جا کر کوئی کام دھندا کرنے لگے ‘اسی طرح جو طویل قید کاٹ رہے ہیں اور ان کے جرم ایسے ہیں جن میں سزا کی معاشی نہیں ہو سکتی تو ایسے قیدیوں کو کسی سرکاری تعمیراتی کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ‘اس طریقے سے وہ ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور اس کو اس کی مزدوری بھی ملتی رہے گی ‘اس پر قومی خزانے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا ۔حکومت اور ہمارے پارلیمنٹیرینز چاہیں تو اس حوالے سے قانون سازی کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں ہو ہی نہیں والے سے کے لیے
پڑھیں:
حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔
گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔
ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔