Express News:
2025-11-05@02:59:23 GMT

ان خودکشیوں کا ذمے دار کون؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

ملک بھر میں خودکشیاں اب معمول سے بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور آئے روز میڈیا پر پنجاب، سندھ اور خصوصاً دونوں بڑے صوبوں کے پس ماندہ اور غربت زدہ علاقوں میں مرد و خواتین کی خودکشیوں کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں جن کی مختلف وجوہات تو ہیں مگر مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور مالی مشکلات کے باعث خودکشیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ملک میں خودکشیوں میں مہنگی بجلی فراہم کرنے والے اداروں اور ملک کے پولیس اور عدالتی معاملات و سماجی و حکومتی ناانصافیوں کا بھی دخل ہے مگر یہ ادارے اپنا کردار تسلیم نہیں کرتے نہ اپنے نظام کی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہیں جس سے مجبور افراد مختلف طریقوں سے اپنی جانیں گنوا کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس انتہائی اقدام سے ان کے پس ماندگان پر کیا گزرے گی۔

گزشتہ دنوں کراچی کی ملیر جیل سے بڑی تعداد میں قیدی فرار ہو گئے تھے ان فرار ہونے والے قیدیوں میں ایک 25 سالہ قیدی بھی شامل تھا جس نے اس عارضی رہائی کے دوران خودکشی کر لی اور اس کا خود کشی سے قبل کا رضاکارانہ وڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں قیدی کا موقف تھا کہ ’’ مجھے رہائی دی جائے کیونکہ میں بے گناہ اور ناحق قید ہوں‘‘ مگر اس کی کس نے سننی تھی، کیونکہ اس پر تو جیل سے فرار کا ایک مزید مقدمہ بنتا تھا، اس لیے اپنی بے گناہی کا اس نے وڈیو بیان دیا اور موت کو گلے لگا لیا کہ خودکشی کے بعد اس پر جتنے مزید مقدمے درج ہونے ہیں ہوجائیں اس نے تو خودکشی کرکے جان چھڑا لی ۔

 ہمارے ملکی قوانین میں اقدام خودکشی جرم ہے ، خودکشی جرم نہیں رہتی کیونکہ خودکشی کرنے والا دنیا میں رہتا ہی نہیں جب کہ اقدام خودکشی کا جرم کرنے والا بچ جاتا ہے یا بچا لیا جاتا ہے مگر قانون کی یہ ذمے داری نہیں ہے کہ وہ بچ جانے والے سے پوچھے کہ اس نے مرنے کی کوشش کیوں کی؟ اس انتہائی اقدام کی وجوہات کیا تھیں؟ اقدام خودکشی کرنے والے کی بدنصیبی کہ وہ زندہ بچ گیا ہے لیکن اب وہ قانون کے مطابق مجرم ہے اور اس نے جرم کی سزا بھگتنی ہے۔

ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جس میں بجلی کا بل جمع کرانے کی سکت نہ رکھنے والے نے خود کشی کرلی، کئی مقدمے کے ڈر سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین یا عملہ کہہ دیتا ہے کہ قانون کے ڈر سیکسی کی خودکشی کے ہم ذمے دار نہیں۔ واقعی محکمہ تو ذمے دار نہیں ہوتا مگر ملازمین کے رویے اور اخلاقیات کو کون چیک کرتا ہے۔

 ملک کی جیلوں میں کئی بے گناہ بھی قید ہوں اور ہزاروں ایسے ہوں گے جن کے جرم معمولی نوعیت کے ہیں لیکن وہ برسوں سے جیل میں پڑے ہیں۔ ہمارا نظام عدل بھی اس حوالے سے خاموش رہتا ہے۔

اس ملک میں ناانصافیوں، جھوٹے مقدمات اور تحقیقات، سرکاری اداروں میں ہونے والی ناانصافیوں، نجی اداروں کے ملازمین پر مظالم، وقت پر تنخواہ نہ ملنا، غیر قانونی برطرفیوں اور معاشرتی برائیوں کی وجہ سے بھی خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ خودکشی کرنے والوں میں عام لوگ ہی نہیں بڑے نامور لوگ، اعلیٰ افسر بھی شامل ہیں۔

گزشتہ دور میں نیب کی چیرہ دستیوں، بے گناہوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور تحقیقات کے نام پر تذلیل کے باعث ایک ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسر و دیگر افسران بھی خودکشیاں کرچکے ہیں جب کہ حالیہ تین سال سے نیب کے باعث کوئی خودکشی نہیں ہوئی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ماضی میں نیب کے اقدامات غیر قانونی تھے۔

مہنگائی اور بے روزگاری نے گھریلو جھگڑوں، طلاقوں اور قتل کی وارداتیں بڑھائی ہیں اور گھریلو خواتین کی روز کے جھگڑوں، معاشرتی مسائل، شوہروں کے مظالم اور اولاد کی نافرمانیاں بھی خودکشیوں کی اہم وجہ ہیں۔ خواتین کو شوہروں کا تشدد بھی سہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اولاد کی محبت بھی بھول جاتی ہیں۔ گھروں میں بچوں کے لیے خوراک نہ ہونا، میاں بیوی کے جھگڑوں کا حل خواتین نے خودکشیوں میں تلاش کر لیا ہے۔

میڈیا کی خبروں کے مطابق خواتین ہی نہیں، مردوں نے بھی اپنے بچوں سمیت مختلف ذرایع سے اجتماعی خود کشیاں کی ہیں جس پر سماجی رہنماؤں کے افسوس کے بیانات آئے مگر حکومتوں نے کبھی کوئی بیان جاری کیا نہ لواحقین کی داد رسی کی۔ قدرتی آفات میں فوت ہونے والوں کی تو حکومت مالی امداد کر دیتی ہے مگر خودکشیوں کی کبھی حکومت نے وجوہات جاننے پر توجہ دی نہ خودکشی کرنے والوں کے لواحقین کے لیے کبھی سرکاری امداد کا اعلان ہوا۔

اسلامی حکومتوں میں سربراہ عام لوگ تو کیا کسی لاوارث کی موت کا بھی حکومت کو ذمے دار سمجھتے تھے مگر اب ہر ماہ خودکشیوں کے بڑے واقعات ہو رہے ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی جب کہ خودکشیوں کے ذمے دار مہنگائی اور بے روزگاری بڑھانے والے یہی حکمران ہیں۔

خودکشی کے رجحان کو روکنے کے لیے معاشرتی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ معمولی نوعیت کے جرائم جن میں چند ہفتوں کی قید اور جرمانہ شامل ہوتا ہے ‘کئی قیدی ایسے ہوتے ہیں جو جرمانہ نہیں دے سکتے اور جیل میں پڑے رہتے ہیں ‘اس کے علاوہ کئی قیدی ایسے ہیں جن کے کیس ہی نہیں چل رہے اور وہ بھی برسوں سے جیل میں موجود ہیں‘ ایسے لوگوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی میکنزم ہونا چاہیے۔

 جن پر چند ہزار روپے جرمانہ ہوتا ہے‘ اگر کوئی بندہ یہ جرمانہ ادا نہیں کر سکتا اور انتہائی غریب ہے تو اسی وقت اس کا جرمانہ بیت المال سے ادا کر کے اسے رہا کر دیا جائے‘اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو جیل پر بوجھ نہیں ہو تا دوسرا ممکن ہے وہ بندہ معاشرے میں جا کر کوئی کام دھندا کرنے لگے ‘اسی طرح جو طویل قید کاٹ رہے ہیں اور ان کے جرم ایسے ہیں جن میں سزا کی معاشی نہیں ہو سکتی تو ایسے قیدیوں کو کسی سرکاری تعمیراتی کام میں استعمال کیا جا سکتا ہے ‘اس طریقے سے وہ ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا اور اس کو اس کی مزدوری بھی ملتی رہے گی ‘اس پر قومی خزانے پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا ۔حکومت اور ہمارے پارلیمنٹیرینز چاہیں تو اس حوالے سے قانون سازی کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں ہو ہی نہیں والے سے کے لیے

پڑھیں:

ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جو کشیدگی کا باعث بنے، بیرسٹر گوہر نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کردی

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم ایک خطرناک اقدام ثابت ہوسکتی ہے، اس طرح کے اقدامات سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عدالت کے اوپر ایک اور عدالت قائم کرنا آئینی اصولوں کے منافی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ کسی صوبے کے حصے میں کمی نہیں کی جا سکتی، لہٰذا ایسی کسی بھی ترمیم سے اجتناب کیا جائے جو صوبوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنے۔

انہوں نے بتایا کہ 2020 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران 10ویں این ایف سی ایوارڈ پر کام ہوا تھا، جب کہ تمام صوبے اب 11ویں ایوارڈ کے منتظر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے بھی اتفاق رائے کے بغیر نئی نہریں نکالنے پر پابندی عائد کی تھی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہاکہ اس وقت ہر محب وطن شخص یہی چاہتا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر ٹکراؤ سے گریز کریں، ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملک اور عوام کے مفاد کو ترجیح دیں تاکہ بہتری کی راہ ہموار ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد آنے کے بارے میں ابھی کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی، جب وہ کہیں گے تو فیصلہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی جائےگی، کسی کے لیے گھبرانے کی بات نہیں، رانا ثنااللہ

واضح رہے کہ حکومت نے 27ویں آئینی ترمیم کرنے کا حتمی فیصلہ کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے حمایت مانگ لی ہے، جس کے لیے پیپلز پارٹی نے آپس میں مشاورت کا آغاز کردیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسٹیک ہولڈرز بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی عدالت عمران خان عمران خان رہائی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • شہر قائد میں بیوی کو قتل کرکے شوہر نے بھی خودکشی کرلی
  • کراچی میں گھر سے میاں بیوی کی لاشیں برآمد
  • کراچی: گلبرک میں گھر سے میاں بیوی کی لاشیں برآمد
  • سندھ طاس معاہدے کیخلاف ورزی،ایسے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہونگے،صدر مملکت
  • ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جو کشیدگی کا باعث بنے، بیرسٹر گوہر نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کردی
  • ایسے شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے سے کوئی کارروائی کرسکتا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • صبا قمر نے الزامات عائد کرنے پر صحافی کیخلاف قانونی کارروائی کا اعلان کردیا
  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • پنوعاقل: خودکشی کرنے والی خاتون کو نیوی اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرکے بچالیا