UrduPoint:
2025-08-01@04:27:58 GMT

بلوچستان: لیویز کا پولیس میں انضمام کیوں کیا جا رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

بلوچستان: لیویز کا پولیس میں انضمام کیوں کیا جا رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) صوبہ بلوچستان کے 13 سے زائد اضلاع میں لیویز اہلکاروں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور واضح کیا کہ وہ پولیس فورس میں ضم ہو کر اپنی منفرد شناخت کھونا نہیں چاہتے۔

لیویز فورس کی تاریخی اہمیت

برطانوی دورِ حکومت میں قائم کی جانے والی لیویز فورس قبائلی نظام کی نمائندگی کرتی ہے۔

صوبے میں مختلف قبائلی جرگوں نے بھی انضمام کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ جرگے لیویز کو بلوچستان کے ثقافتی اور قبائلی ڈھانچے کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ لیویز اہلکار انضمام کے خلاف کیوں ہیں؟

دالبندین میں تعینات ایک سینئر لیویز اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہزاروں لیویز اہلکار اس حکومتی فیصلے کو اپنی شناخت کے خاتمے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا، ''حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی، جو حکمت عملی تیار کی ہے، وہ ابہام کا شکار ہے۔ پولیس ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت کام کرتی ہے، جبکہ لیویز کا نظام مقامی سطح پر زیادہ مؤثر، روایتی اور ثقافتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ حکومت جو جواز پیش کر رہی ہے، وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے لیکن لیویز فورس کا صوبے کے قبائلی سیٹ اپ میں امن کی بحالی کے لیے کردار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ لیویز کے مقامی ڈھانچے کو ختم کرنے کے فیصلے سے نہ صرف انتظامی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ یہ سکیورٹی خلاء کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''لیویز اہلکاروں کو یہ اندیشہ ہے کہ پولیس میں شمولیت کے بعد ان کا سروس ڈھانچہ، مراعات اور تبادلوں کا نظام ان کی ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں سے منقطع ہو جائے گا۔

لیویز کی موجودگی قبائلی علاقوں میں ثقافتی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہے اور جرائم کے تدارک میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘

مستونگ سے تعلق رکھنے والے لیویز انویسٹی گیشن ونگ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ''ہمیں برسوں سے سکیورٹی کی فرنٹ لائن پر رکھا گیا ہے لیکن ہمارے بنیادی مسائل کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر انضمام ضروری ہے تو لیویز کے خدشات کو دور کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ زبردستی انضمام صرف نفرت اور بے چینی کو بڑھا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس قبائلی علاقوں کے ماحول سے ناواقف ہے، اس لیے لیویز کی کمان پولیس کے حوالے کرنے سے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''پولیس کا نظام شہروں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے لیکن دیہی بلوچستان کے لیے وہی فورس کامیاب ہو سکتی ہے، جو مقامی شناخت رکھتی ہو۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم جدید مواصلاتی نظام، حفاظتی سہولیات اور بیک اپ کے بغیر دہشت گردی سے نمٹیں۔ ہم دہائیوں سے یہاں کے پہاڑوں، وادیوں اور قبائلی علاقوں میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور ہمیں مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔

پولیس ہمیں جانتی بھی نہیں، اس کے آنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔‘‘ مبصرین کا نقطہ نظر کیا ہے؟

سکیورٹی امور کے تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق نے کہا کہ بلوچستان میں ایک مضبوط اور یکساں سکیورٹی نظام کی ضرورت ہے لیکن اس حساس اور ثقافتی لحاظ سے منفرد خطے میں فورسز کا زبردستی انضمام امن کے بجائے انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''بلوچستان میں موجودہ شورش اور غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو مرحلہ وار اصلاحات اور مقامی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ لیویز صوبے کی ایک تاریخی فورس ہے، جس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی چیلنجز بڑھ چکے ہیں اور لیویز کی پیشہ ورانہ تربیت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اتنی مؤثر نہیں، لیکن فیصلے قبائلی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان میں دہشت گردی کے بدلتے رجحانات سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ پولیسنگ کی ضرورت ہے۔ لیویز فورس کی صلاحیت اور تربیت اس جنگ کے تناظر میں محدود ہے۔ تاہم انضمام کے طریقہ کار میں شفافیت اور شراکت داری کا فقدان لیویز اہلکاروں میں عدم تحفظ کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

حکومتی موقف کیا ہے؟

ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی نے کہا کہ لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ سکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں لیویز اور پولیس کا انضمام امن و امان کے یکساں نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ لیویز کے زیر انتظام علاقوں کو پولیس میں ضم کرنے سے امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ گزشتہ دنوں عسکریت پسندوں کے حملوں کے دوران پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر 100 لیویز اہلکاروں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

احتجاج کی آڑ میں کسی اہلکار کو ضابطے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت نے ژوب، مکران اور رخشاں ڈویژن کے 13 اضلاع کو لیویز سے پولیس فورس میں ضم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان اضلاع میں رخشاں ڈویژن کے چاغی، واشک، نوشکی اور خاران، ژوب ڈویژن کے بارکھان، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، موسیٰ خیل، شیرانی اور ژوب جبکہ مکران ڈویژن کے گوادر، کیچ اور پنجگور شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان تینوں ڈویژنز میں مرحلہ وار لیویز ایریاز کو پولیس میں ضم کیا جا رہا ہے اور انتظامی معاملات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں انضمام کے بعد لیویز اہلکاروں کو خصوصی تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

ادارت: امتیاز احمد

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے مزید کہا کو پولیس میں ضم لیویز اہلکاروں بلوچستان میں لیویز اہلکار لیویز فورس انضمام کے ڈویژن کے ہے لیکن کے لیے رہا ہے کہا کہ کیا جا نے کہا

پڑھیں:

بلوچستان حق دو مارچ: منصورہ سے باہر نکلنے کی کوشش پر مظاہرین کا پولیس سے تصادم

’بلوچستان حق دو مارچ‘ کے شرکاء اور پولیس کے درمیان منصورہ کے باہر اس وقت تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی جب مظاہرین نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی، جس پر صورتحال کشیدہ ہو گئی، تاہم قائدین کی مداخلت پر وقتی طور پر تصادم رک گیا ہے۔

مارچ کے قائدین نے شرکاء کو اگلے لائحہ عمل تک پیچھے ہٹنے کی ہدایت کی ہے جبکہ پولیس کی بھاری نفری تاحال منصورہ کے اطراف تعینات ہے۔

مذاکراتی عمل جاری

دوسری طرف پنجاب حکومت کی مذاکراتی ٹیم مسلسل دوسرے روز بھی منصورہ پہنچی، جہاں مظاہرین سے بات چیت جاری ہے۔ مذاکراتی ٹیم کی قیادت سینئر وزیر مریم اورنگزیب کر رہی ہیں، جب کہ دیگر اراکین میں وزیر قانون ملک صہیب بھرتھ اور خواجہ سلمان رفیق شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے سرحد کی بندش اور لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر مولانا ہدایت الرحمان کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

جماعت اسلامی کی طرف سے نائب امیر لیاقت بلوچ، سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مذاکرات میں شریک ہیں۔

جماعت اسلامی کی قیادت کا مؤقف

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کراچی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے منصورہ  کے محاصرہ کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:

’پرامن سیاسی جمہوری جدوجہد ہمارا آئینی حق ہے، اور مظاہرین کو اسلام آباد جانے سے روکنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘

جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ حافظ نعیم الرحمان جلد پشاور میں امن جرگہ پروگرام سے فراغت کے بعد مارچ کی قیادت سنبھالیں گے۔

ملک گیر احتجاج کی وارننگ

حافظ نعیم الرحمان نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے رویہ نہ بدلا تو جماعت اسلامی ملک گیر احتجاج کی کال دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو طاقت سے دبانا ناقابل قبول ہے۔

یہ بھی پڑھیے جماعت اسلامی بلوچستان کا لانگ مارچ رکاوٹیں عبور کرتے اسلام آباد کی جانب رواں دواں

یاد رہے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے ’بلوچستان حق دو تحریک‘ کے شرکاء کا یہ مارچ ج بلوچستان کے عوام کے حقوق، جبری گمشدگیوں، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور آئینی تحفظات کے لیے جاری ہے۔ مظاہرین جمعہ کو کوئٹہ سے روانہ ہوئے، اب لاہور پہنچ چکے ہیں جہاں سے وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مطالبات مرکزی حکومت کے سامنے پیش کر سکیں۔ تاہم حکومت انہیں اسلام آباد کی طرف آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان حق دو تحریک جماعت اسلامی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کےلئے ایف اے ٹی ایف میں درخواست دے دی
  • بھارتی حکومت نے ایف اے ٹی ایف میں علی امین گنڈاپور کا بیان جمع کروا دیا
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟
  • بلوچستان حق دو مارچ: منصورہ سے باہر نکلنے کی کوشش پر مظاہرین کا پولیس سے تصادم
  • بلوچستان میں ایک اور سفاکانہ واردات: پسند کی شادی پر بھائیوں نے حاملہ بہن اور شوہر کو قتل کر دیا
  • شادی کیلئے پاکستان آئے تھے‘ نوشہرہ میں 3اوورسیز بھائی کیوں قتل ہوئے؟
  • گدھے کا گوشت اسلام آباد میں فروخت کئے جانے کے شواہد نہیں ملے،ابتدائی رپورٹ
  • قائداعظم یونیورسٹی کے تمام ہاسٹلز خالی، پولیس نے بڑی کارروائی کیوں کی؟
  • پولیس کی بھاری نفری اداکار عامر خان کے گھر کیوں پہنچی؟ وجہ سامنے آگئی