UrduPoint:
2025-11-05@03:16:00 GMT

بلوچستان: لیویز کا پولیس میں انضمام کیوں کیا جا رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

بلوچستان: لیویز کا پولیس میں انضمام کیوں کیا جا رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 جولائی 2025ء) صوبہ بلوچستان کے 13 سے زائد اضلاع میں لیویز اہلکاروں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور واضح کیا کہ وہ پولیس فورس میں ضم ہو کر اپنی منفرد شناخت کھونا نہیں چاہتے۔

لیویز فورس کی تاریخی اہمیت

برطانوی دورِ حکومت میں قائم کی جانے والی لیویز فورس قبائلی نظام کی نمائندگی کرتی ہے۔

صوبے میں مختلف قبائلی جرگوں نے بھی انضمام کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور حکومت سے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ جرگے لیویز کو بلوچستان کے ثقافتی اور قبائلی ڈھانچے کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ لیویز اہلکار انضمام کے خلاف کیوں ہیں؟

دالبندین میں تعینات ایک سینئر لیویز اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہزاروں لیویز اہلکار اس حکومتی فیصلے کو اپنی شناخت کے خاتمے کے مترادف سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا، ''حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کی، جو حکمت عملی تیار کی ہے، وہ ابہام کا شکار ہے۔ پولیس ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت کام کرتی ہے، جبکہ لیویز کا نظام مقامی سطح پر زیادہ مؤثر، روایتی اور ثقافتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ حکومت جو جواز پیش کر رہی ہے، وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ سکیورٹی چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے لیکن لیویز فورس کا صوبے کے قبائلی سیٹ اپ میں امن کی بحالی کے لیے کردار ہمیشہ مثالی رہا ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ لیویز کے مقامی ڈھانچے کو ختم کرنے کے فیصلے سے نہ صرف انتظامی مسائل پیدا ہوں گے بلکہ یہ سکیورٹی خلاء کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ان کے بقول، ''لیویز اہلکاروں کو یہ اندیشہ ہے کہ پولیس میں شمولیت کے بعد ان کا سروس ڈھانچہ، مراعات اور تبادلوں کا نظام ان کی ثقافتی اور جغرافیائی بنیادوں سے منقطع ہو جائے گا۔

لیویز کی موجودگی قبائلی علاقوں میں ثقافتی ہم آہنگی برقرار رکھتی ہے اور جرائم کے تدارک میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔‘‘

مستونگ سے تعلق رکھنے والے لیویز انویسٹی گیشن ونگ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ''ہمیں برسوں سے سکیورٹی کی فرنٹ لائن پر رکھا گیا ہے لیکن ہمارے بنیادی مسائل کے حل پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ زمینی حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر انضمام ضروری ہے تو لیویز کے خدشات کو دور کیوں نہیں کیا جاتا؟ یہ زبردستی انضمام صرف نفرت اور بے چینی کو بڑھا رہا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس قبائلی علاقوں کے ماحول سے ناواقف ہے، اس لیے لیویز کی کمان پولیس کے حوالے کرنے سے حالات بہتر ہونے کی کوئی امید نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''پولیس کا نظام شہروں کے لیے موزوں ہو سکتا ہے لیکن دیہی بلوچستان کے لیے وہی فورس کامیاب ہو سکتی ہے، جو مقامی شناخت رکھتی ہو۔ ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم جدید مواصلاتی نظام، حفاظتی سہولیات اور بیک اپ کے بغیر دہشت گردی سے نمٹیں۔ ہم دہائیوں سے یہاں کے پہاڑوں، وادیوں اور قبائلی علاقوں میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور ہمیں مقامی لوگوں کا اعتماد حاصل ہے۔

پولیس ہمیں جانتی بھی نہیں، اس کے آنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے۔‘‘ مبصرین کا نقطہ نظر کیا ہے؟

سکیورٹی امور کے تجزیہ کار میجر (ر) عمر فاروق نے کہا کہ بلوچستان میں ایک مضبوط اور یکساں سکیورٹی نظام کی ضرورت ہے لیکن اس حساس اور ثقافتی لحاظ سے منفرد خطے میں فورسز کا زبردستی انضمام امن کے بجائے انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ''بلوچستان میں موجودہ شورش اور غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو مرحلہ وار اصلاحات اور مقامی مشاورت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ لیویز صوبے کی ایک تاریخی فورس ہے، جس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی چیلنجز بڑھ چکے ہیں اور لیویز کی پیشہ ورانہ تربیت ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اتنی مؤثر نہیں، لیکن فیصلے قبائلی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیے بغیر حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان میں دہشت گردی کے بدلتے رجحانات سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ پولیسنگ کی ضرورت ہے۔ لیویز فورس کی صلاحیت اور تربیت اس جنگ کے تناظر میں محدود ہے۔ تاہم انضمام کے طریقہ کار میں شفافیت اور شراکت داری کا فقدان لیویز اہلکاروں میں عدم تحفظ کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

حکومتی موقف کیا ہے؟

ڈائریکٹر جنرل لیویز بلوچستان عبدالغفار مگسی نے کہا کہ لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ سکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں لیویز اور پولیس کا انضمام امن و امان کے یکساں نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے۔ لیویز کے زیر انتظام علاقوں کو پولیس میں ضم کرنے سے امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ گزشتہ دنوں عسکریت پسندوں کے حملوں کے دوران پیشہ ورانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر 100 لیویز اہلکاروں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

احتجاج کی آڑ میں کسی اہلکار کو ضابطے کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت نے ژوب، مکران اور رخشاں ڈویژن کے 13 اضلاع کو لیویز سے پولیس فورس میں ضم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان اضلاع میں رخشاں ڈویژن کے چاغی، واشک، نوشکی اور خاران، ژوب ڈویژن کے بارکھان، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، موسیٰ خیل، شیرانی اور ژوب جبکہ مکران ڈویژن کے گوادر، کیچ اور پنجگور شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان تینوں ڈویژنز میں مرحلہ وار لیویز ایریاز کو پولیس میں ضم کیا جا رہا ہے اور انتظامی معاملات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس میں انضمام کے بعد لیویز اہلکاروں کو خصوصی تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔

ادارت: امتیاز احمد

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے مزید کہا کو پولیس میں ضم لیویز اہلکاروں بلوچستان میں لیویز اہلکار لیویز فورس انضمام کے ڈویژن کے ہے لیکن کے لیے رہا ہے کہا کہ کیا جا نے کہا

پڑھیں:

حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔

معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔

  غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔

کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔

جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔

مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔

کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔

سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔

صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • بلوچستان حکومت کی بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست مسترد
  • حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
  • بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان
  • شاہ رخ خان نے شوبز کیریئر کے آغاز میں فلموں میں کام کرنے سے انکار کیوں کیا؟
  • کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا سنجاوی میں 4 نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کا اعلان
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟