پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل،' خواتین کو انصاف کب ملے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) بلوچستان کی بانو بی بی کا قتل منظر عام پر آیا تو کارروائی ہوئی۔ واقع پرانا تھا تاہم وائرل ہونے والی ویڈیو کم از کم اس حد تک تو تبدیلی لائی کہ حکام متحرک ہوئے۔ لیکن اس کے چند دن بعد ہی بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک جوڑے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لیکن چونکہ اس بار کسی نے فلم بندی نا کی تو واقع باقی کئی حادثات کی طرح نظرانداز کر دیا گیا۔
اس واقعے میں ایک 7 سال قبل محبت کی شادی کرنے والی خاتون 27 سالہ بے نظیر کو بھائیوں نے شوہر سمیت اس وقت فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ اہل خانہ سے ملنے کے لیے اپنے گھر جا رہی تھی۔ قتل کے اس کیس میں پولیس نے مقتولہ کے 5 بھائیوں کو نامزد کیا ہے۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ شعیب نے مقتولہ بے نظیر سے شادی کے بعد سسرال سے راضی نامہ بھی کیا تھا۔
(جاری ہے)
پولیس حکام کے مطابق مقتول شعیب کے بھائی نے بتایا ہے کہ مقتولہ کے بھائیوں نے گھر پر انہیں دعوت پر مدعو کیا تھا مگر راستے میں انہیں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ کوئٹہ کے قریب ڈیگاری کے علاقے میں بانو نامی خاتون کو شوہر سمیت قتل کرنے والے مرکزی ملزم جلال کو بھی پولیس تمام تر دعوؤں کے باوجود تاحال گرفتار نہیں کرسکی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے یا یہ منظر عام پر اب آنا شروع ہوئے ہیں؟
متنازعہ قبائلی فیصلے اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں
غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر پاکستان میں انسانی حقوق کی کمیشن نے شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
ایچ آر سی پی کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کے 178 سندھ میں 156 خیبر پختونخوا میں 201 جبکہ بلوچستان میں 75 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ غیرت کے نام پر درجنوں دیگر ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جو کہ رپورٹ نہیں کیے گئے ہیں۔ایچ ار سی پی بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئرپرسن، کاشف خان پانیزئی کہتے ہیں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قانون کے ارتقاء کا ایک سرسری جائزہ بہت ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ آج عدالتیں ایسے مقدمات کو کس نظر سے دیکھتی ہیں جو کہ ملک میں تسلسل کے ساتھ پیش آرہی ہیں۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات برسوں سے عدالتوں کے زیرِ غور آتے رہے ہیں۔ 2004 تک اس مسئلے سے متعلق کوئی مخصوص قانون سازی موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً، 2004 سے قبل کے عدالتی فیصلوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے، جو اکثر محدود تشریحوں اور امتیازی نوعیت کے فیصلوں پر مشتمل رہا ہے۔
حکومت کو اس اہم ترین قومی مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اور دور رس نتائج کے حامل حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔‘‘کاشف پانیزئی کا کہنا تھا کہ ریاستی سطح پر غیرت کے نام پر قتل کرنے والے ملزمان کو وہ سزا ئیں نہیں مل رہی ہیں، جن کے وہ حقدار ہیں۔ انہوں نے کہا ، ''جب تک عورت کو مرد کے برابر انسان نہ سمجھا جائے، یہ سلسلہ نہیں رکے گا۔
غیرت کے نام ہونے والے قتل کے اکثر کیسز میں قاتل متاثرہ خاندانوں کی طرف سے بھی معاف کر دیے جاتے ہیں، جس سے قانون بے اثر ہو جاتا ہے۔ملکی نظام میں انصاف غیر موثر
غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے ان واقعات کی ایک بڑی وجہ ماہرین قانون بھی ملکی نظام انصاف میں پائی جانے والی خامیوں کو سمجھتے ہیں۔ اسلام آباد میں مقیم سینیئر قانون دان بیرسٹر عمار خوشنود کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل کی دو اہم وجوہات میں ایک وجہ تعلیم کی کمی جبکہ دوسری وجہ ریاستی رٹ کی وہ کمزوری بھی ہے، جس پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''ملکی نظام انصاف پر اعتماد کی کمی بھی اس صورتحال کو گھمبیر بنا رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی اس حوالے سے بہت واضح ہیں۔ غیر ازدواجی تعلقات کے حوالے سے کسی فیصلے کے لیے 4 گواہوں کی موجود گی کی شرط اسی لیے رکھی گئی ہے تاکہ اس اڑ میں کسی کے ساتھ ناانصافی پیش نہ آئے۔ مرد اور عورت کی مرضی کی شادی کو غیر شرعی اور غیرقانونی طریقوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
گھروں میں بااختیار لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں، جو کہ بہت غلط ہے۔‘‘غیرت کے نام پر قتل اور سماجی توثیق کی ناکام کوششیں
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن، حمیدہ نور کہتی ہیں پاکستان جیسے معاشرے میں، خاندان کی "عزت" کو اکثر عورت کی خاموشی، اطاعت، اور قربانی سے ناپا جاتا ہے، اس لیے غیرت کے نام پر قتل محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک سماجی سانحہ ہے، جو ہر سال سینکڑوں زندگیاں نگل جاتا ہے۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "غیرت کے نام پر قتل کے واقعات روکنے کے لیے، 2004 میں نافذ کیے گئے کریمینل لاء ترمیمی ایکٹ کا حکومت کو از سرنو جائزہ لینا ہوگا۔ یہ قانون نفاذ سے لے کر اب تک خواتین و لڑکیوں کو حقیقی معنوں میں کوئی خاطر خواہ تحفظ فراہم نہیں کرسکا ہے۔ اس قانون کا مقصد غیرت کے نام پر ہونے والے تمام قتل کو غیر قانونی اور قابلِ سزا جرم قرار دینا تھا ۔
تاہم ان جرائم میں ملوث افراد اکثر سزاوؤں سے اس قانون میں موجود نقائص کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔"انہو ں نے مذید کہا،" 2004 کے قانون میں ترامیم کا بڑا حصہ پاکستان پینل کوڈ میں "قصاص اور دیت" سے متعلق دفعات سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن کچھ بنیادی خامیوں کو چھوڑ دیا گیا ہے جنہوں نے اس قانون کو مؤثر بنانے میں رکاوٹ پیدا کی۔ مسائل صرف قانون میں ہی نہیں بلکہ اس کے نفاذ میں بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ قاتل "معافی" اور "روایت" کے پردے میں بھی اکثر بچ نکلتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ خواتین کو قتل کرنے کا رجحان کئی وجوہات کی بنیاد پر غیرت کا بہانہ بنا کر اپنایا جاتا ہے، تاکہ سماجی توثیق حاصل کی جا سکے۔ "
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں غیرت کے نام پر قتل غیرت کے نام پر قتل کے انہوں نے کہا پاکستان میں جاتا ہے کے لیے
پڑھیں:
ڈیٹا محفوظ بنانے کی قانون سازی روکنے کیلیے بیونی دباو¿ں کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) سینیٹ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام میں سینیٹر افنان اللہ نے انکشاف کیا ہے کہ ہمیں باہر سے دباو¿ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کےلیے قانون نہ بنایا جائے، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے سے متعلق قانون نہ بنایا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔پلوشہ خان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں ہوا، اجلاس میں وزارت آئی ٹی کے دائرہ کار میں تمام بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام کی لسٹ قائمہ کمیٹی کو فراہم کرنے کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔ چیئرپرسن کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کمیٹی اجلاس میں پی ٹی سی ایل یو فون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام فراہم نہیں کیے گئے تھے، یہ ساری معلومات پبلک ہے اور کمیٹی کو اس کی تفصیلات فراہم کرنی چاہیے۔ اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے نے ملک بھر میں ڈیٹا چوری ہونے کے معاملہ پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈارک ویب
پر ڈیٹا موجود ہوتا ہے، یہ ڈیٹا کہاں سے نکلتا ہے، اس پر گہرائی میں انکوائری کی ضرورت ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ڈیٹا کو الگ الگ اداروں سے چوری کیا جاتا ہے اور پھر اکٹھا کرکے بیچا جاتا ہے، ڈیٹا کی مالیت اربوں روپے کی ہے اور یہ ہماری ناکامی ہے کہ ہم ڈیٹا محفوظ نہیں بنا سکے ہیں، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے کےلیے قانون نہیں بنایا گیا تو پھر ڈیٹا چوری ہوتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مثال کے طور پر جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسرائیل نے سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے ہی لیا تھا، سارا ڈیٹا ایران کے اہم لوگوں کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے لیا گیا تھا، ہمیں باہر سے دباو¿ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کےلیے قانون نہ بنایا جائے، یہ وزارت آئی ٹی پر الزام ہے، وزارت آئی ٹی کی نااہلی ہے ابھی تک ڈیٹا پروٹیکشن پر بل نہیں لا سکے۔ وزارت آئی ٹی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت بل کے مسودہ پر کام کررہی ہے، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل جاری ہے۔