Express News:
2025-08-04@17:30:36 GMT

جنک فوڈ کس خطرناک بیماری کے خطرات بڑھا سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT

ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برگر، پیزا جیسی غذائیں کینسر کی خطرناک قسم کا سبب بن سکتی ہیں۔

جرنل تھوریکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق پریزرویٹوز، ایڈیٹیوز اور ذائقہ بڑھانے والے کیمیکلز رکھنے والی الٹرا پروسیسڈ غذائیں پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ کے مطابق اب ایک نئی تحقیق میں ان غذاؤں کا پھیپھڑوں کے سرطان کے ساتھ تعلق سامنے آیا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ 2020 میں عالمی سطح پر اندازاً 22 لاکھ نئے کیسز سامنے آئے جبکہ اس بیماری سے 18 لاکھ افراد کی موت واقع ہوئی۔

محققین نے مزید کہا کہ الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کھپت کو محدود کر کے اس بیماری کے عالمی سطح پر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے اس سے قبل 2024 میں بی ایم جی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کا 32 بیماریوں کے خطرات کے ساتھ تعلق بتایا گیا تھا۔ ان بیماریوں میں قلبی مرض، کینسر، ٹائپ 2 ذیا بیطس، خراب ذہنی صحت اور قبل از وقت موت شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت نے نئی نمبر پلیٹس کی آخری تاریخ میں توسیع کر دی
  • سندھ حکومت نے نئی نمبر پلیٹس کی آخری تاریخ میں توسیع کردی
  • ملک بھر میں مزید بارشیں ہونے والی ہیں، این ڈی ایم اے کا الرٹ جاری
  • افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟
  • نوعمرلڑکیوں میں سروائیکل کینسرکی ویکسینیشن کیوں ضروری ہے؟
  • روزمرہ کے استعمال کی متعدد اشیاء کینسر کا سبب سن سکتی ہیں: تحقیق
  • آلو کی ابتدا ٹماٹر سے ہوئی، نئی تحقیق میں آلو کے ارتقا سے متعلق حیران کن انکشافات
  • اپوزیشن والے ذہنی بیماری کا شکار، چیخ و پکار کا فائدہ نہیں: عطا تارڑ
  • پیدائش کے وقت ہزاروں بچوں میں خطرناک وائرس کی موجودگی کا انکشاف