زباں فہمی258دارُالّسُرُور۔رام پور(حصہ سوم)
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
’’بیسویں صدی کی پانچویں دہائی کی بات ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈِت جواہر لال نہرو کے پرائیویٹ سیکریٹری او۔پی متھائی نے ایک دن قومی رہنما اور مجاہد ِ آزادی آچاریہ جے پی کرپلانی کو فون کیا،’میں او۔ پی متھائی ہوں، وزیراعظم کی رہائش گاہ سے بول رہا ہوں‘۔
کرپلانی جی نے جو اَپنی بذلہ سنجی اور ذہانت کے لیے مشہور تھے، برجستہ جواب دیا، ’میں آچاریہ کرپلانی ہوں اور اپنی ہی رہائش گاہ سے بول رہا ہوں‘‘۔ یہ اقتباس مضمون بہ عنوان ’دبستانِ رام پور کا منظوم تذکرہ‘ (از شوکت علی خاں ایڈووکیٹ رام پوری) سے لیا گیا ہے جو ممتاز شاعر ہوش ؔ نعمانی کی کتاب ’ادب گاہِ رام پور‘ میں شامل ہے۔ {اسی مضمون میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہے کہ گاندھی جی نے اپنے جنوبی افریقہ میں قیام کے دور میں، وہاں ایک پرائمری اسکول قائم کیا جہاں وہ اردو خود پڑھایا کرتے تھے}۔
ریاست رام پور کی ادبی تاریخ میں ایک موڑ ایسا آیا کہ بظاہر سب کچھ تلپٹ ہوکر رہ گیا ۔24اکتوبر 1794ء کو رام پور کے نواب کی انگریزوں سے جنگ کے بعد، نواب خاند ان کو دہلی، لکھنؤ و دیگر مقامات کی طرف جِلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔ وہاں قیام کے دوران میں نوابین اور اُن کے اہل خانہ کی مقامی شعراء سے دوستی ہوگئی۔
1840ء میں نواب احمد علی خاں رِندؔ کی وفات کے بعد، کوئی اولادِنرینہ نہ ہونے کے سبب، نواب غلام محمد خاں کے فرزند نوا ب محمد سعید خاں کو نواب رام پور بنادیا گیا۔ انھوں نے اپنے وقت کے تمام معروف شعراء کو اپنے ساتھ رام پور لے جاکر، اُن کی بھرپور سرپرستی کی۔ (ان شعراء کے اسماء پہلے ذکر کرچکا ہوں)۔ مومنؔ کا ذکر ماقبل کیا تھا کہ کسی کی شان میں قصیدہ کہنے کے لیے مشہور نہیں تھے، لیکن نواب سعید کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے، مبارک باد نامہ مع قطعہ تاریخ ارسال کرتے ہوئے، اُسی مومنؔ نے یہ بھی کہا تھا:
یعنی اس مُلک کے نصیب کھُلے
تیرے قدموں پہ کی جبیں سائی
اب ہمارے ناقدین اور مومنؔ کے مداحِین کچھ بھی کہتے رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نواب خاندان اور مومنؔ کے مابین دِلّی میں تحائف کا تبادلہ بھی ہوا کرتا تھا تاآنکہ ولی عہد (بعد اَزآں نواب) یوسف علی خاں ناظمؔ دِلّی گئے تو اِسی مومنؔ نے اُن کی شان میں فارسی زبان میں قطعہ تاریخ ِ استقبالیہ بھی کہا تھا۔ بات کی بات ہے کہ اپنے میرزا نوشہ بھی ’خوشامدگوئی‘ میں بہت سوں سے بہت آگے تھے۔ یہ جو مشہور ترین شعر ہے غالبؔ کا، یہ بھی ریاست کے ایک نواب، کلب ِ علی خاں کی شان میں کہا گیا تھا:
تم سلامت رہو پچاس برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
ابتداء میں ذکر ہوا ایک اہم کتاب میں شامل ایک واقعے کا، اب ہم اس بابت بات کرتے ہیں:
رام پور کے وابستگان نے بعض ادبی کام بہت ہی مختلف اور منفرد کیے ہیں جیسے ہوشؔنعمانی کی کتاب ’ادب گاہِ رام پور‘ ہے جو اِس (سابقہ) ریاست کے تقریباً تمام قابل ذکر شعراء کا منظوم تذکرہ ہے۔ اس منظوم خراجِ تحسین کا آغاز قائمؔ (قیام الدین محمد) چاندپوری سے ہوتا ہے اور اختتام جوہرؔ باسودھوی پر۔ رام پور کے ادبی مرکز کی بناء اُس وقت پڑی جب یہاں قائمؔچاندپوری نے قدم رنجہ فرمایا۔ 1774ء (قیام ریاست) تا 1840ء کا دور، قائم ؔ اور اُن کے تلامذہ کا دور تھا۔ اُس دور میں بعض غیرمعروف شعراء نے اردو غزل کی شمع جلائے رکھی اور پھر جرأت ؔ کے شاگرد شاہ رؤف رافتؔ مجددی اور رافتؔ کے شاگرد غلام نبی، عبرتؔ اور قربتؔ نے اپنا رنگ جمایا۔ نظام ؔ اور داغؔ سے بہت پہلے عزتؔ نے ایسا شعر کہہ کر قائمؔ وجرأت کا اسلوب اور نمایاں کردیا تھا:
دیکھ آئینے میں وہ زُلف ِ دوتا کہتے ہیں
لو گ سچ کہتے ہیں، اس کو جو بَلا کہتے ہیں
{22مارچ 1933ء کو محلہ ٹھوٹھر، رامپور یوپی میں صوفی سعادت یار خاں کے گھر پیدا ہونے والے شرافت یارخاں المتخلص بہ ’ہوشؔ نعمانی‘ کا شمار اپنے وقت کے ممتاز، کُہنہ مشق اور زودگو شعراء میں ہوتا ہے۔ اُن کے بعض اشعار زبان زدِخاص وعام تھے جیسے:
وہ تو بتا رہا تھا کئی روز کا سفر
زنجیر کھینچ کر جو مسافر اُتر گیا
(صباؔافغانی رام پوری کی اچانک وفات کا سُن کر کہا تھا)
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہرحال کتابوں میں ملوں گا تم کو
( ماہنامہ الحسنات، رامپور کے ’مودودی نمبر‘ کے سرورق کے لیے فی البدیہہ کہا تھا)
چاندی کے چراغوں سے نہ جل جائے جوانی
ماٹی کے دیے چھوڑ کے گاؤں سے نہ جاؤ
ہوشؔ نعمانی اس قدر زود گو تھے کہ ایک ہی نشست میں ڈیڑھ دوسو اشعار یا مرثیے کے پچیس تیس بند کہہ دیتے تھے۔ اُن کی تصانیف وتالیفات کی فہرست پیش خدمت ہے:
اندر دھنش (ہندی) کلام و سوانح شعرائے رامپور (1968ء )، میرا وطن (اردو نثر): رام پور کی چند شخصیات کا تعارف و تصاویر، گھاؤ شبدوں کے (ہندی) نظمیں، غزلیں، گیت: (1977ء)، زم زم و فرات (اردو) نعت، قصائد، مناقب، مرثیہ و سلام، کائنات (اردو) 1986ء نعت، مراثی، سلام، ’شہادت نامہ‘ (اردو) سلام و مسدس کا مجموعہ: ( 1994ء)، ادب گاہِ رامپور:
شعرائے رامپور کا منظوم تذکرہ، انجانی راہیں (نظمیں، غزلیں)، چھیڑ خوہاں سے (اردو) نظمیں، غزلیات، رباعیات، مرتب عبداللّہ خالد: (2004ء )، آئینہ مسدس (مراثی) مرتب عبداللّہ خالد: 2006ء آئینہ مسدس (بار دوم): 2009ء، بیاں اپنا (مجموعہ غزلیات) مرتب: عبداللّہ خالد:2008ء ، اِتمام (منظومات و غزلیات) مرتب: عبد اللہ خالد: 2009ء۔ 21 اگست 2014ء کو یہ معروف ادیبوشاعر، بعارضہ سرطان خالقِ حقیقی سے جاملا}
رام پوری مکتب ِ شعری کا دوسرا دور 1840ء میں نواب یوسف علی خان ناظمؔ، تسکین دہلوی، موجدؔ، عنایتؔ، بیتابؔ، سروشؔ اور عبرتؔ جیسے شعراء کے ریاست میں ظہور۔یا۔داخلے سے شروع ہوا۔ اُس دور میں خالص تغزل کے سخنور مومنؔ کا تُوتی بول رہا تھا اور پھر ایسے میں رنگ چوکھا ہوا تو مصحفیؔ کے شاگرد، بیمارؔ اُبھرے جن کا شعر ہے:
سانس آہستہ لیجیو بیمارؔ
ٹُوٹ جائے نہ آبلہ دل کا
کہیے کیسا منفرد شعر ہے؟ اس شعر میں بہ یک وقت کئی صنعتیں جمع ہوگئی ہیں۔
1857ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے وقت تک دبستانِ رام پور علمی وادبی مرکز کے طور پر جانا جانے لگا تھا۔ جنگ کے بعد دِلّی ہی نہیں اُجڑی، ہند کے طول وعرض میں زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ایسے میں داغ ؔ دہلوی، امیرؔ مِینائی اور جلال ؔ لکھنوی جیسے قدآور شعراء نے رام پور کو اَپنا مسکن بنالیا۔
قائم ؔ چاندپوری کے منظوم تعارف میں ہوش ؔ نے لکھا:
قائم ؔ مِرے وطن میں اساسِ سخن ہیں ہوشؔ
بانی نظم وشعر و غزل کا چمن ہیں ہوشؔ
…………
قائم ؔ نہ تھے تو کچھ بھی نہ تھا میرے شہر میں
چرچا ادب کا اِن سے ہوا میرے شہر میں
میرزا غالبؔ کی شان میں ہوش ؔ صاحب یوں گویا ہوئے:
غالبؔ کے فن کو میرے وطن سے جِلا ملی
تخیل و طرزِ نو شہ کو رنگیں ضیاء ملی
کرامت اللہ شہیدیؔ کے لیے ہوشؔ صاحب نے کہا:
خان کرامت اللّہ شہیدی ؔ کا راستا
اِک ایک صنفِ شاعری سے جاکے مل گیا
ریاست کے نوابین کی شان میں ایک عمدہ نظم کے علاوہ اُنھوں نے انفرادی طور پر بھی اَبیات میں نام بہ نام خراج تحسین پیش کیا:
نواب احمد علی خاں رِندؔ:
احمد علی خاں رِند ؔ کی غزلوں میں تھا سُرور
یعنی کہ یہ تھے ساتویں نوّابِ رام پور
نواب یوسف علی خاں ناظمؔ:
یوسف علی خاں تھے نویں نواب ِ ذی شعور
ناظمؔ تخلص آپ کا، شہرت تھی دُور دُور
نواب کلب ِ علی خاں:
نواب حاجی کلب ِ علی خاں کی بات کیا
ہے اُن کی شاعری میں تصوف کا باغ سا
نواب حامد علی خاں رشکؔ:
حامد علی خاں رشکؔ نے وہ گُل کھِلائے ہیں
اپنے معاصرین کو حیرت میں لائے ہیں
نواب رضا علی خاں رجاؔ:
خانِ رضا علی نے تخلص ’رجا‘ رکھا
ہندی سے چونکہ اُن کو بَلا کا لگاؤ تھا
امیرؔ مینائی کو ریاست رام پور میں قیام سے اپنے شعری سفر میں بہت عروج ملا۔ ہوش ؔ نعمانی نے اُن کے لیے کہا:
مینائیؔ خانداں کو یہیں سے مِلا عروج
ایوانِ شاعری میں بلند اُن کے ہیں بُروج
داغؔ دہلوی کی شان میں ہوشؔ نے فرمایا:
دلّی میں داغ ؔ بعدِ ظفر ؔ ایک خواب تھے
میرے وطن میں آئے تو کھِلتا گلاب تھے
یہاں لائق توجہ یہ بات ہے کہ نواب میرزا داغ دہلوی نے اپنے استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق ؔ کی وفات کے بعد، شاہ ظفرؔ سے بھی اصلاح لی تھی جس سے دو باتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے:
ا)۔ بہادرشاہ ظفر ؔ یقیناً کوئی معمولی شعرگو نہیں تھے جو اُن سے اپنے وقت کے ایک مستند غزل گو نے اصلاح لی۔
ب)۔ داغ ؔ نے غالبؔ کی عظمت سے انکار کیے بغیر، استاد ہی کے تلمیذِخاص سے رجوع کیا (یہ اوربات کہ ظفرؔ نے بھی ذوقؔ کے بعد، غالبؔ سے اصلاح لی تھی)۔
ہوشؔ نعمانی نے رام پور آکر بسنے والے ممتاز شاعر مضطر ؔخیرآبادی کا منظوم ذکر اِس طرح کیا کہ مماثل الفاظ بھی مزہ دے گئے:
مضطرؔ نے خیرباد کہا، خیرآباد کو
مجبور کرکے رکھ دیا، شاہوں کی داد کو
یہ چند نمونے ’مُشتے ازخروارے‘ کے مصداق پیش کیے ہیں۔ ہوشؔ نعمانی نے باقاعدہ ادبی تاریخ نظم کرنے کی بجائے رواں اور فی البدیہ تذکرہ مرتب کردیا جس میں کسی بھی شاعر کا سرسری تعارف سامنے آجاتا ہے۔ اہل نقدونظر اس کام کی اہمیت کے متعلق گفتگو کرسکتے ہیں، میرا مقصد اِس کی طرف توجہ دلانا ہے۔
رام پوریات میں نثر کا خانہ بہت وسیع اور وقیع ہے۔ اس ضمن میں منظوم سے کہیں زیادہ منثور (نثر میں لکھی گئی) تذکرہ نگاری کا باب اہل ذوق کی توجہ چاہتا ہے۔ ابتدائی یا قدیم دور کی بات کی جائے تو پہلا نمایاں نام مولوی قدرت اللہ شوق ؔ کے تذکرے ’طبقات الشعرا‘ کا ہے جو انھوں نے فقط رام پور ہی میں نہیں، بلکہ لکھنؤ، بدایوں، آنولہ، بریلی، رامپور اور روہیل کھنڈ کے دیگر شہروں میں قیام کرکے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔
اسی دورمیں قائم چاند پوری نے ’’مخزن ِنکات‘‘ لکھا، جس کا بڑا حصہ آنولہ اور رام پور میںنیز بقیہ دِلّی، اودھ اور شاہجہاں پور میں قیام کے وقت مکمل کیا ;یاد رکھیں کہ آنولہ بھی 1774تک ریاست رامپور کا حصہ تھا۔ یہ شہر درحقیقت ریاست رام پور کے بانی نواب فیض اللّہ خاں کے چھوٹے بھائی نواب محمد یار خاں کی جاگیر میں شامل تھا جو خود بھی بڑے بھائی کی طرح علم وادب کی سرپرستی میں ممتاز تھے۔ اُن کے دربار سے منسلک مشاہیرِ سخن میں مولوی قدرت اللّہ شوق، قائم چاند پوری اور غلام ہمدانی مصحفی جیسے بڑے نام شامل تھے۔
{یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ قائم کا یہ تذکرہ ہندوستان میں تذکرہ نگاری کی تیسری اینٹ تھا ;ماقبل میرؔ کا ’نکات الشعراء‘ 1751میں مکمل ہوکر دھوم مچا چکا تھا جبکہ اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہی ’تذکرہ ریختہ گویاں‘ بزبان فارسی (یعنی اردو شعراء کا تذکرہ) بھی مرتب ہوگیا جس کے فاضل مؤلف کا نام تھا فتح علی الحسینی گردیزی، مگر ریختہ ڈاٹ آرگ پر موجود نسخے میں سن تالیف 1760لکھا گیا ہے}۔ یہاں ایک اور بات بتانی ضروری ہے: یہ دونوں تذکرے ریاست رام پور کے قیام سے پہلے کے ہیں، اس لیے رام پور کا اوّلین تذکرہ، مولوی غلام جیلانی رفعت کا تحریرکردہ ’’ہشت خلد‘‘ ہے۔ موصوف روہیل کھنڈ اور رامپور کے اُستاد شعراء میں شمار ہوتے تھے۔
عتیق جیلانی سالک نے لکھا کہ ’’نجو خاں ولد مستقیم خاں ولد کبیر خاں نے مولوی غلام جیلانی رفعت سے شعرائے اردو کا تذکرہ ہشت خلد مرتب کرانا شروع کیا، غلام جیلانی کی وفات ہوجانے سے کا م رک گیا۔ نجو خاں نے تسلیم (محمدکبیر خاں)، اکرم، عنبر، (عنبر شاہ آشفتہ و عنبر) جیسے علما و شعرا کی ذمے داری لگائی کہ تذکرہ مکمل کریں.
’جامِ جمشید‘ (اصل نام تکملۃ الشعراء) ریاست رام پور میں لکھا جانے والا دوسرا تذکرہ ہے جس کے مؤلف مشہور شاعر مولوی قدرت اللہ شوق ؔ نے 1244ھ مطابق-1829 1828میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس کتاب میں عرب وعجم کے شعراء کے کلام و احوال فارسی زبان میں قلم بند کیے گئے ہیں۔ اوّل الذکر اور مؤخرالذکر دونوں وقیع تذکروں کے قلمی نسخے رامپور رضا لائبریری کی زینت ہیں۔ رام پور میں تیسرا تذکرہ ایک فرینچ کپتان جارج فانتوم، معالج نواب احمد علی خاں رندؔ کی تالیف ہے جس کا نام ’تذکرہ شعرائے رامپور‘ ہے اور یہ کتاب 1275ھ مطابق-1859 1858میں مکمل ہوئی، جبکہ فارسی اور اُردو پر یکساں عبور کے حامل فرینچ ڈاکٹر نے حسبِ روایت نثر فارسی میں لکھی اور نمونہ کلام اردو میں نقل کیا۔
اس کا اردو ترجمہ 2019 میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی (بھارت) نے شایع کیا۔ یہ ترجمہ ڈاکٹر مصباح احمد صدیقی کا کارنامہ ہے۔ کپتان فانتوم خود بھی شاعر تھے اور ’صاحب‘ اور ’جرجیس‘ تخلص کرتے تھے۔ خاکسار نے کوشش بہت کی، مگر کپتان کا احوال بزبان انگریزی یا فرینچ انٹرنیٹ پر دستیاب نہ ہوسکا۔ اندازہ ہے کہ فانتوم درحقیقت Phantom ہوگا۔ (جاری)
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: احمد علی خاں ر ریاست رام پور رام پور میں کی شان میں رام پور کے کا منظوم رام پوری یوسف علی میں قیام کہا تھا کے لیے ہ خالد کے بعد کی بات پور کا
پڑھیں:
زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
ہمارے ذرایع ابلاغ (عُرف میڈیا) کی مثال خودرَو جنگل کی سی ہے کہ بس کسی نے کوئی تخم ڈالا نہ ڈالا، اِدھر اُدھر سے، ہوایا بارش یا کسی اور وسیلے سے تخم ریزی ہوئی اور مخصوص حالات میں یا مخصوص ومحدود ماحول میں بہت سے پودے درخت بنے، جھاڑیاں ۔یا۔ جھاڑ جھنکاڑ بنتے بنتے گویا چند برسوں میں ایک ایسا جنگل کھڑا ہوگیا کہ جس کی حالت میں سُدھار، کسی متعلق فرد یا سرپرست کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے کہ صاحب! اگر آپ کو کوئی پوچھتا نہیں یعنی عوامی بولی (Slang) میں کہیں کہ Lift نہیں کراتا تو آپ ایسے سخت تبصرے کرتے ہیں۔
{کوئی پچیس سال پہلے جب ہمارے خبررَساں ٹیلیوژن چینلز(News TV channels) کا ’’سیلابی در‘‘ (Floodgate) کھُلا تھا تو اِبتدائی برسوں میں (بلکہ مابعد بھی، وقفے وقفے سے) اس راقم کا متعدد چینلز میں جانے اور ’’خوار ‘‘ ہونے کا کئی مرتبہ تجربہ ہوا، ایک بہت بڑے چینل میں ’پیشکش‘ بھی ہوئی جو ہم نے بوجوہ ٹھکرادی.....اصل بات یہ کہ جب اُس دور میں، خاکسار اپنی عادت سے مجبور ہوکر، ایسے ’ شُترِ بے مہار‘ جیسے چینلز کے متعلق کہیں یوں اظہارِخیال کرتا کہ فُلاں فُلاں معاملے میں، خصوصاً صحتِ زبان کے باب میں، یہ صحیح نہیں یا یُوں نہیں، یُوں ہونا چاہیے تو بعض لوگ چِڑ کر، میرے سامنے ہی ۔یا۔کبھی پیِٹھ پیچھے کہتے ،’’یہ آپ کی Frustration بول رہی ہے ;آپ کو کہیں Chance نہیں ملا تو آپ ایسا کہتے ہیں‘‘۔ یا۔ بعض لوگوں نے یہ کہہ کر اپنی اور ہماری اوقات بتائی کہ ’’اتنے ہی قابل ہوتے تو کسی ٹی وی چینل میں کسی بڑے عہدے پر کام کررہے ہوتے‘‘}۔
یہ چینلز اور پھر اِ ن سے منسلک یا متأثر ہونے والے اخبارات وجرائد نہ صرف اُردو کا ستیاناس کرنے پر تُلے رہتے ہیں، بلکہ حسبِ منشاء دنیا کی ہر زبان کا ہر نام یعنی اسم ِ معرفہ بھی بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں۔ پچھلے مضمون میں چند تازہ مثالوں کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ہمارے شعبہ خبر کے لوگ، سب سے زیادہ جس زبان کی ایسی تیسی کرتے ہیں، وہ عربی ہے۔ (ہاں جہاں جہاں ان کی لاعلمی عروج پر ہو، انگریزی، فرینچ اور دیگر مغربی زبانوں کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک کرنے سے نہیں چُوکتے)۔
ماضی میں اس بارے میں متعددکالم اور مضامین لکھے جانے کے باوجود، تصحیح اِملاء و تلفظ کا باب ہنوز نامکمل ہے۔ ہمیں ایک ہی نام بہ یک وقت دس پندرہ یا کبھی تو اِس سے بھی زیادہ ٹی وی چینلز کی خبروں میں غلط سننے کو ملتا ہے اور پھر مَرے پہ سَو دُرّے کے مصداق اخبارات بھی بھیڑچال کا عملی نمونہ فراہم کرنے سے نہیں چُوکتے۔ یہاں مناسب بلکہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ عالمی تناظُر میں بہت عام اور مشہور اسمائے معرفہ کی چند مثالیں پیش کی جائیں جن کا ماخذ عربی ہے اور جو تقریباً تمام اردو چینل (نیز اُن کی تقلید میں مقامی/علاقائی زبانوں کے چینل) ہمیشہ یا اکثر غلط ہی بولتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں شامل، سب سے بڑی ریاست، اَبوظبی کو ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ بلکہ عوام وخواص کی غالب اکثریت ’ابوظُہہ۔بِی‘ یا انگریزی کے اثر سے ابو۔دھابی (Abu Dhabi) لکھتی پڑھتی اور کہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حضرات ابوظبی ہی میں رہتے ہیں اور جب یہاں پاکستان آتے ہیں تو ابو۔دھابی یا ابودہابی کہتے ہیں۔ اسی طرح امارات میں شامل دوسری ریاست دُبئی کو ہمارے لوگ دو۔بئی لکھ دیتے ہیں، بلکہ بہت پہلے کسی نے مجھے ٹوکا بھی تھا کہ آپ نے دوبئی کو دُبئی کیوں لکھ دیا۔
{عربی سے ہٹ کر بات کروں تو ایک اور لسانی لطیفہ پیش کرسکتا ہوں۔ سندھ کا ایک شہر ہے خیرپُور مِیرس۔ یہ نام انگریز کا دیا ہوا ہے یعنی Khairpur Mirs۔یا۔ مِیروں /ٹالپُروں کا خیرپُور۔ ماضی قریب میں ایسے دو تین افراد سے واسطہ پڑا جو وہیں کے رہنے والے تھے مگر اپنے شہر کا نام ’’خیر پور مِی رَس‘‘ لے رہے تھے}۔
ہمارے ذرایع ابلاغ میں افریقی مسلم ملک الجزائر کو فرینچ/ انگریزی نام الجیریا ( Algeria) سے زیادہ یاد کیا جانے لگا ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا سرکاری نام الجمہوریۃ الجزائریۃ الدیمقراطیہ ) (People's Democratic Republic of Algeria ہے اور اِس کا مختصر نام الجزائر مدتوں سے اردو میں موجود ہے، مگر ہمارے ذرایع ابلاغ سے منسلک بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ یہ نام دارالحکومت الجزائر ہی کے نام پر رکھا گیا ہے مگر اُسے انگریزی میں الجیریا کی بجائے الجیئر (Algiers ) کہتے ہیں (فرینچ لفظ ہے، آخری حرف ساکن کے ساتھ)۔
اَلاَخضَر اَلابرہیمی نہ کہ لخدر براہیمی (Lakhdar Brahimi): اقوام متحدہ کے سابق ایلچی اور الجزائر کے سابق وزیرخارجہ جن کا نام کوئی دس پندرہ سال پہلے بہت زیادہ لیا جاتا تھا (مگر غلط: لخدر) گویا زباں زدِخاص وعام تھا۔ بات کی بات ہے کہ ابراہیم سے ابراہیمی اور پھر براہیمی درست ہے، مگر اصل نام الاخضر یعنی سبز کو بِگاڑ کر ’’لخدر‘‘ کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں!
علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ اِلّا اللہ
اور اُن کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ کے ایک شعر میں ’براہیمی‘ بھی استعمال ہوا:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوَس چھُپ چھُپ کے سِینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
اسی طرح کا ایک اور نام بھی ماضی میں بہت زیادہ سننے پڑھنے کو ملتا تھا اور وہ بھی غلط: صائب عریقات (فلسطینی مذاکرات کار) کو بزبانِ انگریزی Saeb Erekat لکھا جاتا ہے۔ ہمارے چینلز اور اخبارات نے یہ نام سائب ارکات اور سائب اریکات بنا دیا۔
القاعدہ کو اِس قدر کثرت سے لکھا، پڑھا، پڑھایا اور سُنایا گیا کہ بہت سے لوگ اس کا صحیح املاء ہی بھول گئے یا اُنھوں نے جاننے کی سعی کیے بغیر ’القائدہ‘ لکھنا شروع کردیا، غالباً یہ وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے بچپن میں ’قاعدہ ‘ نہیں پڑھا اور ’قائدہ‘ کہیں لکھا دیکھ کر یاد کرلیا۔ اسی تنظیم کے دوسرے سربراہ کا نام ہمارے یہاں اَیمَن اَلظواہِری ( اَظ۔ظوا۔ہِری: اس نام میں لام نہیں بولا جاتا) کی بجائے ایمن اَلزواہِری لکھا جاتا رہا جو کسی بھی طرح درست نہیں۔ اس غلطی کا سبب انگریزی سے اندھا دُھند نقل اور کسی عربی ماخذ یا کسی بھی عالم فاضل شخص سے معلوم نہ کرنا ہے۔
ہمارے عربی داں دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی بتاتے ہیں کہ ’القاعدہ‘ کا مطلب ہے، اَڈّہ، عمارت کی بنیاد یا ضابِطہ، جبکہ ’القائدہ‘ سے مراد ہے پھیلا ہوا لمبا ٹِیلہ ۔یا۔ آگے رہنے والا (کارواں یا قطار میں) اونٹ۔ اب جنھیں اونٹ کی سواری کا شوق زیادہ ہو، وہ ’القاعدہ‘ نہ لکھا کریں، القائدہ ہی پر ڈٹے رہیں۔
عربی میں ’اَل‘ کا استعمال کلمہ تخصیصی (Definite article) کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی سی بات ہمارے خواندہ لوگ عموماً یاد نہیں رکھتے اور اَسمائے معرفہ کے معاملے میں اُلجھن کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرایع ابلاغ نے ایک اور عربی لفظ ’آل‘ کو گڈ مڈ کردیا ہے یعنی اگر کسی نے نام کے ساتھ نسبت لگی ہے، آل، تو وہ اسے ’ال‘ بنادیتے ہیں۔ شیخ زایدبن سلطان آل نہیان (6 مئی1918ء تا 2 نومبر 2004ء) کا نام ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ میں بلکہ عام گفتگو میں بھی بکثرت غلط لیا جاتا ہے۔ لوگ عموماً شیخ زید ۔بن۔سلطان ۔اَل۔نَہیَان لکھتے پڑھتے اور کہتے سُنائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ’ال‘ کے استعمال کی مثالیں بھی موجود ہیں:
قطر کے موجودہ اَمیر کا نام شیخ تَمِیم بن حَمَد الثانی (SheikhTamim bin Hamad Al Thani) ہے۔ اُنھیں یار لوگ تمیم بن حماد۔ اَتھ۔تھانی پڑھ دیتے ہیں کیونکہ یہ تو ۹۹ فیصد پاکستانی خواندہ (عرف دیسی انگریزوں) کو معلوم ہی نہیں کہ TH کی آواز، عربی کے ’ث‘ کے مماثل بھی ہے، اسی لیے حدیث کو Hadith لکھا جاتا رہا ہے مگر ہمارے برگر بچّوں کو بہت دِقّت ہوتی تھی، اس لیے آکسفرڈ اور کیمبرج نے اپنا معیار تبدیل کرتے ہوئے Hadeesکو بھی صحیح قرار دے دیا، حالانکہ حدیس کہنے سے یہ کچھ اور ہی ہوجاتا ہے۔
امیر موصوف کے والد مرحوم اور دیگر اَراکین ِ خانہ کو بھی ’حمََد‘ کی بجائے ’حماد‘ (بلکہ بعض جگہ تو میم پر تشدید کے ساتھ) اور اَث۔ثانی کی بجائے اَتھ۔تھانی لکھا، پڑھا اورکہا جاتا رہا ہے۔ ’ال‘ کے استعمال کی ایک اور مثال اُردَن ( نہ کہ اُردُن) کے بادشاہ عبداللّہ اَلثانی کی ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب کے عمائدین کے یہاں ’ال‘ کا استعمال بہت عام ہے، البتہ ’آلِ سعود‘ کو ’اَل۔سعود‘ ۔یا۔ اَس سعود لکھنا اور کہنا درست نہیں!
پچھلے مضمون میں یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ رام اللّہ کے دو معانی ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قدیم کنعانی زبان کے لفظ ’رام‘ بمعنیٰ بلند علاقہ کے ساتھ عربوں نے اللّہ کا اضافہ کرکے اسے خالص اسلامی عربی نام بنادیا گویا مفہوم ہوا، اللّہ کا بلند وبالا علاقہ، دیگر یہ کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عربی میں رام کا مطلب ہے ’ارادہ۔یا۔فیصلہ کرنا‘، چنانچہ ’’رام اللّہ‘‘ کا مطلب ہوا: اللّہ نے ارادہ کیا یا اللہ نے فیصلہ کیا۔ میرا لسانی قیاس یہ کہتا ہے کہ پہلی توجیہ ہی صحیح ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کے زیرانتظام، مغربی کنارے کے جنوب میں واقع، علاقہ الخلیل، انگریزی میں Hebron کہا جاتا ہے، مگر تعجب ہے کہ ہمارے یہاں بھی لوگ انگریزی یا صہیونی یہودی/اسرائیلی نام ہیبرون پکارنے اور لکھنے لگے ہیں۔ یہ شہر، یہودیوں کے چار مقدس شہروں میں شامل ہے۔ دیگر تین کے نام یہ ہیں: یروشلم یعنی بیت المقدس، الخلیل، طبریا(Tiberias) اور صَفَد (عبرانی میں زیفاتTzfat or Zefat:) جسے سہواً سفید بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح فلسطین ہی کا قدیم علاقہ اَرِیحا بھی ہے جس کا نام اسلامی تاریخ میں بھی منقول ہے، اس کا انگریزی نام Jericho ہمارے یہاں نقل ہورہا ہے۔
مُلک شام کا قدیم اور تاریخی شہر حَلَب، انگریزی میں Aleppo کہلاتا ہے۔ یہ شہر دنیا کے اُن قدیم شہروں میں شامل ہے جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد ہیں۔ آرامی (Aramaic) جیسی انتہائی قدیم زبان میں اسے حلبہ (Halba) کہتے تھے، پھر عَکّادی ۔یا۔اَکّادی (Akkadian) زبان میں اسے حَلَب کہا گیا اور یہی نام عربی میں اپنالیا گیا۔ ابنِ بَطّوطہ کے سفرنامے میں مذکور رِوایت کی رُو سے اس شہر کے قدیم مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں اور مسافروں کو اَپنی بکریوں کا دودھ پیش کیا کرتے تھے اور اِسی وجہ سے اس جگہ کو ’’حَلَبِ اِبراہیم‘‘ کہا جانے لگا تھا۔
حَلَب کا نام ہماری اسلامی تاریخ میں بھی بہت مشہور ہوا۔ سپہ سالارِاِسلام ’امین الامّت‘ حضرت ابوعًبیدہ بن الجرّاح (رضی اللہ عنہ‘) نے، سن16ہجری (مطابق 637 عیسوی) میں امیرالمؤمنین سَیّذُنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ‘) کے عہد ِ خلافت میں اسے فتح کرکے اسلامی حکومت کا حصہ بنایا۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری درسی کتب میں یہ نام ہنوز موجود ہے، کوئی نامانوس یا متروک نام نہیں، مگر ہمارے ٹی وی چینلز نے کچھ عرصے سے انگریزی نام اپنالیا ہے، کیونکہ وہاں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہیں جو اَصل عربی نام جاننے کی زحمت گوارا کریں۔
رَفَح نامی فلسطینی شہر کو رومن رسم الخط میں Rafah لکھا ہوا دیکھ کر ہمارے چینلز اور اخبارات نے ’’رفاہ‘‘ بنا دیا۔
کرکٹ کے شعبے میں شارجہ کا نام بہت مشہور ہے، یہ اصل میں شارقہ ہے جس کا انگریزی رُوپ ہمارے یہاں اپنالیا گیا اور آج لوگ باگ شارقہ سے واقف نہیں۔ عرب دنیا میں دو نام فقط ہجّے کے فرق سے مختلف ہیں، ورنہ بظاہر ایک ہی ہیں اور اِسی وجہ سے لوگ انھیں گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ عَمّان (Amman)، اُردَن کا دارالحکومت ہے جبکہ عُمان (Oman) ایک خلیجی ملک کا نام ہے جس کا دارالحکومت مسقط ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ان دونوں ناموں کو خلط ملط کرنے کے علاوہ، عُمان کو ’’اومان‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ فِلَسطِین کا ایک بڑا شہر ہے نابلُس (Nablus)، اسے ہمارے یہاں سہواً نابلُوس کہا جانے لگا۔ ایک اور فلسطینی شہر ’طولکرِم‘ (Tulkarem) ہے جسے ہمارے یہاں تُلکرم لکھا جانے لگا ہے۔
یہ فہرست بہت طویل ہے مگر قارئین کرام بشمول ذرایع ابلاغ سے متعلق لوگ پہلے اسے ہی پڑھ کر، سمجھ کر، پرچار کریں اور دوسروں کو دعوتِ اصلاح دیں تو سارے نام گنوانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہدیہ سپاس: اس مضمون کی تیاری میں بزم زباں فہمی کے معزز رُکن اور میرے دیرینہ (غائبانہ) دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی کی نگارش بعنوان ’’اردو ذرایع ابلاغ میں عربی زبان کی بعض عام اغلاط کا جائزہ‘‘، مشمولہ معارف مجلّہ تحقیق، بابت جنوری تا جون 2015ء سے استفادہ کیا گیا ہے۔