بنگلا دیش میں عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان؛ طلبا کا جشن
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
بنگلا دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں عام انتخابات فروری 2026 میں ہوں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس بات کا اعلان سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے ایک سال مکمل ہونے کے دن پر کیا گیا ہے۔
عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے قوم سے خطاب میں کہا کہ عبوری حکومت کی جانب سے وہ چیف الیکشن کمشنر کو باضابطہ خط لکھیں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس خط میں درخواست کی جائے گی کہ انتخابات رمضان سے پہلے فروری 2026 میں کرائے جائیں جو اپریل میں ہونا تھے۔
محمد یونس نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن حتمی تاریخ کا تعین کرے گا لیکن اپنی اس تقریر کے بعد وہ "انتقال اقتدار" کے سب سے اہم مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔
عبوری سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ سب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ ہم آزاد، شفاف اور پرامن انتخابات کروا سکیں تاکہ تمام شہری 'نئے بنگلا دیش' کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
سربراہ محمد یونس کے اس خطاب کے موقع پر بڑی سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما بھی موجود تھے جہاں انھوں نے قومی اتحاد، جمہوری اصلاحات اور جامع حکمرانی کے لیے روڈ میپ کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل عبوری سربراہ محمد یونس نے اپریل 2026 میں انتخابات کرانے کی تجویز دی تھی، تاہم بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دیگر جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ الیکشن رمضان سے پہلے فروری میں ہوں۔
طلبہ تحریک کی قیادت کرنے والے گروپ نے ایک سیاسی جماعت، نیشنل سٹیزن پارٹی بنائی ہے جو ملک میں فوری انتخابات کے لیے مہم چلا رہی تھی۔
بی این پی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا، جو حسینہ کی سخت سیاسی حریف ہیں وہ یہی مطالبہ کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ طویل طلبا احتجاج کے نتیجے میں گزشتہ برس 5 اگست کو وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اپنا طویل آمرانہ اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئی تھیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محمد یونس نے
پڑھیں:
جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-6
سید آصف محفوظ
پاکستان کی سیاسی اور فکری تاریخ میں جماعت ِ اسلامی ہمیشہ ایک اصولی اور نظریاتی تحریک کے طور پر نمایاں رہی ہے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک فکری و اخلاقی مدرسہ ہے۔ جس کا نصب العین دینِ اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں غالب کرنا ہے۔
قیام اور نظریاتی بنیاد: 26 اگست 1941ء کو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ اْس وقت برصغیر میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں، مگر مولانا مودودی نے ان سب سے ہٹ کر ایک نیا زاویہ فکر پیش کیا: ’’اسلامی انقلاب‘‘۔ ان کے نزدیک سیاست، معیشت، اخلاق اور سماج سب کچھ اسلام کے تابع ہونا چاہیے۔ یہی فکر آگے چل کر جماعت ِ اسلامی کے منشور اور تحریک کی اساس بنی۔
تحریک سے جماعت تک: قیامِ پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے نئے ملک کو ’’نعمت ِ الٰہی‘‘ قرار دیا اور اس کے نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی تنظیمیں، مزدور و طلبہ ونگ؛ سب اسی فکر کے عملی مظاہر ہیں۔ یہ جماعت ہمیشہ ایک متوازن اور باوقار آواز کے طور پر ابھری۔ آمریت کے خلاف، بدعنوانی کے مقابل، اور آئین میں اسلامی دفعات کے تحفظ کے لیے۔
قیادت کا تسلسل: سید مودودیؒ سے میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ، سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن تک جماعت کی قیادت نے نظریے کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھایا۔ یہ قیادت محض سیاسی نہیں بلکہ فکری و تربیتی بھی ہے۔ جماعت ہمیشہ کردار کو اقتدار پر مقدم رکھتی آئی ہے۔
اجتماعِ عام 2025: حافظ نعیم الرحمن نے اعلان کیا ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعِ عام 21 تا 23 نومبر 2025ء کو مینارِ پاکستان، لاہور میں منعقد ہوگا۔ موضوع ہے: ’’بدل دو نظام‘‘ جو محض نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم کا اظہار ہے۔ یہ اجتماع پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران کے پس منظر میں اسلامی نظامِ عدل و انصاف کی طرف دعوت ہے۔
مقاصدِ اجتماع: 1۔ عوام میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا شعور بیدار کرنا۔ 2۔ نوجوانوں کو زمانے کے بدلتے حالات تعلیم، قیادت اور اخلاقی کردار کے لیے تیار کرنا۔ 3۔ پرامن، منظم اور اصولی جدوجہد کی راہ دکھانا۔ 4۔ آئینی و جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے نظامِ زندگی کی اصلاح۔ ملک بھر میں جماعت کے کارکنان اس اجتماع کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ہر ضلع، ہر یونٹ، ہر ونگ اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کارکنوں کے مطابق یہ اجتماع محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ ’’تحریکی تجدید‘‘ ہے، جہاں نظریہ، تنظیم، اور عوامی رابطہ تینوں کا حسین امتزاج دکھائی دے گا۔
جماعت اسلامی کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ یہ وقتی مفادات نہیں، اصولوں کی سیاست کرتی ہے۔ اجتماعِ عام ’’بدل دو نظام‘‘ اسی تسلسل کی نئی کڑی ہے۔ ایک اعلان کہ تبدیلی تب آتی ہے جب ایمان، کردار اور قیادت ایک سمت میں چلیں۔ ممکن ہے کہ نومبر 2025 کا یہ اجتماع پاکستان کی سیاست میں ایک نیا باب رقم کرے، وہ باب جہاں سیاست نظریے کی بنیاد پر ہو، نہ کہ مفاد کی۔