وزیراعظم کی مستونگ میں فورسز کی گاڑی پر دہشتگرد حملے کی مذمت
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
وزیراعظم نے شہید میجر محمد رضوان طاہر، نائیک ابن امین اور لانس نائیک محمد یونس کو خراج عقیدت پیش کیا، جبکہ فتنہ الہندوستان کے چار دہشت گردوں کی ہلاکت پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردوں نے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ کیا، دھماکے میں میجر سمیت 3 فوجی جوان شہید ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کے جوان ملک کی حفاظت کیلئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پُر عزم ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی مستونگ حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ قوم کی حمایت سے بھارتی اسپانسرڈ دہشتگردوں کا صفایا کریں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ کیا گیا، دھماکے میں میجر سمیت 3 فوجی جوان شہید ہو گئے۔
پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گردوں نے مستونگ میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کو آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا، دھماکے میں میجر محمد رضوان طاہر، نائیک ابن امین اور لانس نائیک محمد یونس شہید ہوگئے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: فورسز کی گاڑی پر سیکیورٹی فورسز مستونگ میں
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔